| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اوباما سے توقع کیوں؟

نعیمہ احمد مہجور | 2010-11-09 ، 1:50

یہ بھی کیسا المیہ ہے کہ بیشتر مسلمان ملکوں یا خطوں میں عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی مداخلت کے بعد عوام میں امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں مگر ان خطوں میں مسائل یا تنازعات کو حل کرنے کی امید بھی امریکہ سے ہی کی جاتی ہے۔

صدر اوباما کے دورۂ بھارت کے بارے میں اگرچہ بھارت کے کئی عوامی حلقوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ امریکہ میں اقتصادی بد حالی اور جاب مارکیٹ میں گراوٹ کے بعد صدر اوباما کی نظریں اب بھارت اور چین کی منڈیوں پر مرکوز ہوئی ہیں جس کو اپنی ترجیح بتا کر صدر اوباما نے اس کی وضاحت بھی کی مگر کشمیری، ماؤ نواز عوام کو نہ جانے یہ اُمید کیوں تھی کہ صدر اوباما ان کےمسائل کے حوالے سے اندرونی طور پر سہی بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔

اس کے مقابلے میں اوباما نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھارت کی شمولیت کی حمایت کر کے بھارت کو کلین چٹِ دے دیا۔

شاید یہ بات سب نے محسوس کی ہوگی کہ امریکی صدر بھارتی حکومت کے دباؤ میں اتنا آگئے کہ اُن کو ممبئی حملوں میں پاکستان کا نام نہ لینے کے بارہ گھنٹے بعد آخر کار پاکستان کا نام زبان پر لانا ہی پڑا اور ایک طرح سے پاکستان کو وارننگ دے کر بھارتی حکومت سے لے کر بھارتی میڈیا کی تشفی کرنا پڑی۔

موجودہ حالات میں سیاست اور سفارت کے رموز تبدیل ہوگئے ہیں۔ نائن ایلیون کے بعد جب صدر بش نے دنیا کو شدید وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا دنیا کودو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا 'ہمارا ساتھ یا دشمن کا ساتھ' تواس وقت صدر بش نے نہ صرف مستقبل میں امریکی پالیسی کا روڈ میپ تحریر کیا تھا بلکہ چودھراہٹ کا جواز پیش کر کے اس کی بنیاد بھی ڈالی تھی۔
سرد جنگ کے بعد امریکہ دنیا کے سٹیج پر واحد طاقت کا اعزاز پہلے ہی حاصل کرچکا تھا مگر نائن الیون کے بعد اس نے بعض ملکوں پر چڑھائی کر کے چودھراہٹ کا خوب مظاہرہ بھی کیا۔

بھارت اور اسرائیل جیسے دوسرے ملک محض امریکی نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیشتر لوگ امریکہ یا امریکی صدر سے یہ کیوں امید کرتے تھے کہ وہ تنازعات یا مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے یا کم از کم بھارت میں ہونے والے مبینہ انسانی حقوق کے واقعات پر آواز اٹھائیں گے۔

کیا بھارت یا اسرائیل نے کبھی عراق، افغانستان یا پاکستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی بربادی پر کبھی بات کی ہے؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 6:14 2010-11-09 ,Khalid Ansari :

    بھارت کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔

  • 2. 7:54 2010-11-09 ,علی گل،سڈنی :

    بھارت اگر سلامتی کونسل کا ممبر بنتا ہے تو اس کا سہرا ان کے غيور سياست دانوں اور محب وطن افواج کے نام جائے گا جنہوں نے دنيا کی دوسری بڑی آبادی، جس ميں مختلف عقائد کے لوگ ہيں، کو کنٹرول کرتے ہوئے کبھی مارشل لاء نہيں آنے ديا۔ پاکستانی سياستدانوں اور فوج کے لۓ يہ ڈوب مرنے کا مقام ہے جنہوں نے آپس کی کھينچا تانی ميں عوام کو نظريات کی آگ ميں دھکيل ديا ہے۔ طالبانی نظريات يا کيمونزم ميں عقائد کا تو زمين آسمان کا فرق ہے ليکن انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں اور انفرادی آزادی پہ پابنديوں ميں ايک جيسے ہيں يہ ہی وجہ ہے کہ مصيبت کے مارے لوگ کبھی کبھی اللہ کے ساتھ ساتھ امريکہ کو بھی ياد کرليتے ہيں کيونکہ آفت زدہ علاقوں ميں پہلے امريکہ ہی پہنچتا ہے اور دبئی يا عرب کے شيخوں کی طرح اونٹ ريسوں ميں محو نہيں رہتاـ امريکہ کی لڑائی ريڈيکل اسلام کے خلاف ہی نہيں بلک ہر اس ملک يا فرد کے خلاف ہے جو دنيا کو مغربی طرز پر نہيں چلنے دے گا جس ميں شمالی کوريا يا ڈرگ مافيا ملک بھی شامل ہيں۔

  • 3. 8:12 2010-11-09 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    یہ سراسر پراپیگنڈہ اور ڈِس انفرمیشن ہے کہ لوگ خصوصآ جنوبی ایشیاء کے لوگ اسی امریکہ سے مسائل یا تنازعات کو حل کرنے کی امیدیں لگاتے ہیں، جو ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے لبادے تلے دنیا پر حکومت کرنے چلا ہے۔ یہ سب حکومتی سطح پر ہوتا ہے اور اس میں بھی سچ کا عنصر زیادہ نہیں ہوتا بلکہ امریکہ کی خوشامد اور اس کو ‘چوہدری‘ قرار دینے کا اعادہ کر کے ‘ہَتھ ہولا رکھنے‘ اور کچھ امداد حاصل کرنے کا ایک ناٹک ہوتا ہے۔ مزید برآں، امریکہ یا عالمی برادری کو ‘سر آنکھوں پر بٹھانے‘ کی ایک بڑی وجہ ہمسایہ ممالک کو ‘بندے بَن جاؤ‘ وارننگ دینا بھی ہوتی ہے کہ دنیا کا ‘چوہدری‘ ہمارے ساتھ ہے اور ہم پر کہیں زیادہ مہربان ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھارت کی شمولیت کی حمایت کر کے اوباما نے امریکی مفادات کو اولیت دی ہے۔ یہ حمایت محض ایک ‘لولی پاپ‘ ہے جس کے توسط امریکہ بھارت سے وہی کام لے گا جو کہ وہ پاکستان سے ‘ڈالروں‘ کے بدلے ‘ڈو مور‘ تقاضا کر کے لے رہا ہے۔ فرق صرف یہ کہ بھارت کو ‘لولی پاپ‘ کے بدلے پاکستان اور بعد ازاں چین کے خلاف خارجہ پالیسی میں جارحانہ پن لانا پڑے گا۔ نتیجتآ جب ہمسائے اپنے ہمسائے سے تنگ ہوں تو پھر ‘عالمی برداری‘ کو خود آگے آنے کی ترغیب ملے گی۔
    اقتصادی بد حالی بابت عرض ہے کہ ‘عالمی کساد بازاری‘ ایک ڈرامہ ہے جس کے تحت ‘عالمی استعمار‘ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ صرف اور صرف دنیا میں امن و امان کی خاطر ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ اپنے پلے سے لڑ رہا ہے اور دنیا کی خاطر اس نے اپنی عوام کو دو کی بجائے ایک روٹی کھانے پر قائل کر کے ‘جذبہ ایثار‘ کی روشن مثال قائم کی ہے۔ دیگر الفاظ میں کساد بازاری کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور اس میں دانستہ تھوڑا بہت حقیقت کا رنگ بھر کے ‘عالمی سامراج‘ اپنی ‘سامراجیت‘ سے دنیا کی نظریں ہٹانا چاہتا ہے اور انسانی ہمدردیاں سمیٹنے کی یہ ایک چال ہے۔

  • 4. 8:15 2010-11-09 ,رضا :

    کل اپنے قحط زدہ ديہاتيوں کے لۓ امريکی گندم کي امداد سے آج امريکيوں کو امريکہ ميں روزگار فراہم کرنے کي قدرت تک بھارت کا يہ ارتقائی سفر کچھ اسباق کا حامل ہے کہ ”فری لنچ” وجود نہيں رکھتے ، رتبہ يا حقوق پليٹ ميں دھرے نہيں ملتے ، انہيں کمانا پڑتا ہے - اس کے بعد لوگ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہيں اور انہيں اجلی اور معطر پوشاک پہنا کر احترام کي اعلٰي مسند پر بٹھا ديا جاتا ہے ۔ يہي دستور دنيا ہے ۔ مسلمان کچھ نہ کريں ، فقط متحد نظر آ جائيں تو اس سے بھي فرق پڑے گا ۔ ايک کا رسوخ دوسرے کي ڈھال ثابت ہوگا۔

  • 5. 8:29 2010-11-09 ,ذیشان رضوان :

    بھارت ، اسرایل اور امریکہ کا انٹرنیشنل لیول پر گٹھ جوڑ اور افغانستان میں امریکہ، بھارت، اسرایل، روس،نیٹو کا گٹھ جوڑ کسی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں تک بھارت کا تعلق ہے یہ دنیا کے ٹاپ ترین لسٹ میں آتا ہے جہاں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے،چاہے کشمیر ہو، گجرات کے فسادات یا کرسچن کمیونٹی پر حملہ، یہ سب صرف ایک ہی ملک میں ہورہا ہے، وہ ہے بھارت۔ جو اپنی بناوٹی جمہوریت کو دنیا کے سامنے ایک ملٹی کلچرل کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں کچھ اور ہے، ایسے ملک کو سیکیورٹی کونسل میں جگہ دینے کی بات کرنا کسی حماقت یا کسی سازش سے خالی نہیں ہے۔

  • 6. 10:10 2010-11-09 ,Abu Sufyian :

    دراصل ہمیں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں ہے اور خاص طور پر مسلمانوں نے تو بلکل ہی ہتھیار ڈال دیئے ہیں کہ وہ کچھ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر تو بھروسہ نہیں ہے۔صرف اور صرف غیر قوموں کے سربراہان سے تواقعات رکھی گئی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ سُپر پاور ہے مگر آج کے دور میں وہ خود ایک بھکاری کی طرح ایشیائی ملکوں سے اپنے بے روزگار نوجوانوں کے لئے نوکریاں تلاش کر رہا ہے۔ جہاں تک اوبامہ کا تعلق ہے وہ تو کبھی کشمیر کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ کیوں کہ اُن کا فائدہ اس وقت ہندوستان میں ہے نہ کہ کشمیر میں ہے۔

  • 7. 13:26 2010-11-09 ,Sajjadul Hasnain HYD India :

    آپ نے يہ کيسے سمجھ ليا کہ اوبامہ انڈيا ميں کشمير کے حالات پر زير لب ہی سہی قابل تذکرہ کرجائیںگے ۔ اوبامہ کے اس دورے کے دوران آپ نے ديکھ ہی ليا کہ کيا ہوا؟ کيسے ہوا؟ اور کيوں ہوا؟ ہندوستانی ميڈيا نے بڑا اودھم مچايا تھا کہ اوبامہ نے ممبئی میں بچوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالنا تو پسند کيا مگر ممبئی حملوں کے پس منظر ميں پاکستان کا تذکرہ کرنا پسند نہيں کيا ليکن حيرت اس وقت ہوئی جب اوبامہ نے نئی دلی ميں پاکستان کو زير بحث لايا۔ بجا فرمايا آپ نے اب سياست اور سفارت کے رموز بدل گئے ہيں ليکن مجھے لگتا ہے کہ دنيا مفادات کی پجاری ہے اور رموز مفادات کے حساب ہی سے بدلا کرتے ہيں۔ويسے حاليہ سروے ميں سامنے آئے ان انکشافات کو جھٹلايا نہيں جاسکتا کہ ہندوستان کے تعليمی ادارے اب بہترين دماغ پيدا کرنے لگے ہيں اور امريکہ جيسے مفاد پرست بہترين دماغوں کو بہترين انداز ميں استعمال کرنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔

  • 8. 13:27 2010-11-09 ,Dr Alfred Charles :

    نعيمہ جی! آپ کا کہنا درست ہے۔جب ہم خود اپنی سوچ کے مطابق امريکہ کو چودہراہٹ کا اہل سمجھتے ہوئے اس کو اختيارات سونپ ديتے ہيں اور اس سے ہمہ اقسام کی توقعات بلاوجہ وابستہ کرليتے ہيں تو اس ميں ان کا کيا قصور؟ اب مقامی سطح کے لوگ مثلا کشميری يا ماؤ نواز ان سے کچھ توقعات کے مطابق چاہيں تو ايس ممکن نہيں ۔ لہذا کف افسوس کيا ملنا؟

  • 9. 14:02 2010-11-09 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘وابستہ ہے مفاد یہاں
    ہراِک دوستی کے ساتھ

  • 10. 14:31 2010-11-09 ,Riffat Mehmood :

    اصل مسئلہ تو تيسری دنيا کے وسائل پر مضبوط گرفت حاصل کرنا اور اپنے مفادات کے نام پر سارے وسائل بروئے کار لاناہے۔ جب يو ايس ايس آر سے ٹکر لينے کا موقع آيا تو پاکستان امريکيوں کی شديد خواہش بن گيا اور پاکستان قربانی کا بکرا بنا کر روس سے ٹکراياگيا اور ايران کو بھی بالواسطہ استعمال کيا۔ طالبان کی حکومت کے ختم کرنے تک ان کا کردار رہا اور عراق ميں بھی ان کی بالواسطہ شمولیت بھی رہي۔ دوسری طرف اس کےخلاف ہرزہ سرائی ان کےڈبل اسٹينڈرڈ کی عکاس ہے۔ امريکہ کو ضياء يا صدام سے کوئی دشمنی نہ تھی بس ان کے مفادات ميں آڑے آرہے تھے۔ چونکہ طالبان سعودی اور پاکستان کے حمایت يافتہ تھے اور عالمی طاقتوں کے احکامات کو خاطر ميں نہ لاتے تھے۔ اس لئے پاکستان اور طالبان معتوب ٹہرے۔ يہاں عالمی طاقتوں کو ايک اور کٹ پتلی کی ضرورت تھي جو ان کے روڈ ميپ کی تکميل ميں برابر کھڑا ہو تو وہ بھارت ہے۔ ان کا مشترکہ منصوبہ پاکستان کو کمزور کرنا ہے کہ وہ اتنا مجبور کر ديا جائے کہ عالمی طاقتوں بشمول بھارت کے مطالبات من و عن تسليم کر لے۔ ليکن پاکستان سے تعلقات بحال بھی اس لئے رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے عزائم دوستی کی آڑ ميں رہ کر ہی پورے ہو سکتے ہيں۔
    مسئلہ کشمير پر لوگوں کا امريکی صدر کی طرف ديکھنا اس لئے ہے کہ کوئی اور ايسا فورم نہيں ہے جس سے يہ توقع رکھ سکتے ہوں حالانکہ کہ ان حالات ميں ايسی توقع ديوانے کا خواب ہے۔ کشميريوں کو اپنا حق خود لينا ہو گا۔ يہ کوئی مشرقی تيمور تو نہں ہے کہ عالمی طاقتيں دباؤ ڈال ديں۔ کشمير اور فلسطين تو مسلمانوں کی بيچارگی کی المناک داستانيں ہيں۔ اسے عالمی قوتيں انڈيکيٹر کے طور پر رکھے ہوئے ہيں۔

  • 11. 17:59 2010-11-09 ,mansoor muhammad shahi :

    انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کی گود کا بچہ ہے اور مسلمانوں کا دشمن۔ چاہے وہ عراقی ہوں، کشمیری مسلمان ہوں یا بھارتی مسلمان، حقوق کی پامالی تو مسلمانوں کی ہی ہو رہی ہے۔

  • 12. 4:58 2010-11-10 ,تادیب خان :

    اوباما کا دس روزہ دورہ جنوبی ایشیا، پاکستانی حکام اور عوام کے لئے کسی حیرت کا باعث نہیں کیونکہ ہم صرف تعلقات اور امیدوں پر یقین رکھتے ہیں، ہم قیام پاکستان سے لے کر آج تک صرف امیدوں کے سہارے ہی تو زندہ ہیں۔ پاکستان نے اپنی جنگ کے علاوہ دیگر ممالک کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ اپنی سرزمین اور عوام کو بھی داؤ پر لگادیا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے زیادہ خیرخواہی کا یقین دلانے والے امریکی صدر اوباما کو اپنے دس روزہ دورے میں پاکستان نظر نہیں آیا، انہوں نے جس خوبی سے پاکستان کو نظر انداز کیا اس کی مثال نہیں ملتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو استعمال کرنے والے اوباما کو بھارت کے ساتھ دس ارب ڈالر کے معاہدے یاد رہے، امریکی معیشت کی تباہی کا رونا رونے کے باوجود انہوں نے بھارتی نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کیا، اوباما کا دورہ ایشیا پاکستانی حکام اور عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے،مختصر یہ کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ تادیب خان

  • 13. 6:50 2010-11-10 ,Khalid Ansari :

    بھارت اس وقت ایک مراعات یافتہ ملک ہے۔ امریکہ ،اسرائیل اوربرطانیہ سب اسلامی انتہا پسندی کی جنگ میں بھارت کو ایسے ہی مراعات دے رہے ہیں جیسے پاکستان کو سرد جنگ میں دی تھیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ، پاکستان کا حال۔ بھارت کی اہمیت صرف یہ ہے کہ اس کی کل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ مسلمان ہیں اور امریکہ نے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور بھارت اس جنگ کے خاتمے تک یہ مراعات لیتا رہے گا۔ اہم یہ ہے کہ اس جنگ کی مدت کتنی ہے؟ سرد جنگ کی مدت چالیس سال رہی جبکہ اس جنگ کو شروع ہوئے پندرہ سال ہو گئے ہیں۔یہ چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات۔

  • 14. 13:09 2010-11-10 ,ahmed syed, chicago :

    مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کشمیری کیوں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ جن مسلمانوں نے 1947 میں ایک آزاد ملک حاصل کیا، ان کا یہ حال ہے کہ ہر گھرایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے اور ہر روز یہی تبصرے ہوتے ہیں کہ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔ کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ خودمختاری کی مانگ کریں، جس سے اس علاقے میں امن آئے گا اور لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا۔ جب تک ہم لوگ ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تب تک یہی کہانی چلتی رہے گی۔ 63 سال گزر گئے ہیں، ایک صدی بھی گزر جائے گی اور ہم یہی کہتے رہیں گے ، حالات بدل نہیں سکتے،

  • 15. 14:01 2010-11-10 ,Athar Massood Wani :

    امریکی صدر براک اوباما کے دورہ بھارت میں امریکہ کی توجہ اقتصادی امور پر مرکوز رہی تاہم بھارتی حکومت کی یہ کوشش بار آور نہ ہو سکی کہ امریکہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے خلاف سخت رویے کا اظہار کرے۔بھارت سمجھتا ہے کہ اگر امریکی صدر دورۂ بھارت کے موقع پر پاکستان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے تو ا س سے پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں بھارت کی حوصلہ افزائی ہوتی اور اس صورت میں بھارت پاکستان کے خلاف دباﺅ ڈالنے کی پوزیشن میں آ جاتا۔لیکن امریکی صدر نے بھارت کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ پاکستان کی انتظامیہ کو دہشت گرد کارروائیوں کے ذمہ دار کے طور پر پیش کیا جائے۔امریکہ چاہتا کہ ہے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھارت اور دوسرے ممالک کی قیادت آگے آئے اور اس مسئلے کو حل کرے کیونکہ کشمیر صرف بھارت کے لئے ہی ایک چیلنج نہیں بلکہ سارے خطے کے لئے ہے۔

  • 16. 16:42 2010-11-10 ,Khalid Ansari :

    ابھی بھارت اتنا بالغ نہیں ہوا کہ ایسی ذمہ داری ہضم کر سکے اور نا ہی ایسی کوئی قیادت ہے جو ایسی مچورٹی کی حامل ہو۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔