کشمیری بچوں سے ایڈوینچر
کشمیر میں حالیہ شورش کے دوران تقریبا چار ماہ تک تمام تعلیمی ادارے بند پڑے رہے جس کے باعث بچے اپنا نصاب مکمل نہیں کر پائے اور نہ ہی امتحانات میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔
ہڑتال اور کرفیو کے بعد جب سکول کُھل گئے تو موسم سرما کی چھٹیاں شروع ہونے کو ہیں جس کے دوران وسط دسمبر سے یکم مارچ تک وادی کے تمام سکول بند رہتے ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سرما کے دوران تعلیمی اداروں کو کُھلا رکھا جائے گا تاکہ بچے اپنا نصاب پورا کرکے امتحانات میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوسکیں۔
بات تو بالکل صیح ہے اور واجب بھی کیونکہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ کوئی کِھلواڑ نہیں چاہتا خاص طور سے وہ والدین جو دن رات ایک کرکے اپنی زندگی کی پوری پونجی بچوں کی پڑھائی پر خرچ کرتے ہیں۔
مگرکشمیر میں سرما سخت ہوتا ہے بیشتر مرتبہ درجہ حرارت منفی دس ڈگری رہتا ہے بلکہ بعض پہاڑی علاقوں میں منفی بیس تک چلا جاتا ہے۔گھروں یا سکولوں کے اندر سنٹرل ہیٹنگ کا کوئی نظام نہیں، گھروں میں زیادہ تر انگیٹھی ہیٹر یا بخاری جلانے کا رواج ہے جبکہ قصبوں گاؤں میں کانگڑی ہی استعمال کی جاتی ہے۔
کشمیر میں اس موسم میں اکثر بجلی بارہ گھنٹے بند رہتی ہے۔ خود حکومتِ کشمیر سردی کے چھ ماہ جموں کے گرم علاقے میں گزارتی ہے جس کی بنیاد ہمارے راجہ مہاراجاؤں نے ڈالی ہے جن کو ہم نے کافی عرصہ پہلے کشمیر بدر کردیا ہے مگر اُن کی روایات کو آج بھی ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے۔ وادی کی بیشتر آبادی پہلے ہی سرما میں ضروریات زندگی کے لئے ترستی رہتی ہے بجلی کا کوئی نام ونشان نہیں معمولی برف باری سے سڑکیں ہفتوں بند پڑی رہتی ہیں اور حکومت کہتی ہے کہ وہ سکول کُھلے رکھے گی۔
برطانیہ میں سنٹرل ہیٹنگ سے لیس سکولوں کو بعض مرتبہ کئی روز کے لئے بند کر نا پڑتا ہے اگر برف باری زیادہ ہو یا درجہ حرارت منفی ہوجائے تو کشمیر میں کیا یہ بچے سردی سے نہیں مریں گے جہاں سکول محض چار دیواری کا نام ہے۔
اگر حکومت واقعی کچھ کردکھانے کی سوچ رہی ہے تو ان سکولوں میں کم از کم اس سال کرسی میز تو رکھے۔
۔معصوم بچوں کی زندگی سے ایڈوینچر کرنے کے بجائے پہلے اُن مسائل پر توجہ مرکوز کرے جن سے پوری آبادی دوچار ہے اگرمشکلات دور نہیں کرسکتی تسلی کے لئے سُن تو سکتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بات تو ٹھيک ہے کہ حکومت کو سکولوں ميں ميز کرسی تو کم از کم رکھنی چاہيۓ تاکہ بچوں کی زندگی کا آغاز احساس کمتری سے نہ ہو مگر برصغير کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ آپس کی دشمنيوں اور فرقہ پرستی يا مذہبی اختلاف کی وجہ دفاعی بجٹ کو اتنا زيادہ کرديتی ہے کہ باقی کاموں کے لئے حکومت کی جيب خالی ہوجاتی ہے۔ کاش لوگ سکولوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے چندے کی مہم چلائيں کيونکہ مسجديں تو پہلے ہی اتنی زيادہ ہيں کہ اکثر خالی ہوتی ہيں۔
بات تو سولہ آنے سچ ہے ، پر کيا ہی اچھا ہو کہ اس معاملے پر براہِ راست حکومت کے ذمہ داروں سے بات کی جائے۔ يہ مسئلہ بہت گمبھير ہے اور حکومت کی اس جانب توجہ مبذول کروانی ہوگی۔ حکومت کا کيا ہے، ويسے ہی اس کے لئے کشميرييوں کی جان کی کوئی قيمت نہيں ہے۔ گولی سے مريں يا پھر سردی سے انہيں کيا فرق پڑنا ہے !!
يہ تو معصوم بچوں، مظلوم اورحالات کے ستائے ہوئے والدين کو تنگ کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت خود تو سختی کرتی ہے اور موسم کی سختی کا کوئی خيال نہيں کرتي۔افسوس!
دنیا کے پسماندہ ملکوں کے باشندوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی بھرپور توجہ اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم دلانے پر مرکوز کریں۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر طاقت اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔
انتہائی افسوسناک صورت حال ہے، اس کرب کو ہر بلوچ بخوبی سمجھتا ہے کيونکہ ہم بھی وطن عزيز ميں کم و بيش ايسی ہی صورت ِحال سے دو چار ہيں۔ سوال يہ پيدا ہو تا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار کس طرح کی مصلحتوں کا شکار ہيں؟