برف باری، رحمت یا زحمت
یوں تو ہر کشمیری سرما شروع ہوتے ہی برف باری کے انتظار میں ہوتا ہے کیونکہ برف گرنے کے نتیجے میں اُن بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے جو خوشک موسم کی وجہ سے کبھی وبائی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔
کشمیر یوروپ کا جدید ٹیکنالوجی سے لیس علاقہ نہیں جہاں خشکی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ویکسین پہلے ہی سے تیار رکھی جاتی ہے۔ وادی میں تو کبھی یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ شدید سردی سے کتنے لوگوں کی موت واقع ہوئی۔
برف باری کے بدولت یہ اُمید ضرورہوتی ہے کہ دریاؤں، جھیلوں اور آبشاروں میں پانی بھرنے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور پینے کے پانی کی کمی سے کچھ توراحت ملے گی۔ مگر اکثر اس کے برعکس ہوتا ہے، حالانکہ لوگ سرما کے لیے پہلے سے تیار ہوتے ہیں وہ چاہے کوئلہ یا کانگڑی کا انتظام کرنا ہو سوکھی سبزیاں جمع کرکے رکھنے ہوں، یا پھر دال چاول وافر مقدار میں ذخیرہ کرنا ہو۔
جو علاقہ بھارت کی شمالی ریاستوں کو وافر مقدار میں بجلی فراہم کرتا ہے وہ خود اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے، حتی کہ برف باری کے فوراً بعد بعض علاقوں میں بجلی کا نام ونشان ہی نہیں اور جس علاقے کے پانیوں سے بھارت اور پاکستان کی زمینیں سیراب ہوتی ہیں وہاں لوگ کبھی کبھار پینے کے پانی کے لیے ترستے ہیں۔
سرما کے موسم میں وادی کے عوام کی مشکلات ہمیشہ بڑھ جاتی ہیں۔ مگر جو اِن مشکلات کو سنتے یا ذرا سی راحت پہنچانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ جموں کےمعتدل آب وہوا میں سرما کے چھ ماہ گزارنے چلے جاتے ہیں اور وادی کے لیے وہاں سے شہنشاہوں کی طرح فرمان جاری کرتے ہیں۔ مہاراجوں کے دورِ حکومت کی روایت جوں کی توں قائم ہے۔
کشمیر کی لائف لائن اور بھارت سے واحد زمینی رابطہ کہلانے والی بانہال ٹنل خوشگوار موسم میں بھی بعض مرتبہ بند رہنے کی عادی ہے تو سرما میں اس کا بند رہنا خلاف توقع نہیں۔ اس شاہراہ کی ذمہ داری بھارتی فوج کی وِنگ بیکن کے ہاتھوں میں ہمیشہ رہی ہے، حکومت کشمیر کی ذمہ داری ہوتی تو پورے بارہ ماہ بند رہتی لیکن بیکن کی نگرانی کے باوجود یہ شاہراہ اکثر بند ہوتی ہے جس کی وجہ سے کبھی انسانی زیاں ہوتا ہے یا پھر غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ بھارتی حکومت یا ریاستی حکومت نے کبھی یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ اِس کے متبادل کا منصوبہ بناتی۔ کہنے کو تو کشمیر اس کا 'اٹوٹ انگ' ہے۔۔۔ لیکن شاید کالونیوں میں ایسا ہی طریقہ رائج ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جو سیاست دان کہتےہیں کہ انہیں عوام نے ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے وہ سردی کے چھ ماہ وادی سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے دوبارہ واردِ کشمیر ہونا ہی نہیں ہے یا پھر اُن کا یہ خیال صحیح ہو کہ مظلوم اور مجبور قوم کی آواز برف کی موٹی تہوں کے نیچے پھر دب جائیگی۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ جي! بھگوڑوں سے کيا توقع رکھنا؟
کشمیر کشمیر ہے چاہے لکیر کے اس پار ہو یا اس پار۔
آپ کی تحريريں پڑھ کرکشمير سے انسيت ميں اضافہ سا ہو رہا ہے۔ کشميری ذرا يوں بھی خوش قسمت واقع ہوۓ ہيں کہ ان کے سياسی رہنما صرف 6 ماہ ہی وادی سے غائب رہتے ہيں،جبکہ ہماری تو ايک نسل صرف TVسکرين پر ہی انھيں ديکھ پا تی ہے۔ باقی مفتوحہ علاقوں پر شاہانہ طرز حکومت کے ہم بلوچ تو عا دی ہيں کشميری نہ جانے کيوں شکوہ کناں ہيں۔ہماری سڑکيں برف سے تو شاذ ہی بند ہوتی ہيں البتہ قانون نافذکرنے والوں کی جامہ اتار تلاشی اور وزراءوامراء کا ہٹو بچو لاؤ لشکر ، عوام رضاکارانہ ہی سڑکوں کے استعمال سے گريزکرتے ہيں۔سرد موسم کی سزا بجلی اور گيس کی بندش سے دی جاتی ہے۔ کم از کم کشميری تنہا نہيں۔
بھارت کشمیر کی آبی دولت سے وافر مقدار میں بجلی بناتا ہے اور یہ بجلی بھارت پنجاب کے کسانوں کے ٹیوب ویلز کو مفت دیتا ہے اور یہی کھیت تمام بھارت کو خوارک فراہم کرتا ہے۔وادی کشمیر میں سردیوں کی بات ہی کیا گرمیوں میں بھی بجلی اکثر غائب ہی رہتی ہے۔بھارت کشمیریوں کا استحصال کر رہا ہے،ریاست کشمیر کے وسائل ہڑپ کر رہا ہے اور اس کے بدلے بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے لئے صرف اندھیرے ہیں،گھروں میں اندھیرا،قید خانوں کے اندھیرے،کال کوٹھریوں کے اندھیرے اور پھر بھی اگر کشمیری اپنے حقوق،حق آزادی کی بات کرے تو اس کے لئے بھارت کی طرف سے کشمیریوں کو موت کا اندھیرا نصیب ہوتا ہے۔
میں احمد بگٹی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ کشمیر کی نوآبادی کو تو اِن مشکلات کا سامنا برف باری میں کرنا پڑتا ہے لیکن بلوچوں کو تو اُن کی اپنی سرزمین سے نکلنی والی گیس کی بُو کا بھی پتہ نہیں کہ اِس کی بو کیسی ہے، سڑکیں، تعلیمی ادارے، ہسپتال وغیرہ تو بہت دور کی باتیں ہیں۔
نعیمہ صاحبہ! آپ باالکل صحیح فرماتی ہیں کی کالونیوں میں یہی طریقہ رائج ہوتا ہے جو ہمیں بلوچستان میں بالکل صاف نظر آتا ہے۔ بلوچوں کی بد قسمتی صرف یہ ہے کہ اُن کے پاس آپ جیسی صحافی بی بی سی میں موجود نہیں جو اُن پر ہونے والے ظلم کا دنیا میں پرچار کرسکے۔
ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ جموں و کشمير کو بھارت نے اپنی کالونی بنا رکھا ہے اور اس کے ذمہ دار ناصرف چند زرخريد سياستدان ہیں بلکہ قلم کار بھی جنھوں نے اپنی تجارت کو فروغ دينے کے ليے وہی کچھ کيا جو شکستہ خورد حکمران چاہتا تھا۔
برف باری زحمت یا رحمت؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے بس ایک مقولہ ہی کافی ہے کہ "ہر چیز کی زیادتی بُری ہوتی ہے"۔ بغور دیکھیں تو سیاستدانوں کا سردیوں میں کشمیر چھوڑ دینا ہی انہیں اپنے سیاستدان ہونے کا احساس دلاتا ہے اور ساتھ ہی کشمیریوں کو بھی اس عمل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ سردیوں میں کشمیر کو چھوڑ کر جانے والے ہی سیاستدان ہیں کیونکہ سیاست کا بھی ایک موسم ہوتا ہے، یہ بارہ ماہ جاری نہیں رہتا۔ سیاستدانوں کو اپنی تقریریں یا رَٹے ہوئے الفاظ سُنانے سے پہلے سامعین کی ضرورت ہوتی ہے جب برف باری ہو، یا گرمی کا موسم ہو تو سامعین کا آنا دشوار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسمی شدت کے تناظر میں اکثر الیکشن کی تاریخ رکھی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کا یہ خیال بھی ٹھیک ہے کہ برف باری کی بدولت کشمیریوں کی ‘آواز‘ و ‘مطالبات‘ دب جاتے ہیں۔
بھارت نے کشمیر کو بس نام کی حد تک ہی اٹوٹ انگ سمجھا ہے ۔وادی کے لوگ ضروریاتِ زندگی کو ترس رہے ہیں جبکہ بھارتی حکومت اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کےلئے سرگرداں ہے ۔یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔
سیاستدان تو زیادہ تر جگہوں پر مشکلات سے بھاگ ہی جاتے ہیں۔ عوام کو بیشتر مشکلات کو اپنے طور پر سنبھالنا پڑتا ہے۔ آخر ان کی مدد کرنے والا بھی کوئی ہے جو اوپر بیٹھ کر نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔