| بلاگز | اگلا بلاگ >>

بی جے پی کی جے ہو

جس چھبیس جنوری کو بھارتی شہریوں کو جان کی امان حاصل ہوئی تھی وہی دن کشمیری عوام کے لیے ہر سال عذابِ جان بن جاتا ہے۔

چھبیس جنوری سے پہلے اور اُس دن کا منظر کشمیر میں اپنی نوعیت کا انھوکھا منظر ہوتا ہے جب پوری وادی پر سکیورٹی کا مزید پہرہ بٹھایاجاتا ہے۔ راہ گیروں کی تلاشی لی جاتی ہے، حساس کہلانے والے علاقوں میں ٹریفک معطل کی جاتی ہے اور پھر یومِ جمہوریہ پر وادی مکمل طور پر محصور ہو جاتی ہے۔

نوے کے اوائل میں محصور وادی کے چند چھتوں کے اُوپر سے بندوق بردار اِکا دکُا میزائل بھی داغا کرتے تھے مگر اب کچھ عرصے سے لوگ اپنے گھروں کے اندر رہ کر پرُ امن احتجاج کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرینگر کے لال چوک میں ترنگا لہرانے کے نئے ایڈوینچر نے کشمیر کی تحریک آزادی میں لگتا ہے اب نئی روح پھونک دی ہے حالانکہ وہ بار بار اُبھرنے کے باوجود ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔

گوکہ اقتدارمیں واپس آنے کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مواقع اس وقت محدود نظر آرہے ہیں حالانکہ بھارتی معاشرے کی سوچ پر اس کا گہرا اثر مرتب ہواہے مگر کشمیر پر توجہ مرکوز کرکے وہ اپنی ساکھ کو بچانے میں شاید کامیاب ہوسکے کیونکہ کشمیر بھارت کی بیشتر آبادی کے لیے جذباتی معاملہ بن گیا ہے۔

بھارتی عوام کاش بھارتیہ جنتا پارٹی سے پوچھ لیتے کہ 'اٹوٹ انگ' کہلانے والےعلاقے پر ترنگا لہرانے کی ضرورت پیش کیوں آئی یا پھر اُس کواپنے کہنے پر وِشواس نہیں یا دل میں کوئی بات ہے جو بار بار کھٹکتی ہے۔

وادی کی آزادی نواز آبادی تِرنگا لہرانے سے پریشان نظر نہیں آتی بلکہ وہ سنگ بازوں سے بھی باز رہنے کی تلقین کررہی ہے کیونکہ ان کی آزادی کی تحریک کو بی جے پی نہ صرف اپنی جنونی پالیسی سے عروج پر پہنچا رہی ہے بلکہ خود بھارت نواز کشمیری سیاست دان اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ 'اٹوٹ انگ' کا راگ کچھ کچھ پھیکا لگ رہا ہے جس پر پردہ ڈالنے کے لیے سیاست دان اب ترنگا لہرانے لگے ہیں۔

کشمیر کے اطراف میں ترنگا لہرانے کے ردعمل میں شورش کی ایک اور لہر اٹھنے کا امکان موجود ہے کہ جس سے بر صغیر کےغریب عوام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

کشمیری قوم کو متحد کرنے کا مشکل ترین کام مسلح تحریک یا ہزاروں احتجاجی مظاہرے ابھی تک نہیں کر پائے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جے ہو کہ جس نے اِس قوم کو جھنجھوڑ کر آزادی کے جذبے کو پھر جلاّ بخشی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:50 2011-01-23 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    یہ واقعی ہی بہت سوچنے والی بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو آخر ‘اٹوٹ اَنگ‘ کہلانے والے علاقے پر ‘ترنگا‘ لہرانے کی کیونکر ضرورت پیش آئی؟ پہلی فرصت میں تو بی جے پی کا یہ عمل ایک بہت بڑی سیاسی غلطی نظر آتا ہے۔ لیکن تھوڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو ‘اٹوٹ انگ‘ علاقہ میں ‘ترنگا‘ لہرانا دراصل بی جے پی کا عین وقت پر ایک خوبصورت اور سلجھا ہوا داؤ ہے اور جس کا مقصد حکمران جماعت کانگرس کے کشمیر سے پچیس فیصد فوج کی واپسی کے منصوبے کو آڑے ہاتھوں لے کر اپنی سیاست میں ایک تازہ ترین نئی روح پھونکنا ہے۔ بھارتی حکومت کا کشمیر سے پچیس فیصد فوج کے انخلاء کا منصوبہ سیاسی نکتہ نگاہ سے دانشمندانہ اس لیے قرار نہیں دیا جا سکتا کہ فوج کے انخلاء سے کشمیر میں مبینہ ‘آزادی تحریک‘ کی بنیادی وجہ صرف بھارتی فوج کے ‘ظلم و ستم‘ ہی ٹھہرے گی اور دوسری طرف لشکر طیبہ، جماعتِ اسلامی، جیش محمد جیسی مذہبی جماعتوں کی ‘دراندازی‘ کی نفی بھی ہوتی ہے جو کہ حقائق پر مشتمل نہیں کہ یہ سب مذہبی جماعتیں، ‘جہادی پانی‘ پی کر ہی پلیں، بڑھیں اور جوان ہوئیں اور اب بڑھاپے کی ایسی عمر کو چُھو رہی ہیں جس میں ‘جہادی پانی‘ کے بغیر سانس لینے کی کوشش ایک سعی ء لاحاصل ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں چھبیس جنوری کو بی جے پی کی طرف سے ترنگا لہرانے کی صورت میں دو باتوں کا امکان ہے، اول یہ کہ اس طرح ‘جہادیوں‘ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور دوم یہ کہ ترنگا لہرانے سے ‘دراندازوں‘ کو بھارتی بندوبستی کشمیر میں گڑ بڑ کرنے اور فساد برپا کرنے کا ایک اچھا موقع ضرور مل سکتا ہے جو کہ کسی طور پر ‘سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ سے کم نہیں ہو گا۔ لہذا کشمیر کی حکومت کو امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہو گا کہ:
    ‘لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘

  • 2. 19:54 2011-01-23 ,احمد بگٹی :

    لگتا ہے کشمیریوں کی قسمت بھی بلوچوں کی سی ہے۔ ١٤ اگست ہو یا ٢٣ مارچ، ہمیں بھی پیارے پاکستان کی وفا شعار افواج کی طرف سے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ آج کل تو عید پر درجن بھر گلی سڑی لاشوں کے تحائف کا بھی رواج چل نکلا ہے۔ اور اقوام عالم خاموش تماشائی، عالمی طاقتیں مفادات کی زنجیروں میں جکڑی، انسانیت کی تذلیل پر آنکھیں موند بیٹھی ہیں۔

  • 3. 20:10 2011-01-23 ,رضا :

    بس يہی سوچ مار گئی ورنہ بھارت کبھي کا ايک عالمی طاقت بن چکا ہوتا۔ بلکہ تقسيم کی نوبت ہی نہ آتی۔ انگريز سے ملے انفراسٹرکچر، صنعتي ڈھانچے اور باصلاحيت افرادي قوت کی بدولت متحدہ ہندوستان غالبا” امريکہ کے بعد دوسری عظيم طاقت ہوتا۔ مگر يہ ہو نہ سکا ۔۔۔۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔