اور اب وینا ملک
اب پھر لاؤڈ سپیکروں، توپ نما ٹی وی چنیل اینکروں، اور مفتیوں کا رخ ایک نہتی خاتون اور ایکٹرس وینا ملک کی طرف ہے۔ وینا ملک نے ہندوستان میں مقبول ریئلٹی ٹی وی شو بگ باس پر آکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا کیا بس گویا فائٹنگ بلز کو سرخ جھنڈی دکھا دی۔ یا پھر لگتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی نہیں سترہویں صدی کا عہد مغلیہ کا غیر منقسم ہندوستان ہے جہاں اورنگزیب کی حکومت ہے اور پھر کسی صرمد نے عریانی کے جامے میں آکر تمام عمامے اور ان میں چھپے خنجر اپنے اوپر کھلوا دیے ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں جاکر دہشتگردی کرنے والوں کو پھول پہنائے جاتے ہیں لیکن وہاں جاکر پیار محبت کی بات کرنے والوں پر زندگی اور زمین تنگ کی جاتی ہے جسکی تازہ مثال وینا ملک ہیں۔ یہ سرزمین پاک ہے یا ماضی بعید کا نازی جرمنی جہاں گوئرنگ نے کہا تھا کہ وہ جب آرٹ کا نام سنتا ہے تو اسکا ہاتھ ازخود پستول کے ہولسٹر کی طرف چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں جہاں آرٹ کی بات ہوتی ہے نام نہاد فتوؤں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
اب اس ملک میں جہاں پہلے ہی اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری برائے تکلف بچی ہے وہاں اسکے اصول و ضابطے ٹی وی اینکرز اور ان کے ہر وقت دستیاب مفتیان طے کراتے ہیں۔ ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو کیا پہننا ہے، کیا نہیں، سمیت تمام مردوں اور خواتین کو کیا پہننا ہے کیا نہیں۔ اب آپ کے باتھ روم، بیڈروم اور کچن تک کو کنٹرول مولوی اور ٹی وی اینکرز کیا کریں گے۔ اب بھی اگر پاکستان کے لبرلز اس خوش فہمی میں ہیں کہ پاکستان میں ایران یا طالبان ٹائپ انقلاب نہیں آسکتا تو ان کے لیے عرض ہے کہ ایسے انقلاب خاموشی سے آکر چل بھی پڑے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وینا ملک کو روحانی اور ذہنی طور پر ٹی وی اینکر اور مفتی مل کر 'لنچ موب' نہیں کرتے۔
مگر پھر بھی اس نہتی لڑکی نے اپنے اوپر تمام اوچھے واروں کا مقابلہ خوب کیا ۔ ان کے اس سوال کے جواب میں کہ وینا نے ہندوستان جا کر ملک اور مذہب کا نام بدنام کیا ہے وینا نے کہا اور خوب کہا کہ ملک اس کی وجہ سے نہیں کئی اور باتوں سے بدنام ہو رہا ہے۔
پھر بھی وینا نے اپنے ناکردہ گناہ کی معافی لے لی۔ پاپائیت سے عظیم سائنسدان گلیلیو گلیلی کی معافی کے باوجود بھی تو رہتی دنیا تک زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہی رہے گي۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائي!يہ معاملہ بھی ريٹنگ بڑہانے کا ثابت ہوا ہے۔ايک مخصوص ميڈيا گروپ نے بااہتمام اس مسئلے کو ضرورت سے کچھ ذيادہ ہی اچھالا اور دعویٰ بھی داغ ديا کہ اس کے پروگرام کی ريٹنگ کيا رہي۔اليکٹرونک ميڈيا پر کام کرنے والی ايسی فنکار خواتين کو تو بڑی مشکل ہے کہ وہ اگر ايک ميڈيا گرپ چھوڑ کر دوسرے کو جوائن کرليں تو ان کی باقاعدہ منظم انداز سے کردار کشی کی جاتی ہے۔وينا کے ساتھ بھی يہی مسئلہ در پيش ہے۔جب اس نے ايک بڑے ميڈيا ہائوس کو خيرآباد کہا تو اس کی نجی زندگی پر براہ راست حملہ کيا گيا۔بات اس کی بھی ٹھيک ہے کہ اس نے بھارت جاکر کيا کيا ہے جو ناقابل قبول بلکہ ناگوار گذرا ہے؟وہ يہی پرفارمنس تو ادھر بھی کرتی رہی ہے۔ويسے شروع سے يہ بات تو ہے کہ ہمارے ہاں بھارتی فنکاروں کو تو پذيرائی ملتی ہے مگر جب ہمارے والے وہاں جاتے ہيں تو قومی غيرت و حميت جاگ جاتی ہے۔آج بھی دليپ کمار، مدھو بالا،کو ياد گيا جاتا ہے۔اسی سرزمين نے وہ دن بھی ديکھا جب ايک آمر مرد مومن مرد حق نے شترو گھن سنہا کو پاک و پوتر ايوان صدر ميں باقاعدہ مدعو کيا۔جب اميتابھ بچن شوٹنگ کے دوران ميزکا کونہ لگنے سے زخمی ہوا تو يہاں کئی لوگوں نے کھانا کھانا چھوڑ ديا بلکہ بھرت یا روزے رکھے؟آج بھی لوگ ريکھا،ميناکشي،سری ديوي،ديويا بھارتي،مادھوري،کاجل،کرينہ کپور اور کترينہ کو پسند کرتے ہيں۔ان کے ايسے ايسے مناظر و رقص ديکھتے ہيں جن کو قابل اعتراض کہا جاتا ہے۔يہ تو پرفارمنس اور فن کے نام پر قبول ہے جب يہی کچھ ميرا يا وينا وہاں جاکرکرے تو اس پر ہاکار مچ جاتی ہے۔دوہرے معيار کا مظاہرہ جب پاکستان ميں مقبول عام بھارتی خان صاحبان بھارتی اداکاراوں کے ساتھ ہيجان انگيز مناظر فلمبند کروائيں تو ٹھيک ہے۔جب معاملہ الٹ ہو تو مفتی اور فتوے سامنے آجاتے ہيں۔اگر محسن حسن خان رينا رائے سے شادی کرئے تو وہ ہماری بھابی اور اگر شعيب ملک ثانيہ کے ساتھ شادی کرئے تو باچھيں کھل جاتی ہيں اور اگر ہماری کوئی اداکارہ کچھ ايسا کرلے تو کيا حال ہوگا سب کو معلوم ہے۔اگر لتا منگيشکر خان صاحب مہدی حسن کے گلے ميں بھگوان تلاش کرلے تو قبول ہے۔اگر نصرت فتح علی خان وہاں جادو جگائيں تو ٹھيک۔يہ دوہرا معيار بلکہ منافقت کب ختم ہوگی معلوم نہيں۔اب تو فنکار دہائی ديتے ہيں کہ فن اور سر کی کوئی سرحد نہيں ہوتی مگر نہ جانے ہم کب اس طرف سوچيں گے۔جب تک کچھ سخت گير موقف کے حامی صحافی جن کی اٹھان و تربيت ايک مخصوص انداز سے بلکہ ايک مخصوص سانچے ميں ڈھلا ہوا ہے تو حالات يہی رہيں گے۔اسی طرح جب اينکرز اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ملاوں اور مفتیوں سے گٹھ جوڑکر کے اپنا الو سيدھا کرتے رہيں گے تو ہم کہيں بھی کسی بھی سمت ميں ترقی کا سفر نہيں کر پائيں گے
گزارش ہےٹی وی اينکرز اور مفتيان کی تو جانےديجيۓ - وہ اپنی بساط تک محدود ہيں - رہ گئيں يہ محترمہ تو يہ بنا کسي سکرپٹ يا ہدايت فقط اپني تخليقي صلاحيتيں بروۓ کار لا کر کمبل تلے نشاط کی گھڑيوں سے گزرنے کے تاثرات ديتی بتائی گئي ہيں - کيا اسي آرٹ کا دفاع کر رہے ہيں آپ - دراصل يہ لوگ وہاں نظر ميں آنےکے لۓ اتنا مرے جا رہے ہيں کہ کچھ بھی کرنے کو تيار رہتے ہيں - آپ کو ايک مختصر ہيٹ کي اوٹ ميں انيتا ايوب کی ٹاپ ليس تصاوير ياد ہوں گی - پاکستان ميں صرف چوٹي کے ہيرو کا مطالبہ کرنے والی ميرا نے مہيش بھٹ کی فلم ميں ايک اداکار کے ساتھ کيا نہيں کيا - زيبا بختيار بھي بھارت گئي تھي - کيا خوبصورت کام کيا تھا - سب ياد کرتے ہيں - ا -
بہت اچھا بلاگ ہے آپ کا حسن مجتبی صاحب۔ بے شک آپ نے سچ کہا ہے کہ اب مسلمانوں کے معاملات مولوييوں اور مفتيوں کے ہاتھوں ميں چلے گئے ہيں - ليکن ايک بات ميرے اندر بھی ايک عجيب سی کسک پيدا کرگئی ہے - بگ باس ميں نے بھی ديکھا ہے اور جتنی لڑکياں اس ميں تھيں ان سب سے کہيں زيادہ ڈھکوسلے باز يہی لگيں تھيں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ اس شو ميں جتنے زيادہ ہفتوں گھر ميں گزارو گے انعام کی رقم بھی اتنی ہی تيزی سے موٹی ہوتی جائے گی اور ميں نے صاف طور پر محسوس کيا تھا کہ گھر ميں رہنے والے لوگوں نے کس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کيے ہيں اور افسوس ناک بات تو يہ کہ وينا نے ان سب پر سبقت لے لی تھی اس سلسلے ميں اگر پاکستانيوں کے تعلق سے کوئی رونگ ميسيج جاتا ہے تو يہ بری بات ہے باوجود اس کے ميں يہی کہونگا کہ مفتيوں يا مذہبی رہنماووں کو ان معاملات ميں نہيں پڑھنا چاہيے
محترم کسی مرد سے لحاف میں چپک ک لیٹنا کونسا آرٹ ہے؟
بی بی سی کبھی اپنی ایسی سوچ سے شاید کبھی باز نہیں آسکتا۔ انگریزوں کا ادارہ ہے اسی لیے۔
اگر کسی کا خیال ہے ہے وینا ملک نے اچھا کیا اس کو کیا کہا جا سکتا ھے۔ لیکن جہاں 18 کڑوڑ کا خیال ہے کہ وینا ملک نے غلط کیا وہاں ان کو کس طرح غلط کہا جائے۔ پاکستان میں بے حیائی بڑھتیجا رہی ہے اور بی بی سی جیسے ادارے اسکو "براے نام" کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کو اب چاہیے کیا ؟
ببیشک یہ سب کچھ غلط ہے مگر آپکی توپوں کا رخ اکثر پاکستان کی طرف کیوں ہوتا ہے۔.
انڈیا کے مذہبی انتہاپسندوں کو آپ کچھ نہیں کہتے جنہوں نے وینا ملک کو پروگرام میں شمال کرنے پر سیٹ پر حملے کی کوشش بھی کی تھی جی ہاں ان دہشتگردوں کی بات کررہا ہوں جنہوں نے فلم مائی نیم از خان کو سبورتاز کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔۔
ہمارے یہاں ایک فیشن ہے دوسروں کو نیچا دکھانا۔ وینا ملک نے جو کیا وہ ایک شو تھا اسکے سوا کچھ نہیں تھا ۔ کچھ اور جو ہم نہیں کرتے تو لوگوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔
واہ حسن بھائی آپ کو آخر پاکستان کے خلآف کچھ نہ کچھ مواد مل گیآ لکھنے کو۔ سعودی اورایران میں اس طرح کے واقعات کے بعد کیا عوامی اور حکومتی ردعمل ہوتا ہے کھبی کسی نڈر صحافی نے یھر لکھنے کی جرئت کی؟
ٹی وی والے بھی کیا کریں، روز سیا سی لوگوں کو لاتےہیں جس سے نہ ان کے پروگرام کی ریٹنگ بڑھتی ہے نہ ان کے ادارے کا بزنس، ایسے میں کوئی تو ایسا عنوان ھو جس کو دیکھ اور سن کر ناظرین اور مولوی اپنا ٹی وی اور منہ کھلا رکھیں۔ وینا ملک کو اس کرنی پہ انڈیا میں تو خوب پزیرائی ملی لیکن اپنے لوگوں نے ان سے کما کے بھی ان کے آنکھوں سے آنسوں نکلوادیے، یہ ہے ھمارا قومی انداز ؟
ڈئیر حسن مجتبیٰ، ازرائے مہربانی زیادہ پریشان نہ ہوں کیونکہ یہاں کوئی ایرانی یا طالبانی انقلاب نہیں آ سکتا۔ یہ صرف آپ کا وہم ہے جو وینا ملک کی بھارت میں بولڈ پرفارمنس پر مولویوں کے ردِ عمل سے ایرانی انقلاب کے جراثیم نظر آئے اور اس وہم کی غالبآ وجہ آپ کی بی بی سی سے ‘وابستگی‘ ہے۔ بھارت میں پنڈت اور ادھر پاکستان میں مولوی تو ہر وقت ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے بالتریتب ‘پاکستان دشمنی‘ اور ‘بھارت دشمنی‘ عنصر برآمد ہوتا ہو۔ اس سے پہلے اداکارہ میرا کے دوالے بھی یہی مولوی ہو چکے ہیں جو آج وینا ملک کے دوالے ہوئے بیٹھے ہیں۔ دانشور، رائٹرز، شعرا، تعلیمی و ثقافتی وفود بھی دونوں بھارت اور پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور پیار محبت آگے بڑھانے میں رول ادا کر رہے ہیں، مولوی ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر تو نہیں پڑتے۔ اصلی صورتحال بس اتنی سی ہے کہ بھارت دشمنی کی جڑیں عوامی سطح پر نہیں ہیں بلکہ صرف ‘حُجروں‘ تک محدود ہیں۔ اور ان حجروں کے مالک مولویوں کی بھارت سے دشمنی کوئی لاشعوری نہیں ہے بلکہ مفاد پرستانہ ہے کہ بھارت دشمنی کے مواقع جتنے تلاش کیے جائیں گے اتنا ہی ان مولویوں کے حلوہ مانڈا کا سٹاک تیار ہو گا اور پرنٹ ا الیکٹرانک و سائبر میڈیا میں آنے کا چانس بڑھے گا۔ کرکٹ میچ ہو یا وینا ملک اور میرا کی بھارت میں ‘بولڈ‘ پرفارمنس ہو، جوہری اسلحہ ہو یا میزائلوں کے تجربے ہوں، افغانستان میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں کا معاملہ ہو یا امریکہ سے دوستی کی دوڑیں ہوں، ہر معاملے میں بھارت کے حوالے سے موازنہ کرنا اور بھارت کو دیکھ کر معاملات کو طے کرنا، ‘ملائیت‘ اور اسی کا ‘ڈی این اے‘ رکھنے والی ‘اسٹیبلیشمنٹ‘ کی سیاست ہے۔ اگر واقع ہی ایرانی یا طالبانی انقلاب چلنا ہوتا تو ان مولویوں کے ‘باوا جی‘ نے تو ملک میں گیارہ سال تک ‘اسلامائزیشن تحریک‘ چلائی رکھی تھی، لیکن اس کی موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں یہ مولوی حیران کُن حد تک ناکام ہوئے۔ البتہ یہ درست ہے کہ ‘آرٹ‘ کے نام پر فحاشی، ‘روشن خیالی‘ کے نام پر مذہب و ثقافت و کلچر پر حملہ، ‘خاندانی منصوبہ بندی‘ کے لیبل تلے ‘آبادی بم‘ پر سکڈ میزائل، اور ‘چائلڈ ابیوز‘ کے نام پر فحش تعلیم و ذہنیت پھیلانے کا ‘سامراجی انقلاب‘ کافی دُور تک نکل آیا ہے جس کے آگے بند باندھنے کے لیے استعمار نواز میڈیا کو لگام دینے کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ انقلاب کی طرف جدوجہد تیز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
مجھے لگتا ہے آپ نے یہ سب وینا ملک کو متاثر کرنے کیلیے کیا ہے ۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ آپ اشمٹ پٹیل کی جگہ لے لیں گے۔ ویسے آپ میں اور اس میں فرق تھوڑا سا ہی ہے۔
مولانا کو بگ باس ديکھنے کی ضرورت کيوں پڑي؟
کیا کیا جاۓ بلاگ کی ریٹنگ بھی تو بڑھانی ھے۔ مولوی مفتی اور پاکستان کے خلاف لکھو ریٹنگ خود بخود بڑھ جاۓ گی۔
کیا پیار محبت کرنےکا ایک یہی طریقہ رہ گیا تھا۔ اخلاقی حدود کا بھی لحاظ ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہتے کہ اپنا فن یا پیار محبت نہیں دکھائیں مگر اپنی ساکھ کو نہ گرائو
وینا نے ایک پروگرام میں حصہ لیا ہے جس میں اس نے محض اداکاری کی ہے اور بس۔ڈرامہ، فلمیں ہوں یا ٹیلی فلمیں کرنا وہ ایسے موضوع ہیں جن میں بطور اداکار کا اداکارہ آپ کو انسانوں کو تفریح مہیا کرنے کیلیے اداکاری کرنا پڑتی ہے جیسے کرادار ملتے ہیں وہی اور کرنے پڑتے ہیں وہی اپنانے پڑتے بھی پڑتے ہیں۔