'رات کی عدالتیں'
پاکستان میں امریکی اہلکار کے حوالے سے باضابطہ سرکاری صورتحال واضح کرنے سے انکار اور گیند عدالت کے کورٹ میں پھینک دینے سے ایک مرتبہ پھر وہی ہو رہا ہے جو ہوتا آ رہا تھا۔
طرح طرح کے ٹی وی چینلز نے شاید 'عوامی طلب' پوری کرنے کی خود پر مسلط کی گئی ذمہ داری کے مبہم اصول کے تحت 'رات کی عدالتیں' منعقد کرنا شروع کر دی ہیں۔
حکومت تو شاید کسی خاص مصلحت یا کمزوری کی وجہ سے عدالت کو بہانہ بنا کر کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن میڈیا پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ طویل اشتہاری وقفوں سے بھرے پچپن منٹ کے ٹاک شوز میں روزانہ اس واقعے کے ایک نئے پہلو پر بات سے زیادہ اکھڑ باتیں اور واقعاتی ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔ اگلے روز نئی معلومات اور نئے مفروضوں پر ایک نئی عدالت سجانے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔
امریکی حکومت نے ابھی تک 'ریمنڈ ڈیوس' نامی اس شخص کا اصل نام تک نہیں بتایا لیکن یہاں پاکستان میں اُسے ان مکالموں میں شریک (اہم اور اب تو ان کے لیے سینئر کا سابقہ بھی لگایا جاسکتا ہے) حکومت پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان نے انہیں 'کرائے کا قاتل' اور 'جاسوس' قرار دے کر اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
ایک دوسرے چینل پر ایک سینئر صحافی نے اپنی ماہرانہ رائے کے تحت افغان سرحد پر ایک پاکستانی چوکی پر حملے کے واقعے کو بھی لاہور کے حادثے سے جوڑ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ حملے میں امریکی فوجی ملوث نہیں تھے لیکن کمان تو امریکیوں کے پاس ہی ہے نا بھئی۔ ایک اور چینل نے ایک ایسے شخص کو مدعو کیا جن کا ماننا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ سے لیکر ہر مسئلے کے پیچھے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ہے۔ ایسے میں حکومتی سیاستدان کا اس پر اکتفا ہے کہ ہم 'حالت جنگ' میں ہیں اور بس۔
مقدمے کا بقول حکومت عدالت کے زیر سماعت ہونا کیا محض حکومت کے لیے ہے۔ ایک اینکر نے تو اپنے مہمان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ اگلی سماعت تک مقدمے کے لٹک جانے سے اب وہ کیا کریں؟ کس طرح اسے کور کریں؟ ایسے میں ابہام کم کرنے کی کوشش میں کنفوژن مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ کسی کو اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع دیا جا رہا ہے تو کوئی سازشوں کی بدبو کو مزید ہوا دینے کی اپنی خواہش پوری کر رہا ہے۔
امریکی کو تختہ دار پر دیکھنے کی ان افراد کی بظاہر خواہش عدالتی کارروائی کا انتظار بھی نہیں کرسکتی ہے۔ ایسے ماحول اور فضا میں پولیس کی تحقیقات اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کسے ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستانی میڈیا ایک غیرسنجیدہ میڈیا ہے اور ‘کبھی تولہ اور کبھی ماشہ‘ اس کا شروع سے ہی وطیرہ رہا ہے۔ لہذا اس میڈیا پر تبصرہ کرنا یا اس کو خاطر میں لانا وقت کا ضیاع ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس پر صبح شام نئی نویکلی کہانیاں بیان کر کے میڈیا دراصل وقت پاس کر رہا ہے اور جلتی پر تیل پھینک کر مزید ‘بریکینگ نیوز‘ کو ایجاد کروانا چاہتا ہے۔ رواں دنوں میں ملکی خصوصآ الیکٹرانک میڈیا، ریمنڈ پر میڈیائی دکانداری چمکانے کے ساتھ خود کو ہشاش بشاش رکھنے کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جب تک کہ کوئی نیا ایشو ہاتھ نہ آ جائے۔
‘چھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘
‘امریکی کو تختہ دار پر دیکھنے کی ان افراد کی بظاہر خواہش عدالتی کارروائی کا انتظار بھی نہیں کرسکتی ہے۔ ایسے ماحول اور فضا میں پولیس کی تحقیقات اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کسے ہے؟‘
‘بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘
امریکی کو تختہ دار پر دیکھنے کی ان افراد کی بظاہر خواہش عدالتی کارروائی کا انتظار بھی نہیں کرسکتی ہے۔ ایسے ماحول اور فضا میں پولیس کی تحقیقات اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کسے ہے؟ "بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی"
ريمنڈ ڈيوس کو کچھ نہيں ہوگا اور اس کيس کو لٹکانے يا پيشہ ور ميڈيا کو اس کيس کو اچھالنے ميں حکومت کی خاموشی کا مطلب ڈالروں کی مانگ ہے۔ يہ تو سب کو پتہ ہے کہ ڈيوس نے گولی ڈر کی وجہ سے لاشعوری ميں يا غير دانستہ چلا دی کيونکہ غير ملکيوں کے اغوا اور قتل کی وارداتيں تو عام ہيں نيز مقتولين سے اسلحہ بھی برآمد ہوا گو کہ اسلحہ ہر چوتھے شخص کے پاس اپنی حفاظت کے ليے ہوتا ہے مگر يہ کہنا بھی غلط ہے کہ ڈيوس نے يہ کام قتل کی نيت سے کيا اور عدالت کے ليے اسے سزائے موت دينا مشکل ہوگا۔ ڈيوس کی غلطی يہ ہے کہ اگر وہ اتنا ڈرپوک تھا تو باہر کيوں نکلا اور وہ بھی بہت کم سکيورٹی کے ساتھ۔
دوسروں پر عدالت سجانے کا الزام لگا کر ہارون صاحب آپ نے بھی وہی کام کر ديا يعنی قائرين کے تبصروں کی آڑ ميں اس کيس کی جرح تو ادھر بھی ہوگي۔
محترم اب دنیا اتنی تو بیوقوف نہیں کہ اس مہم کو محض میڈیا کی عدالت قرار دے کر صرف نظر کر لے - اگر پاکستان کے میڈیا کی کردار کو تاریخی تناظر میں دیکھا جاۓ تو بہت آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ میڈیا کے لئے کم از کم بنیادی لائن آف ایکشن کا تعین سرکار پاکستان ہی کرتی ہے اور میڈیا نے ہمیشہ عسکری آقاؤں کے دم چھلے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی عسکری صفوں کی خواہش ہی ہے کہ اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ الجھنیں پیدا کی جائیں، تا کہ سارے معاملے میں ان کے شرمناک کردار پر بھی پردہ پڑا رہے، اور انہیں آقا امریکہ سے مزید رعایتیں بھی مل سکیں ۔
میڈیا کے اس کردار کا اندازہ صرف چند ایک تقابلی جائزوں سے ہی بآسانی ہو جاتا ہے، خیبر پختونخوا کے زخمی ہونے والے پولیس سپاہی پر پورا پورا پروگرام بڑی دیانتداری سے حب الوطنی کے لبادے میں نشر ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان پولیس کے اعلیٰ افسران کو اغوا کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جاتا ہے تو ان کی تدفین تک دکھانے کی زحمت نہیں ہوتی۔ روزانہ مسخ شدہ لاشوں کا انبار ملتا ہے، خبر ندارد اور لاہور کے ایک مشتبہ قتل پر ہفتوں دانشورانہ تجزیے، ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکار حتیٰ کہ ڈی سی تک اغوا ہو جاتے ہیں تو میڈیا محض ایک ٹِکر پر اکتفا کرتا ہے۔ سندھ سے رکن اسمبلی ہجرت کر جاتے ہیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور بلوچستان سے اگر کوئی ہندو خاندان ہجرت کا اعلان ہی کر دے تو وہی میڈیا کی عدالتیں لگنی شروع ہوتی ہیں۔ حقیقت میں پاکستانی میڈیا بیچارہ حقیقی طاقتوں کے سامنے کیا بیچتا ہے۔
نیا کام تو آپ نے بھی نہیں کیا۔ پاکستان میں طرح طرح کے ٹی وی اینکرز اور مہمانان اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی نکتہ بیان کرتے ہیں۔ مغرب میں بھی یہی دستور ہے۔ یا پھر جس موضوع کو پاکستان اور پاکستانیوں سے نسبت ہو وہ آپ کے نزدیک قابل توجہ نہیں۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ ان سے بے مختلف اور اوپر کی کی چیز ہیں۔
آخر بی بی سی کے انٹرنیٹ اردو ایڈیشن پہ لکھنے والے آپ اپنے آپ کو اعلٰی اور پاکستان مٰن کام کرنے والے دیگر صحافیوں وغیرہ کو کم تر اور بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہے۔ مشرف حکومت کے جانے کے دوران اور بعد میں بی بی سی اردو انٹرنیٹ ایڈیشن کے اس رویے میں شدت آئی ہے۔
رات کی عدالتوں کے ججوں اور وکيلوں کی نہ تو امريکہ سے کوئی دشمنی ہے اور نہ انہيں مقتولوں سے کوئی ہمدردي۔ بس اس حکومت کو کسی طرح الٹانا ہے۔ اسی ليے اين آر او، توہين رسالت اور کئي دوسرے معاملات ميں ناکامي کے بعد اس معاملے کو پکڑ کر بيٹھ گئے ہيں۔ ليکن حکومت نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ چاہے ملک کا بيڑہ غرق ہو جائے، کسی بات پر اسٹينڈ نہيں لينا، بس ديہاڑياں لگاتے چلے جانا ہے۔
پاکستان پر اللہ رحم کرے۔ پاکستانی قوم سمجھداری نہیں کر رہی اور سہ یہ مذہبی جماعتیں ماحول خراب کر رہی ہیں۔
میرے خیال میں ہر اخبار اور نیوز چینل یہی کر رہے ہیں اشوز کو رپورٹ کرنے کی بجائے۔ بی بی سی بھی کبھی کبھی اہم موضوعات میں یہی کرتی ہے اور کسی کی ذاتی رائے مسلط کرتی ہے۔
ميڈيا کہيں کا بھی ہو اس پر من و عن اعتبار کرنا سراسر غلطی ہے کيونکہ وہ تو وہ بيچتے ہيں جو جلدی بک جاۓ اور اخبار اور ٹی وی والوں کی روزی روٹی لگی رہے۔ ايک اور بات ميڈيا کی ايک دوسرے کے ساتھ بھی مقابلہ بازی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے خبر کی سچائی جانچنے کی نوبت ہی نہيں آتی۔ اہم بات يہ بھی ہے کہ ميڈيا کو آزادی تو مل گئی مگر ان کا اصول اور ضابطہ وغيرہ لگتا ہے نہيں ہے۔ بس جو مرضی اپنی طرف سے ہی خبر ٹھوک دی تاکہ ناظرين کو راغب رکھا جا سکے۔ اگر کوئی ضابطے کی بات کرے تو وہ ميڈيا کی آزادی پر قدغن سمجھ کر اس شخص کا تيا پانچہ ايک کر ديا جاتا ہے۔ اگر يہ لوگ ڈرتے ہيں کسی سے تو وہ دہشت گرد ہيں جن کے بارے ميں کچھ کہنے پر بہت ہی محتاط رويہ اپنايا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو ان کی مختلف انداز ميں حمايت بھی کی جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب يہ نہيں کہ ميڈيا آزاد نہ ہو مگر بعض اوقات ان غلط خبروں اور تبصروں کی وجہ سے بےگناہ لوگ مصيبت ميں مبتلا ہوجاتے ہيں۔ لہذا ميڈيا کو بھی کوئی اصول ضابطہ اپنانا چاہيۓ۔-
آپ کو یقین ہے کہ بی بی سی کے صحافیوں کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی صحافی اور میڈیا اینکر دودہ پیتا بچہ ہے۔ اگر وہ لوگ خبر کے مواد پر بحث نہیں کر رہے تو آپ ان صحافیوں پر تنقید کے علاوہ کیا کرہے ہیں۔ ہم سب پاکستانی امید کرتے ہیں کہ امریکی اتحادی تاج برطانیہ سے تنخواہ لینے کے باوجود آپ ریمنڈ ڈیوس کے قتل کی خبر کے اصل مواد (content) پر تبصرہ فرمائیں گے گو کہ بی بی سی کے لائن سے ہٹ کر لکھنا آپ کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔
‘ملائیت‘ کے دوالے ہو کر پاکستان کو ‘افغانستان‘ بننے سے بچانا اور ملک کو ‘الیکٹرانک میڈیا‘ کے میدان میں داخل کرنا، پرویز مشرف کے دو ایسے کام ہیں جن کو سراہے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ‘سائبر ورلڈ‘ اور دنیا میں راتوں رات اتنی ترقی کے باوجود آج بھی ‘پرنٹ میڈیا‘ اپنی اہمیت و حیثیت کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ دوسری طرف ‘الیکٹرانک میڈیا‘ اور پرائیویٹ چینلز کی بے ہنگم بھرمار نے شعبہ صحافت کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ‘چوں چوں کا مربہ‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ابھی ایک ‘بریکینگ نیوز‘ چل رہی ہوتی ہے کہ دس منٹ بعد ہی اسی چلنے والی بریکینگ نیوز کی یہ میڈیا خود ہی ‘بریکینگ نیوز‘ ہی کی صورت میں نفی کر دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہی کافی ہے جب سلمان تاثیر کے دبئی جانے کی ‘بریکینگ نیوز‘ چلی تو دس منٹ بعد ہی سلمان تاثیر، الحمرا ہال، لاہور سے میڈیا سے براہِ راست گفتگو سننے و دیکھنے میں آ رہی تھی۔ آزادی صحافت کے نشے میں مدہوش یا چُور الیکٹرانک میڈیا، صحافت اور تجزیہ نگاری کے حساس، ذمہ دارانہ اور اہم ترین میدان میں جابنداریت، جذباتیت، جلد بازی جیسی غیر پیشہ وارانہ اور منفی روش کو روشناس کروا کر آہستہ آہستہ صحافت کا جنازہ نکال رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والی گفتگو یا تجزیوں کو تجزیے کہنا ہی گفتگو اور تجزیے کی توہین ہے کہ ان میں کہیں بھی یہ تاثر دیکھنے کو نہیں آتا کہ تجزیہ کار اپنی باریک بینی، جہاندیدی، گھاگ پن اور تجربہ سے اُن چُھپے ہوئے پہلوؤں کو اجاگر کر رہے ہوں جو حکومت اور عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں۔ خاکسار فخریہ کہتا ہے کہ میڈیا کے تجزیوں سے کہیں زیادہ بہتر تجزیے و تبصرے تو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے قارئین کے دیکھنے پڑھنے میں آتے ہیں۔ تجزیہ کا معنی کسی چیز کے تمام ممکنہ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے خون پسینہ ایک کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ٹی وی چینلز خبر کی سیڑھی پر شخصیات پر الزام تراشیاں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ اس بابت ایک نام نہاد مقبول چینل کی مثال دینا ہی کافی ہو گا جس کی ہر خبر کا رُخ ‘ہِز ایکسیلینسی‘ صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی ذات کی طرف ہو جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، صحافت کے ایک سنجیدہ، بالغ، حساس اور غیرجانبدار پیشے کو اپنی تیز رفتاری میں بتدریج تباہ کر رہا ہے، اس کو جتنی جلد ممکن ہو، لگام ڈال کر ‘شعبہ صحافت‘ کے تقدس کو بچایا جا سکتا ہے۔ وگرنہ وہ دن دُور نہیں جب لوگ شعبہ صحافت کو ‘دہشت پسندانہ‘ شعبہ گرداننے لگ جائیں گے۔
"‘ملائیت‘ کے دوالے ہو کر پاکستان کو ‘افغانستان‘ بننے سے بچانا اور ملک کو ‘الیکٹرانک میڈیا‘ کے میدان میں داخل کرنا، پرویز مشرف کے دو ایسے کام ہیں جن کو سراہے بغیر کوئی چارہ نہیں۔"
اس سادگی پی کون نہ مر جی اے خدا۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں ہی کی وجہ سے ہی پاکستان افغانستان بن چکا ہے اور ہمارے روشن خیال دوست پاکستان کو افغانستان بنا کر بھی ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ہمارے روشن خیال صحافیوں، ان کے دوستوں اور مغرب زدہ این جی اوز کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ریمنڈ جیسے قاتل کو کیسے سپپورٹ کیا جاۓ کیونکہ کوئی اخلاقیات اس جیسے قتل کو سپورٹ نہیں کرتی۔ اس لیے یہ ہمارے دوست نت نئے بھیس بدل کر ریمنڈ کو بچانے کی کوشش کرہے ہیں اور ان دوستوں کا سارا زور اس پر ہے کی امریکی تو معصوم ہے اور سارا قصور ان تین نوجوانوں کا ہے جو اس امریکی کے راستے پر آگے. ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
قصوروار تو حکومت ہے جس نے ابہام پيدا کررکھا ہے۔ معاملہ دو حکومتوں کا ہے کہ کوئی بھی ”پرو امريکن” ہونے کا ليبل نہيں لگوانا پسند کر رہا۔ بيچاری عدالتيں خواہ دن کی ہوں يا رات کی مشکل کا شکار ہيں کہ عوامی دباؤ بھی جو ہے۔ ميڈيا تو آگاہی دے رہا ہے جبکہ حکومت لوگوں کو اندھيرے ميں رکھ کر عدالتوں کے کندھے پررکھ کر بندوق چلانا چاہتی ہے۔
جناب حنیف صاحب آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ پاکستان میں کام کرنے والے صحافی اور اینکرپرسن خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ اور آج کل تو جج بھی رات کو ٹاک شوز دیکھ کر ان کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں۔
میڈیا ہر ناکامی کو امریکہ کی سازش قرار دے کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ آج کل ہر ایک کو پیٹ کی فکر ہے نا اسی پیٹ کی خاطر و ہ اپنی دال گلنا چاہتے ہیں۔ بی بی سی کی خبروں کے علاوہ کسی اور کی خبروں پر اعتبار کرنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بی بی سی کو دل دوگنی رات چوگنی ترقی دے۔خصوصاً بی بی سی کے سٹاف، رضا علی عابدی،شفیع نقی جامعی اور وسعت اللہ خان، نعیمہ احمد مہجور کو خصوصی دعائیں۔
ايک بات تو ہے کہ امريکی شہری کے پاس اسلحہ تھا اور اس نے قتل بھی کيے اب يہ سوال اٹھتا ہے کہ انصاف کے ليے امريکن حکومت عدالت ميں جانا پسند کيوں نہيں کر رہی۔ اگر واقعی ميں قتل سيلف ڈيفنس ميں ہوءے تو انصاف يہی ہوگا کہ اس کو چھوڑ ديا جاے۔ اس طرح کے احتجاج اور ٹی وی شوز سے تو ايسا معلوم ہوتا ہے کہ جيسے پا کستانی ايک بلکل عقل اور سمجھ بوجھ سے عاری قوم ہے اور مجھے ايسا لگتا ہے کہ يہاں سب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے نہ تو مجھے حکومت سچی لگتی ہے، نہ ٹی وی چينلز، نہ امريکن حکومت، نہ سڑکوں پہ احتجاج کرنے والے، نہ عدالت۔ سچ تو صرف يہ ہے کہ پاکستان ميں انسانی زندگی جيسی مقدس چيز کی قدر نہيں پتہ نہيں ابھی بھی اس کو لوگ انسانی معاشرہ کيوں کہتے ہيں؟
یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں ٹی وی چینل ناظرین ہر مسلے پر اینکرز اور تجزیہ کاروں کی رائے سے اکتا رہے ہیں۔ ہم اخبارات میں اچھی خبریں پڑتے ہیں لیکن چینل سنسنی پھیلا رہے ہیں۔
سچ تو صرف يہ ہے کہ پاکستان ميں انسانی زندگی جيسی مقدس چيز کی قدر نہيں پتہ نہيں ابھی بھی اس کو لوگ انسانی معاشرہ کيوں کہتے ہيں؟
وہ اس ليۓ کہ يہاں انسان نما----- نظر آتے ہيں مگر انسانيت کی بہت کمی ہے!
لو جناب ، تمام تر صحافتی زمہ داریوں اور اس معاملے کے ممکنہ اثرات کا احساس کرتے ہوۓ میڈیا نے ریمونڈ ڈیوس کیس پر مٹی ڈال ہی دی، اب قوم کو کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ہیروز کے جرائم کو موروثی حق قرار دینے کی سعی شروع ہو گئی۔ آنے والا کل پتہ نہیں کون سے اخلاقی اسباق ساتھ لاتا ہے۔ ویسے کیا ہم واقعی انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں؟ جہاں گورنر کی گاڑی کی ٹکر سے مرنے والی خاتون کے اہل خانہ کو چند کرارے نوٹ بشرط زبان بندی بھجواۓ جاتے ہوں وہ معاشرہ انسانی معاشرہ کہلانے کا حقدار ہے؟ جب بستی ہی انسانوں کی نہیں، معاشرہ ہی انسانی نہیں تو انسانی اخلاقیات و اقدار چہ معنی دارد۔ یہاں وہی دکھنا چاہیے جو بکتا ہو، اور وہی بکنا چاہیے جس کی ڈیمانڈ ہو۔
لوجی کر لو گل، ‘رات کی عدالت‘ نے ‘خبر‘ میں آصف علی زرداری کی شادی بھی کروا دی ہے اور جس پر اس ‘رات کی عدالت‘ کو ہرجانہ کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ حال ہے میڈیا کا خصوصا اس کا جو نام نہاد معروف چینل سمجھا جاتا ہے۔
میرے بھائی ہونے دو، سب کچھ ہونے دو، کم از کم میڈیا ہی کچھ نہ کچھ بول رہا ہے۔ جو بول رہا ہے بولنے دو، لوگ خود ہی فیصلہ کر لیں گے، مصلحت پسندوں کی خاموشی سے پاگلوں کا شور ہی بہتر ہے۔ تعلیم تو ملک میں بہت ہی کم ہے، اب کم از کم میڈیا کی چوں چوں سے لوگ اپنی رائے تو بنا رہے ہیں۔
ہر چینل کا ایک ایجنڈا ہے مگر میرا یقین کیجے یہ تمام چینل نجی ہیں اور وزارت خارجہ کے چلائے جانے والے پروپیگنڈا چینل نہیں ہیں۔ آپ کو ایک پیٹرن سرکاری پی ٹی وی سے بی بی سی تک دکھائی دے گا۔
ہارون رشید ,امید ہے آپ کی امریکی میڈیا تک رسائی ہوگی ...کچھ یاد پڑتا ہے جب عافیہ صدیقی کا کیس چل رہا تھا تو امریکی میڈیا والوں کی عدالتوں میں کیا کہا جا رہا تھا؟..امید ہے 'تُسیں سمجھ تو گیے ہی ہوں گے'۔
اوپر دے گیے اکثر تبصروں سے پتہ چلتا ہے کہ ان بھائیوں کو صرف پاکستانی چینل کا ہی پتہ ہے ..ارے دوستو یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے ..زمانے کی تبدیلی کو سمجھو۔
ميڈيا کی اس حالت کو ديکھ کر يوں لگتا ہے کہ جيسے کسی ميدان ميں ايک ہجوم کسی انجانی اور نظر نہ آنے والی چيز کے پيچھے ہيجانی کے عالم ميں کبھی ايک طرف بھاگ رہے ہوں اور کبھی اچانک تيزي سے دوسری جانب بھاگنا شروع کرديں؟؟؟؟!!!!!!
ايک ادبی عدالت کا انعقاد کراچی ميں بھی ہوا جس ميں سٹيج پر بيٹھی ايک خاتون بڑے ترنگ کے ساتھ سگريٹ کا کش لے رہی تھی۔ پتہ نہيں يہ کيسا ادب کا ميلہ تھا جہاں ادب سے وابستہ لوگوں کو يہ تک پتہ نہيں يا وہ اس کی فکر ہی نہيں کرتے کہ کسی مجمع ميں سگريٹ نوشی کرنا نہ صرف خلاف محفل ہے بلکہ دنيا کو يہ پيغام ديا جا رہا ہے کہ اگر ادب والوں يہ عالم ہے تو عام آدمی کيسا ہوگا۔ ميں اس پيغام کی توسط سے بی بی سی سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح msn اہم خبر کے نيچے عام قاری کو يہ سہولت فراہم کرتا کہ وہ اس خبر پر اپنا رد عمل ظاہر کرسکتے ہيں اس طرح بی بی سی بھی کرے تاکہ ہم اپنے کرتے درتاؤں اور ہماری تہذيب کو متاثر کرنے والوں کی حرکتوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرسکيں اور انہيں بتا سکيں کہ عام آدمی کسی معاملے پر کيا سوچتا ہے۔
یہ درست ہے کہ عوام کو عدالت کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن اب پنجاب حکومت حقائق سے بھاگ رہی ہے اور غیرواضح موقف اختیار رہی ہے۔
مجھے تو پولیس کی اب تک کی گئی کاروائیوں پر بالکل یقین نہیں ہے۔ ہماری پولیس جعلی کارروایئوں اور جعلی پولیس مقابلوں میں خاصی بڑی شہرت رکھتی ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے فن سے خوب آشنا ہے۔ ریمنڈ کے مطابق اس نے حملہ آوروں پر فائرنگ ذاتی دفاع میں اس وقت کی جب حملہ آوروں نے اسے مزنگ چونگی کے نزدیک عابد مارکیٹ میں لوٹنے کی کوشش کی۔ چونکہ دونون حملہ آور ڈاکو تھے اور آج کل پاکستان خصوصا لاہور میں ڈاکہ ذنی کی وارداتیں عام ہیں اور ڈیوس کا دونوں حملہ آوروں کو ڈاکو سمجھنا بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی سفارت خانہ کے ملازموں کو جینوا کنونشن کے تحت کسی بھی فوجداری کارروائی کے خلاف استثنا حاصل ہو تا ہے۔ پاکستان نے جینوا کنونشن پر دستخط کر رکھے ہین ،لہذا وہ اس معاہدہ کا پابند ہے۔ علاوہ ازیں، وزیر داخلہ، رحمن ملک اور فوزیہ وہاب نے بھی یہ اقرار کیا ہے کہ ڈیوس کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا۔ چونکہ یہ معاملہ دو ملکوں کے درمیان سفارتی نوعیت کا ہے لہذا ہمیں اس معاملہ کو بین القوامی قوانین کے تحت حاصل سفارتی استثنا کی روشنی میں حل کرنا چاہیے تاکہ کل کو ہمارے سفارت کاروں کو اس طرح کے معاملہ میں دوسرے ممالک میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ پاکستان کی ہائیکورٹس کو اس نوعیت کے کیسیسز کو جس میں ہمارے دوسرے ممالک سے تعلقات کے حساس معاملات شامل ہوں کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔ تمام جمہوری ممالک میں ایسا ہی ہوتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب! انتہائی شرم و افسوس کا مقام ہے۔ کہ اس وقت تمام قوم کی نظریں میڈیا پر ہیں۔ لیکن یہ بدبخت الیکٹرانک میڈیا انتہائی احمقانہ اور غیرسنجیدہ کردار اداکر رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ، بطورمیڈیا نہیں بلکہ ایک فریق کی طرح کا کردار ادا کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ہمیں بحیثیت قوم شرمندگی اٹھانی پڑرہی ہے بلکہ اس میڈیا کے کردار سے ہمارے کئی قیمتی ساتھی صحافی اپنی جان سے گئے۔ اللہ تعالٰی اس میڈیا کا قبلہ درست کرے۔ آمین