صوبوں کی بحث سے کیا حاصل
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے سرائیکی، بہاولپور اور ہزارہ سمیت مزید صوبے بنائیں۔ یہی مطالبہ ملک کی دوسری جماعتوں کی طرف سے بھی دہرایا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم کے ایک تازہ ترین بیان میں سرائیکی صوبے کو اپنی پارٹی کے منشور کا حصہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔
جاوید ہاشمی کا تعلق سرائیکی علاقے سے ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ تعلق ان کی سیاسی ترقی کی راہ میں غالباً کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ وہ مسلم لیگ(ن) میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، جس کی قیادت کا تعلق پنجاب کے غیر سرائیکی علاقے سے ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے غیر سرائیکی اضلاع راولپنڈی اور لاہور کے شہری انہیں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب کر چکے ہیں۔
ہاں اگر ان کی مزید سیاسی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ کہی جا سکتی ہے تو وہ خاندانی سیاست کا رجحان ہے، اور سرائیکی صوبہ بن بھی گیا تو یہ رجحان اپنی جگہ موجود ہو گا۔
اسی طرح وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سرائیکی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ بلکہ وہ تو اب سینتیس ماہ سے زیادہ عرصہ اس عہدے پر گزار چکے ہیں۔ اتنی دیر تو بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی ایک وقت میں وزیر اعظم نہیں رہے۔ یہ دونوں کبھی اپنی پانچ سالہ مدت نہیں پوری کر سکے اور ایک بار تو بینظیر بھٹو کو گھر بھیجنے والے بھی سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے سردار فاروق احمد خان لغاری ہی تھے۔
یوسف رضا گیلانی کی سیاسی ترقی کی راہ میں اور بحیثیت وزیر اعظم اپنا رنگ دکھانے کی راہ میں بھی غیر سرائیکیوں کا تعصب نہیں بلکہ خاندانی سیاست کا شکار ان کی اپنی سیاسی جماعت ہے۔
سرائیکی صوبہ بن بھی گیا تو یوسف رضا گیلانی کی جگہ ان کے صاحبزادے عبدالقادر گیلانی، سردار فاروق لغار ی مرحوم) کی جگہ اویس اور جمال لغاری، ذوالفقار کھوسہ کی جگہ ان کے بیٹے دوست محمد کھوسہ، غلام( مصطفیٰ کھر کی جگہ ان کی اولاد وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت پنجاب کے گورنر کا تعلق بھی سرائیکی علاقے سے ہے اور یہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے پہلے گورنر نہیں ہیں۔ سرائیکی، ہزارہ یا کسی اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جو احساس محرومی ہے وہ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے غیر سرائیکی علاقوں کے رہنے والوں سے مختلف نہیں ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب ہی کی مثال لیں جہاں پنجابی زبان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور اب تو دیہاتوں میں بھی لوگ اپنی مادری زبان کو پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی نئی نسل پنجابی کی بجائے اردو زبان اپنائے، سیاست مخصوص خاندانوں تک محدود ہے اور اچھی تعلیم اکثریت کی رسائی سے دور ہے۔
مختصراً یہ کہ اگر صوبے بنا بھی دیے جائیں تو لوگوں کی حالت تبدیل ہونا یقینی نہیں۔ اس کے لیے مختلف تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے بظاہر سیاستدان لوگوں کو دور ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
نت نۓ تماشوں ميں الجھا کر مہنگائي ، غربت ، بيروزگاري ، امن عامہ اور لوڈ شيڈنگ جيسے اصل مسائل سے دھيان بٹاۓ رکھا جا رہا ہے، جناب اسد علی صاحب -