| بلاگز | اگلا بلاگ >>

حکومت کسے بچانا چاہتی ہے؟

آصف فاروقی | 2011-06-20 ،12:42

چاہے سلیم شہزاد کا بہیمانہ قتل ہو یا اسامہ بن لادن کی روپوشی کا شرمناک واقعہ، حکومت کا رد عمل سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتا ہے۔

نیتوں کے حال تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو ان دو سنگین معاملات کی تحقیقات کروانی مطلوب تھی تو اس میں ابہام پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

آخر حکومت کیوں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ایک ذاتی دوست جج کو سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے کمیشن کا سربراہ بنانا چاہتی تھی؟ کیا اسے کچھ پوشیدہ رکھنا مقصود ہے؟ جہاں تک اخباری رپورٹوں کا تعلق ہے تو ابھی تک کسی نے بھی اس قتل میں حکومت کے ملوث ہونے کا شائبہ تک ظاہر نہیں کیا پھر اس رویے کا کیا مطلب ہے؟

ایبٹ آباد کمشین کی سربراہی سپریم کورٹ کے جج کے سپرد کرنا لیکن اس میں ایسی مینگنی ڈالنا کہ مذکورہ جج خود بھی اس کے قریب نہ جانے پائیں۔ اس حرکت کا کیا مطلب ہے؟

کیا یہ بات حکومت میں کسی کو معلوم نہیں تھی کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر سپریم کورٹ کا جج اس نوعیت کے کمشین کا رکن بننا قبول نہیں کر سکتا؟ دل اور دماغ یہ دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ بات یہ بھی نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کی روپوشی کی ذمہ داری صدر، وزیراعظم یا کابینہ کے کسی رکن پر عائد کی جا رہی ہو۔

پھر حکومت ان معاملات میں خواہ مخواہ کے تاخیری حربے استعمال کر کے کسے بچانا چاہتی ہے؟ اور کیوں؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:10 2011-06-20 ,Syed :

    فوج، اور کس کو۔

  • 2. 13:11 2011-06-20 ,فیاض امر :

    حکومت کیا کر رہی ہے، یا اس سے یہ سب "شرلاکی ہومز" حرکتیں کروائی جا رہی ہیں... کچھ سمجھ میں نہیں ہضم ہو نہیں رہا. اس پر مجھے میر صاحب والا یہ شعر پتہ نہیں کیوں بار بار ذہن میں آرہا ہے کہ:
    وہ ہوا خواہٍ چمن ہوں کہ چمن میں اکثر
    پہلے میں جاتا تھا اور بادٍ صبا میرے بعد.

  • 3. 13:27 2011-06-20 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    جناب محترم آصف فاروقی صاحب، آپ نے بہت ہی سنجیدہ قسم کا بلاگ لکھا ہے اور ایک ایک لفظ اندر کے کرب و تشویش و مایوسی کو واضح کرتا ہے۔ اس قدر سنجیدگی سے لکھا ہوا بلاگ شاید آج پہلی دفعہ خاکسار کو پڑھنے کو ملا ہے۔ لہذا ظاہر ہے اس پر تبصرہ بھی ذرا ٹھونک بجا کر اور ناپ تول کر لکھنا ضروری ہے تاکہ بلاگ کی سنجیدگی و متانت قائم دائم رہے۔ لیکن ایسا تبصرہ لکھنے کے لیے غور و غوض اور وقت درکار ہونا لازمی شرط ہے اور پھر غیر اعلانیہ بتی بھی بہت جاتی ہے۔ بہرحال آپ سے گذارش ہے کہ بلاگ کو ذرا ہلکا پھلکا رکھا کریں تاکہ معزز قارئین کو تبصرہ لکھنے میں زیادہ سر کھپائی نہ کرنی پڑی۔ خصوصآ رواں دنوں میں تو معمولی سا اندروں بین تبصرہ لکھنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے ‘آپ کی آواز‘ فورم کو گذشتہ دو ہفتوں سے بند کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے معزز قارئین کو لکھنے کی جو عادت تھی وہ بھی بھولتی جا رہی ہے کہ تبصرہ نگاری کے لیے پریکٹس اشد ضروری ہوتی ہے اور یہ روزانہ بنیادوں پر کی جائے تو ہی تبصرہ نگاری ممکن ہے۔ وہ تو بھلا ہو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا جس میں معزز قارئین لکھنے کے لیے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور یوں پریکٹس جاری رہتی ہے۔ ورنہ بی بی سی نے تو لکھنے کی عادت ہی چھڑوا دی ہے ‘آپ کی آواز‘ کو غیر اعلانیہ بند کر کے۔ شکریہ۔

  • 4. 13:36 2011-06-20 ,محمد احمد خان کراچی :

    آصف فاروقی صاحب، جو بچنا چاہتا ہے وہی تو دراصل حکومت ہے یہ سامنے جو ہے یہ تو فقط نظر کا فریب ہے ، پتلی تماشا ہے جس کی ڈور "اصلی حکومت" کے ہاتھ میں ہے. ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور - آپ کو ابہام نظر آتا ہوگا مگر ہمیں نہیں- کوئی کسی کو بچانا نہیں چاہتا - جو ان سب حالات کا ذمہ داران ہیں وہ خود کو بچا نا چاہتے ہیں - اب جان بچانا تو فرض ہے نا!

  • 5. 13:39 2011-06-20 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تاخیری حربے استعمال کر کے حکومت کسی اور کو نہیں بلکہ صرف اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہے۔ نواز شریف نے بھی تو پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود کو معہ اپنی فیملی اور مال کو بچا لیا تھا۔

  • 6. 14:23 2011-06-20 ,علی نقوی :

    جناب آپ جيسے جہاں ديدہ شخص کو يہ سمجھنے ميں دير نہيں لگنی چاھءيے کہ اشرافيہ اشرافيہ ہوتی ہے وہ ہر پارٹی سے تعلق رکھتی بھی ہے اور نہيں بھی تمام سياسی پارٹياں اس اسٹيٹس کو کا خيال رکھتی ہيں ہم جيسے مڈل کلاس لوگوں کے بچے محض شک ميں ہی بھون دہيے جاتے ہيں ايک سياستدان کے سپوت کا قصہ تو روز ہی پڑھتے ہوں گے جن کے خلاف تمام گواہ کسی نروان کے تحت فوری طور پر تاءب ہو چکے ہيں ہم اور آپ ايسا جگرا کہاں سے لاءيں کہ بيٹا فراڈ کے مقدمہ ميں بند ہے اور باپ ورکروں کو پھول دے کر بھيجتا ہے کہ ميرے لعل پر نچھاور کر دينا مجھہ جيسوں کے باپوں کا تو نہ خواستہ يہ سنتے ہی کہ ميرا بيٹا فراڈ کے کيس ميں شک پر ہی سہی بند ہے ہارٹ ہی فيل ہوجاءے گا اشرافيہ تجھے سلام

  • 7. 16:27 2011-06-20 ,ahmed faseeh :

    ہمارے لیڈرز اپنا زیادہ وقت امریکہ اور برطانیہ میں گزارتے ہیں۔ لیکن ان کی سوچ شمالی کوریا کے راہنماؤں جیسی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہماری حکومت ڈمی ہے اور اصل کھلاڑی فوج اور آئئ ایس آئی ہیں۔ اور وہی اس سارے معاملے کے پیچھے ہیں۔

  • 8. 18:17 2011-06-20 ,ڈاکٹر الفريڈ چارلس :

    فاروقی صاحب!آپکی تحرير کا نچوڑ اس جملہ ميں سمويا جاسکتا ہے کہ حکومت ان حساس معاملات پر سنجيدہ نہيں اور تاخيری حربے استعمال کرکے معاملات کو سلجھانے کی بجائے الجھانا چاہتی ہے

  • 9. 15:13 2011-06-21 ,Tanveer Arif :

    ببول کے درخت سے آم توڑنے کی خواہش ہے ہمیں، قائداعظم کے پاکستان کو نہ جانے کب ہم نے فلاحی ریاست سے قومی سلامتی کی ریاست بننے دیا اور چوکیدار کو گھر کا مالک بنا بیٹھے، پہلی بار ہم نے اپنے مسلح چوکیدار کو گھر کے مالک (پارلیمنٹ) کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا ھے، کہ مالک عزت بچالے، مگر یہ عاجزی وقتی تھی، اب وہ مالک کا گریبان پکڑ کر خود کو صاف بچالے گا-نہ جانے کب پاکستان کے حقیقی راہنما ملک کو زلت و پستی کی دلدل سے نکالنے کے لئے سامنے آئیں گے اور گھر کا انتظام مالک کے سپرد کرکے، چوکیدار کو اسکی صحیح جگہ پہ بٹھائیں گے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔