ہائے کشمیری مرچیں
بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام منقسم کشمیر کے درمیان جیسے سیاست سے لے کر ثقافت، تجارت، سیرو تفریح بغیر کسی دشواری کے انجام پاتی ہے کہ اب کشمیری مرچوں کے بارے میں قضیہ شروع ہوا ہے کہ وادی کی بیمار مرچیں سرحد پار بھیجی جاتی ہیں۔
کشمیر میں گزشتہ بیس برس کے پرُتشدد حلالات کے پیش نظر چالیس فیصد سے زائد آبادی مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے تو مرچوں سمیت دوسری فصلیں بیماریوں سے کیسے پاک رہ سکتی ہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے حکام نے حال میں وادی کے حکام کو اُن بیمار مرچوں کی تجارت روکنے کی صلاح دے دی جو حکام کے مطابق انسانی صحت کو زک پہنچا سکتی ہیں۔
اِلزام یہ ہے کہ یہ مرچیں بھارت کی دوسری ریاستوں سے منگوا کر لائن آف کنٹرول کے اُس پار پاکستانی علاقے میں بھیجی جاتی ہیں تاکہ کسٹم ڈیوٹی سے بچا جاسکے اور یہ وہ مرچیں نہیں جو کشمیر کی ہیں کیونکہ ان میں نہ کشمیر کا تیکھا پن موجود ہے اور نہ کشمیر کا رنگ ہے۔
پاکستان کی لیبارٹریوں میں اِن مرچوں کا تجزیہ کرنے کے بعد حکام کومعلوم ہوا ہے کہ ان میں افلاٹوکزن موجود ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر ہے (جیسے خود مرچیں انسانی صحت کے لئے مضر نہیں)
جب سے لائن آف کنٹرول پر تجارتی لین دین کا سلسلہ شروع ہوا ہے تاجروں کو دونوں طرف سے شدید مشکلات کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑی دشواری ویزا کا حاصل کرنا ہے اور پھر تجارتی لین دین کے لیے مخصوص اشیا ہی رکھی گئیں ہے جن پر کشمیر کا لیبل ہونا ضروری ہے۔ ان اشیا کو فوجیوں کی موجودگی میں سرحد آرپارپہنچانا جوئے شیر لانے کے متُرادف ہے۔
(یہ تجارتی لین دین صرف کشمیری تاجروں تک محدود ہے اور اس کا مقصد منقسم کشمریوں کے مابین تعلقات کو بحال کرنا ہے اس میں بھارت اور پاکستان کی پیدا کردہ اشیا یا فصل شامل کرنے سے کشمیری تاجروں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوسکتاہے)
اگریہ تجارتی تعلقات بغیر مرچوں کے ہوتیں تو شاید بحال ہونے میں تیکھا پن پیدا نہ ہوتا کیونکہ مرچوں کی لین دین کی وجہ سے پھرتیکھا پن شروع ہوا تو سرحد آر پار رابطے جو تقریبا ساٹھ برسوں کے بعد قائم ہونے لگے ہیں پھر مرچوں کے بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھارت آخر کب تک کشمیر کے آزادی پر ناگ بن کر بیٹھا رہےگا۔ کشمیر کو تو آزاد ہونا ہی ہے۔
دوبارہ بلاگ شروع کرنے کا شکریہ
جب کسی چیز کو ختم کرناہوتاہے تو اسی طرح سے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں اور یہ اسی طرح کی بہانہ باز ی ہے جس نے تجارت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تین ماہ کی تجارت نہیں ہوپائی جس سے لگ بھگ ستر سے اسی کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔