بلاگ کیسے کام کرتا ہے؟
یہ میرا ویب لاگ یعنی ہے۔ یہاں آپ وہ تمام بلاگز پڑھ سکتے ہیں جو میں نے لکھے ہیں۔ اس صفحہ پر آپ کو نئے بلاگز اوپر اور پرانے بلاگز نیچے ملیں گے۔ صفحہ پر دائیں ہاتھ پر آپ کو ایک کیلینڈر نظر آئے گا۔ اگر اس کلینڈر پر آپ کو کوئی تاریخ نیلے رنگ میں نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اس دن ایک سے زائد بلاگ شائع ہوئے ہیں۔ اس تاریخ پر کلک کرنے سے اس دن شائع کئے گئے بلاگز آپ کے سامنے آجائیں گے۔
آپ اپنا تبصرہ کیسے بھیج سکتے ہیں؟
ہر بلاگ کے بعد آپ تین لنک دیکھ سکتے ہیں۔ ایک پورا آرٹیکل یا پوسٹ جیسا کہ بلاگ لکھنے والے اسے نام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایک لنکڈ ’تبصرہ‘ بھی دیکھ سکتے ہیں
’پرمالنک‘ کیا ہے؟
یہ لنک آپ کو پورے آرٹیکل پر لے جائے گا۔ بنیادی طور پر ’پرمالنک‘ ’‘ کی شارٹ فارم ہے۔ یہ ویب لاگز کا ایک سٹینڈرڈ فیچر ہے جو بلاگرز کو دوسرے ویب لاگز کے ساتھ لنک ہونے اور ان پر تبصرے کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
تبصرہ بھیجنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟
آپ کا تبصرہ برائے راست ویب سائٹ پر شائع نہیں ہو گا۔ پہلے ہم ان کو پڑھیں گے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ تبصرے شائع کر سکیں۔ ہم آپ کے تبصرے کو صرف اس بناء پر نظر انداز نہیں کریں گے کہ آپ کے تبصرے میں کوئی بولڈ بات کی گئی ہے لیکن ہمارے کچھ ’‘ ہیں۔
بلاگز کی آزادی پر یقین رکھنے والوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ ہم تبصروں کی نگرانی کیوں کرتے ہیں۔ بہت سے بلاگرز کو ان تبصروں کی نگرانی اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ مختلف اقسام کی تشہیر کو روکا جا سکے۔ موصول ہونے والے تمام تبصرے ہمارے ’ہاؤس رولز‘ کے عین مطابق نہیں ہوتے اس لیے ہمیں انہیں سائٹ پر شائع کرنے سے پہلے ان پر اک نظر ڈالنی پڑتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم آپ کے بھیجے ہوئے زیادہ سے زیادہ تبصرے شائع کریں لیکن بدقسمتی سے ہم آپ کی موصول کردہ تمام ای میلز کو شائع کرنے کی ضمانت نہیں دیتے۔ مہربانی فرما کر یہ کوشش کریں کہ آپ جس بلا گ پر تبصرہ بھیج رہے ہیں آپ کا تبصرہ اس بلاگ سے متعلق ہو اور اپنے تبصروں کو مختصر رکھیں۔
اگر آپ کا کوئی سوال ہوو یا آپ کو شکایت ہو تو آپ ہمیں ای میل بھیج سکتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
اردو کی عالمی کانفرنس تو اردو والوں کی انکھوں مین دھول نجھونکنے کے مترادف ہے
TUM LOGON KE KABI BE MERIA KOI TABSRA NAHI SHAYA KIYA.YEH SIRF TUMHARY DOSTON KE LIYA BLOG CENTER BANAYA HAI .AUR TUM LOG SIRF APNI DUKAN CHAMKA REHY HO.AUR PAKISTAN KO BADNAM KARNY MAIN KOI QASAR NAHI CHORTY HOO.BEY HIS LOG HO TUM.
بلاگ کو شروع ہوئے کافی عرصہ بیت گیا مگر یہ اب بھی لوگوں کے لئے نئی چیز ہے، جب بھی لوگوں کے سامنے اس کا نام لیا جائے تو وہ فورا پوچھتے ہے ‘یہ بلاگ کیا ہے‘ پھر انہیں تفصیل سے بتانا پڑتا ہے۔
میرے بلاگ کو شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے میرے لاگ کی آخری پوسٹ پڑھیے۔
پچھلے دنوں تقریبا تمام قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق نیب نے سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط گوشوارے داخل کرنے کے الزام میں استغاثہ دائر کیا تھا جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے سابق وزیراعظم اور ان کے شوہر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں اور وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ انٹرپول کے ذریعے انہیں گرفتار کرکے تین جولائی تک عدالت میں پیش کیا جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پہلے ہی درجنوں مقدموں میں ملوث کیا گیا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح ان سب مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں، اب وہ اس نئے وارنٹ کا مقابلہ بھی کر لیں گے، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کیا پوری کابینہ میں سے صرف یہ دو ہی گوشوارے غلط داخل کئے گئے تھے؟ اور اگر بہت سے دوسرے امیدوارں نے بھی غلط گوشوارے داخل کرائے تھے تو پھر ان کا کیا بنا؟ ان کے بارے میں عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟ ان کے وارنٹ جاری کیوں نہیں کئے گئے؟ کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ حکومت ‘میثاق جمہوریت‘ کے خوف میں مبتلا ہو کر یہ سب کر رہی ہے ورنہ سیکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے گوشواروں کی تفصیلات مختلف قومی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں اور ان گوشواروں میں ایسے ایسے ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں کہ ‘خامہ انگشت بدندان‘ ہے کہ اسے کیا کہئے۔ ان گوشواروں سے ان بیچاروں پر ترس آنے لگتا ہے اور خود پر فخر کہ ہم اتنے امیر کبیر ہیں اور ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں، یہ بیچارے غریب غرباء نہ جانے اتنی کم آمدنی میں کیسے گزارہ کرتے ہوں گے نہ تو ان بیچاروں کے پاس اپنا مکان ہے اور نہ اپنی گاڑی۔ سچی بات تو یہ کہ ان گوشواروں کر دیکھنے کے بعد تو انہیں زکوا ة دینے کو دل کرتا ہے۔ مگر حقیقت سب پر عیاں ہے، اصل میں یہاں کی گنگا ہی الٹی ہے، مجرم وہی جو پکڑا جائے۔ سوال وہی کہ کیا ان تمام گوشواروں کو نیب نے درست تسلیم کر لئے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اصل میں قانون کو ہمارے ہاں کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ اسے مذاق بنا دیا گیا مگر مذاق کی بھی ایک حد ہونی چاہئے۔ بقول ارشاد احمد حقانی صاحب کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسی باتیں نہ کوئی سنتا ہے، نہ ان پر عمل کرتا ہے، نہ ان سے سبق سیکھتا ہے۔
achi bat hai leken mehrbani ker ke font baray kar dain ab her koi to shahida aunty ki tarah contact lense to nahi lagata hoga na or na hi her koi kareeeb ki nazar ke chashme lagata hoga ya phir koi telescope ka intezam ker dijiye
محترم مصدق سانول صاحب بہت عمدہ سلسلہ شروع فرمايا ہے ۔ آپ سے کچھ گزارشات کرنا تھيں ۔۔
براۓ مہربانی اس بلاگ کو صرف اردو ہی ميں رکھۓ ، انگريزی اور رومن انگريزی کے تبصرے ان بلاگز کی چاشنی کو کم کررہے ہيں کيونکہ يہ ہے بی بی سی اردو ڈاٹ کام اس لۓ انگريزی يا رومن انگريزی کی کوئ گنجائش نہيں ہے ۔ پھر آپ نے اردو کی بورڈ کا بھی اھتمام کرديا ہے تو پھر کوئ عذر بظاہر رہ تو نہيں جاتا ہے ۔
اميد ہے ضرور غور فرمائيں گے۔
خير انديش
سيد رضا
بمرادرممصدق سانول صاحب
السلام عليکم
سيدرضا بھائی کامشورہ قابل قدر ھے
آج کے گھٹن زدہ ماحول ميں بلاگ کا ذريعہ بڑی آزادی ھے
اس سے bbcکی ساکھ بلندھوگی اور حقيقت پر مبنی مواد ميسر ھوگا
ميري طرف سے آپ کو اور تمام ٹيم کومبارکباد قبول ھو
اک بات اور يہ کہ قارئين کے لئے فوٹوکھانی اور واقعات کے فوٹو bbcکی سائيٹ پر شايع کرنے کی اپيل کی گئی ھے ليکن تصوير کا کيپشن اردو ميں لکھنے کيلئے بھی اردو کی بورڈ لگايا جائے تو چار چاند لگ جائيں گے
نوازش مطلوب ھے
پرستار
شفيع اللہ ميمن سجاول سندہ پاکستان
ميں شکرگزار ہوں جناب شفيع ميمن صاحب آپ کا کہ آپ نے ميری تجويز کی تائيد فرمائ ۔
ميں ميمن صاحب کی تصوير کہانی سے متعلق تجويز سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں ۔ ضرور غور فرمائيں ۔
نياز مند
سيد رضا
برطانيہ
محترمہ ثناء خان صاحبہ آپ فونٹ کو خود ہی بڑا کرسکتی ہيں اگر آپ کمپيوٹر اسکرين پر ويو پر کلک کريں تو ٹکسٹ سائز لکھا نظر آۓ گا آپ اپنی مرضی اور نظر کے مطابق اسے سليکٹ کرسکتی ہيں ۔ اميد کرتا ہوں آپ کو اس پيغام سے کچھ مدد مل جاۓ گی ۔
خير انديش
سيد رضا
برطانيہ
محترم مصدق سانول صاحب ميں پہلے بھی آپ کی خدمت ميں عرض کرچکا ہوں اور ايک بار پھر جسارت کررہا ہوں کہ بنامِ خدا رومن انگريزی کا کچھ علاج فرمانے کی کوشش کريں۔ يہ رومن انگريزی نہيں من دو من انگريزی ہے جو ميرے لئے پڑھنا اور پھر سمجھنا ايک اچھی خاصی مشق ہے کيونکہ لکھنے والے بس اپنی سوچ کے حساب سے اس کے ہجے کرديتے ہيں اور انگريزی کا بھی سدباب کريں يا کچھ خرچہ فرما کر مترجم رکھ ليں اگر قاری حضرات انگريزی پر ہی بضد ہيں تو۔ ميں نے بی بی سی کی انگريزی ويب سائٹ پر نہ اردو اور نہ ہی رومن انگريزی ميں کوئی تبصرہ ابھی تک ديکھا ہے۔ تو پھر يہاں صرف اردو ہی کيوں نہيں ؟ ۔ شکريہ
مصدق سانول صاحب نہايت ادب سے آپ کی توجہ کے واسطے لکھ رہا ہوں کہ شايد تبصرے اپ ڈيٹ پابندی سے نہيں ہورہے کيونکہ بلاگ ميں تبصروں کی تعداد کچھ لکھی ہوتی ہے اور اصل ميں ہوتی کچھ اور ہے۔ جيسے آپ کے بلاگ کو لے ليں تعداد لکھی ہے نو جبکہ تبصرے ہيں سات۔ جناب اسد کے بلاگ ميں کب سے تعداد تين لکھی ہے تبصرے اس سے کہيں زيادہ ہیں۔ اميد ہے توجہ فرمائيں گے۔
بہت شکريہ يہ بہت اچھا سلسلہ ہے جو بہت کامياب ہو گا ان شاء اللہ
وسعت بھا ئ کے نمکين بلاگ کا کيا ہوا لگتا ہے قينچی کی نظر ہوگيا ہے بے چارہ
دعا گو
شاہدہ اکرم
محترم ، اس صفح مين کسي جگه يه لکها هوا تها کي قاسمي صاحب پرو استبلشمينت تهي. مين اس بات سي اتفاق نهين کرتا. اس ليئي که شاعر کي جو شاعري هوتي هي، وه هي اس کا ورثه اور وه هي اس کي شخصيت کي باري مين بتاتي هي. احمد نديم قاسمي صاحب جيسي شاعر اردو زبان مين بهت کم پئدا هوئي هين اور انهون ني جتنا بي باقي سي اپني شاعري مين لوگون کي غربت اور اپني رومانس کي باري مين نکهار پئدا کيا هي ، اس سي يه بلکل بهي ظاهر نهين هوتا کي وه پرو استبلشمينت تهي.
شکري،
امير ابرو
کراچي.
محترم مصدق سانول صاحب، اسلام و عليکم !
بہت خوشی ہوی يہ ديکھ کر کہ آپ نيں اتنا اچھا سلسلہ شروع کيا جس کہ ذريہ اب ہر ويذٹر آسانی سے اپنی راےکا اظہار آسانی سے کرسکتا ہے،
ميری دعا ہے کے ہم اس سلسلے سے بہتر انداز سے مستفيض ہو سکيں، آمين!
دعاگو
منصور احمدل
آداب
اگرچہ بی بی سی ايک آدھ دفعہ ہی ميری کوئ تحرير شاءع کی ہوگی
پھر بھی مين لکھنے سے باز نہين آتا اور لکھتارہون گا-
آپ بھی لکھتے رھين پر حد مين رہ کر-
مخلص
نجم پرويز انور
ان تحريروں ميں بلاگ نام کی کوئی چيز مجھ کم بين کو تو نظر نہ آئی۔ عام سی باتيں رکھ رکھاؤ والی اتنا سچ نہيں جو اس دور کے انسان کو خول سے باہر نکال سکے۔ سچی بات تو يہ ہے کہ بلاگ علامہ راشدالخيری کی طرز کا نہيں بلکہ سعادت منٹو کا سا براہ راست انداز تحرير ہے۔ ہم ہر روز پاکستان ميں رشوت ديتے ہيں يا کسی سرکاری کے ہاتھوں ذليل ہوتے ہيں مگر کبھی ايسا کھلا سچ پڑھنے کو نہ ملا ہے، کيوں؟