تین کپ چائے کے
یہ انیس سو ترانوے کی بات ہے جب پاکستان کے شمالی علاقےوادیِ ہنزہ میں گریگ مورٹینسن نامی ایک امریکی کوہ پیما کے ٹو ( کوہ ہمالیہ) کی چوٹی سر کرنے پہنچا تھا۔ اسے ایک عہد پورا کرنا تھا۔ وہ عہد تھا اسکا اپنی چھوٹی سی بہن کریسٹا سے جس نے اسے اپنی آخری ملاقات میں صنوبر کےدانوں سے پرویا ہوا ہار دیا تھا، اور جو پھر نوجوانی میں مرگئی تھی۔
اس کوہ پیما کے سامان میں وہ ہار بھی تھا جو اس نے تبتی عبادت کے پرچم میں لپیٹا ہوا تھا۔ اس کوہ پیما نے سوچا تھا کہ اپنی مرنے والی بہن کی یاد ميں یہ تبتی عبادتی پرچم میں لپٹی ہوئی یاد گار کےٹو کی چوٹی پر دفن کرکے آئے گا۔
کےٹو کی ستائيس ہزار فٹ اونچی چوٹی کے سفر میں یہ کوہ پیما اپنے بلتی پورٹر مظفر اور مہم کے باقی ساتھیوں سے بچھڑ کر راستہ کھو بیٹھا اورقراقرم کے بالتورو کے علاقے کے کورفے گاؤں میں آ نکلا۔ پھٹے ہوئے کپڑوں ، بڑھی ہوئی داڑھی والا یہ ’انگریز‘ اور اسکے پیچھے پچاس بچوں کا جلوس۔گاؤں کے نمبردار حاجی علی کے حجرے میں یہ بچے اس ’انگریز‘ کو لے آئے۔ مورٹینسن کو ان بچوں میں اپنی بہن دیکھنے میں آئی اور اس سے کیا ہوا وعدہ جو کےٹو کی چوٹی پر پورا نہیں ہو سکا۔
مورٹینسن نے کورفے کے گاؤں والوں سے انکی مہمان نوازی کا قرض اتارنے کیلیے ایک وعدہ کیا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کو ایک اسکول دے گا۔ اس نے واپس آکر کورفے میں بچوں اور بچیوں کا ایک سکول قائم کیا اور آج شمالی پاکستان اور افغانستان میں اس کی طرف سے قائم کیے گئے بچوں اور بچيوں کے باون سکول ہیں۔
ان میں سے پہلے بچوں کی نسل اب کالج کی سطح پر جا پہنچی ہے۔ مورٹینسن نے ایک امریکی صحافی ڈیوڈ اولیور ریلن کے ساتھ شمالی پاکستان کے اس علاقے میں اپنے تجربات اور مشن پر ایک کتاب لکھی ہے جسکا عنوان ہے
میں سوچ رہا ہوں ان میں ایمان والا کون ہے؟ وہ کہ جس نے ان علاقوں میں بچوں اور بچیوں کے اسکول بنائے یا وہ کہ جو وہاں اسکول جلا رہے ہیں اور بچوں ، بچیوں اور استانیوں کو قتل کر رہے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
بھائی ہر معاشرے میں اچھے لوگوں کے ساتھ برے لوگ بھی ہوتے ہیں اور یہی حال ایمان والوں کا ہے۔ گریگ مورٹینسن ایک عظیم آدمی ہیں۔ کاش ہم لوگ بھی ان جیسے بن پائیں۔
جناب حسن مجتبيٰ صاحب بڑا ہی مشکل سوال کرڈالا آپ نے ۔ بس يہی کہوں گا؛
اے فلک ہم سا کوئ مہر بلب کيا ہوگا
زندگی سے بھی بڑا حادثہ اب کيا ہوگا
فکر سے بھرپور بلاگ ہے-سکولوں کو آگ لگانے والے اسلام کے دشمن ہيں کيونکہ پيامبر اسلام نے علم پھيلايا اور پھيلانے کا حکم دیا۔-
KIYA KAH SAKTAY HAIN SIWAY IS KAY KAH HUM SIRF NAMAZ ROZAY WALAY MUSLIMAN REH GAY HAIN, WARNA ISLAM KI JO KHOOBIYAN AUR SIFAT HUM IMAN KI MAZBOOTEE KAY TAUR PAR MANTAY THAY WOH UN LOGON NAY APNA LI HAIN JIN KO HUM KAFIR KAHTAY HAIN, HAMAREE VALUES KA LAGTA HAI TABADILA HO GAYA HAI, IS KAY ILAWA AUR KIYA KAH SAKTAY HAIN.
محترم حسن مجتبيٰ صاحب آج ميری والد مرحوم کی آٹھويں برسی منائ جارہی ہے کيونکہ ان کا نام بھی حسن تھا اور وہ بيٹيوں سے خاص انس ومحبت رکھتے تھے تو دل ميں آيا کہ اس بلاگ کے حوالے سے کچھ ان کی ياديں اور باتيں آپ سے بانٹ لوں ۔
والد مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر ايک دعاؤں کا کتابچہ براۓ ايصالِ ثواب ان کے چاہنے والوں کے شائع کيا تھا اس کے پيش لفظ سے شبِ رحلت کی کچھ باتيں بانٹنا چاہ رہا تھا اميد کرتا ہوں شائع فرمائيں گے ۔
خدا کسی کو نہ دے يادِ رفتگاں کا جُنوں
رہا سپردِ صلييبِ عذاب ساری رات
شبِ رحلت ، شبِ اضطراب ہے ۔ شبِ کرب ہے ـ بے يقينی اور يقين کی ڈگمگاتی کييفيت ہے۔ ڈوبتی اور ابھرتی نبضوں کی کشمکش ہے اور وجود سے بے وجود تک کے سفر کی شب ہے ۔
يہ شب شبِ جدائ ہے ، شب وصال ہے ، اُس سے جو مسلسل زندگی کی جنگ ميں مصروف رہا ہمت و صبر کے ساتھ ۔ بہتری کی اميد پر جيتا رہا ۔ مگر ـ جب وہ فيصلے سے آگاہ ہوا تو سواۓ صبر و قرار کے کچھ نہ تھا اور سواۓ يادِ پاک پروردگار کے کچھ نہ تھا ۔ اپنوں سے غفلت تھی اور وہ سفرِ حقيقی کی طرف رواں تھاِ۔ اور جب وہ ٰ ٰ ہم سے ذيادہ تھک گيا ٰ ٰ اور موت نے زندگی کے آخری لمحات پر دستک دی تو وہ ٰ ٰ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو ٰ ٰ کو سمجھتے ہوۓ اپنی قيمتی جان جانِ آفريں کے سپرد کر گيا ـ
شکستہ دل دعاؤں سے بھرا ہے کہ خدا اسے قيمتِ صبر اور نعمتِ مغفرت عطا فرماۓـ
اے خدا ۔ ہماری کيفيت سے آگاہ خدا ۔ ہميں صبر و استقامت دے تا کہ ہم اس کے راستے کی روشنی کا سامان کرسکيں۔
ـــ کس قدر عظيم شخص تھا وہ جو آج ہم ميں نہيں ليکن اس کی باتيں اور ياديں ہماری زندگی کا سرمايہ ہيں اور يقيناً اس کی يادوں اور چاہتوں کے گلاب ہميشہ مہکتے رہيں گے ۔۔
ملتمسِ دعا
سيد رضا
مجھے یہ اسلامی بنیاد پرست بالکل اچھے نہیں لگتے۔ آج کل تو ایسے مسلمانوں کی تعریف کرنے سے بہتر یہودیوں کی تعریف کرنا ہے۔
Bahut acha sawal or sab se asan, imaaan wale sirf goray hain hum log nahi... beimaaan hain hum sab, leken imaan to ab nahi na pakistan ma.i imaan wale sab oper chale gaye hain or Allah ne bhi lagta hai pakistan per ankhen band kerdi han.
sayyad raza uncle apke abba ji bahut hi achay hogay jese mere abba ji thay :(
bay shuk Greg ka kaam bay masal hai.us insan nay woh kam ker dekhaya jo is mulk ke na khuda na ker sakay.us ka is elaqay main aana faqat apni bhain say keay hovay waday ki takmeel tha.aour jo kaam us nay kea woh wahaan k logoon ki zaroorat thee.bay shuk achay burray log her mashray main hain.laken hum nay kebhee apnay geryban main jhanka hai k hum duniya ko chorain apni awaam k liye kya ker rahay hain.woh awaam jo k humaray iqtadar aur humari ayashyoon k liye aik matiches ki debya per bhee tax adda kerti hai.laken badlay main inhain kea milta hai,bemari ki surat main bina elaj ki soholat ke mot,roti ki talab pay bhok,elam ki khaish pay jhalat k indhary,apnay haqooq ki talb pay jail,....bhala ho un ghair muslims ka k woh jaisy bhee hain united nation k zerya ho ya zati wsail say humary in bay bas aour kamzor insanoo ki madad kertay hain.waisy baat sochnay ki hai k iman wala kon hai,maray khial main ba haisiat insani humdardi imaan wala to Greg mortanson he ko hona chahay.
انتہائ مشکور ہوں کہ آپ نے ميری اس تحرير کو اپنے بلاگ ميں جگہ دی ۔ خدا جزاۓ خير عطا فرمائے ۔
ايسے ہی ہمت بڑھاتے رہيے گا ۔
طالبِ دعا
سيد رضا
محترمہ ثناء خان صاحب ميری تحرير سے آپ کو اپنے ابا جی ياد آگۓ۔ يہ ديکھ کر دل بےساختہ کہہ اٹھا ؛
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوۓ چراغ ہيں ہم
جو بجھ گۓ تو ہوا سے شکائيتں کيسی
اور ۔۔
ہوا کی زد پہ اکیلاچراغ ميں ہي نہيں
خبر نہيں يہي موسم کہاں کہاں ہوگا
خير انديش
سيد رضا
حسن مجتبٰی ہميشہ کي طرح اسلام ، مسلمان اور اب اس تحرير کے ذرئعے ايمان والوں پر دل کھول کر بھڑاس نکالنا اسلام سے آپ کے دلی بغض کا پتہ ديتا ہے۔ آپ نے جن اسکولوں کے جلائے جانے کا ذکر کيا ہے کيا کبھی آپ نے يا بی بی سی نےاسکول جلانے والوں سے يہ سوال کرنے کی زحمت کی کہ آپ لوگ اسکول جلانے اور مرنے مارنے پر کيوں آمادہ رہتے ہيں؟ اور اگر کبھی يہ سوال کيا تو انکا جواب بی بی سی اردو پڑھنے، سننے ، ديکھنے والوں کے علم ميں بھی لایے؟ بات يوں ہے کہ وہ لوگ کہتے ہيں کہ اس طرح کے اسکولوں کے ذرئعے کچھ مشنری ادارے اور ايک خاص تنظيم کا تعليمي بورڈ امريکہ کے کہنے پر مشہور معروف امريکن روشن خيالی کا ٹھپہ لگا کر ’جديد اسلام‘ کے نام سے مگر در حقيقت اسلامی تعليمات کو تروڑ مروڑ کر امريکن مرضی کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہيں اور يہ علم جيسی مقدس چیز کو بہانہ بنا کر ہمارے دين پر وار کرنے کے مترادف ہے اور یہ لوگ اپنی مخصوص تعليمات ہم پہ ٹھونسنا چاہتے ہيں اور تعليم کی |ٹافي‘ ميں امريکن امداد سے روشن خيالی کا زہر دينا چاہتے ہيں اور وہ کہتے ہيں کہ ہم اس طرح کی اجازت قطعاّ نہيں دے سکتے مزيد کہ ہم اس طرح کے اداروں کے ناپاک عزائم ناکام بنا ديں گے-
کس ہنرمندی سے اپ قيامت کا ذکر لے بيھٹيں ہيں۔جی ہاں ذکر جب قيامت کا اٹھتا ہے توبات جوانئ تک جا پہنچتی ہے پاکستان کے سارے ہی شمالی علاقاجات ہميشہ سےپر امن فطری بود ؤ باش کاگہوارہ رہے ہيں سادہ لوح عوام کو نہ تو کبھی سياست کی لت رہی ہے نہ ہی مار دھاڑ سے بھر پور فلميں ان لوگوں کی رہنمارہی ہيں جديد سہوليات سے محروم ان لوگوں کا کبھی کسی کو خيال ہی نہيں ايا تھا کيا ہنزا کيا چترال، بلتستان،گلگت اورکافرستان سب ہی پشت در پشت سے چلی ائی زندگی بسر کرتے رہے جس معمول ميں پہلاطلاطم افغان امير عبدالرحمان کےدور ميں سنے کوايا تھا جب ادھا کافرستان بزورشمشيرمسلمان بن کر نورستان بنايا گيا تھاپاکستان بنے کے بعد کشمير کی جنگ بھی يہاں ہلچل لاتی رہی ليکن اس کی نوعيت مختلف رہی تھی سب ان علاقوںسے متعلق ايک ملکہ بلتستانئ کےنام سے واقف تھے جو کبھی کبھار جنگ کے اندرونی صفحات ميںسنائی ديتں_مگر 1980کی د ھائی ميں يہاں کچھ ايسی کرامت سازياں اسلام اباد کی غفلت چشم پوشئ يا پھر اشيرباد سے ہونے لگيں افغانسان کا انقلاب ثور چينی سرحديں بھارتی اور سويت لابياں اور مزہبی گروہ سب ہی ان علاقوںميں نظر انے لگے ايسے ميں مقامی لوگ کيا نہ کرتےمرتے_سوہر کسی کو اپنی افرادی پہچان کی پڑھ گئی برادری بہ مقبالہ برادری منظم ہوئی پرؤہتوں کی چاندی ہوئی انہوںنے اپنے اپنے صدردفاتر خبر کردی کہ اصل سونا بھي يہاں يورئنيم بھی يہاں_يوں فروعی مفادات کا ايسا رن پڑا کہ الامان_ مملکت خداداد پاکستان کے اولين دوست اور چاہنے والے کريم اغاخان کے قائم فلاحی اداوں سے استفادہ کرنے والوں نےان اداروں کی موجودگی پر شک کيا_جسبعد بہادر وہ کہلايا جس نے اپنا واحد کمبل تک اغيار کا سمجھکر جلا پھينکا_اخر کار جب سردی نے منجمد کر کے گنگراينا لگا چھوڑاتواغاخان سينئ ٹوريم نے ہی علاج معالجہ کراچی ليجا کرايا جس دوران اس انسان دوستی کوديکھ کراسکي اپنی برادري کا اپنا بھانجا بھتيجا اغا خان کا مشکورہوکرفين بنا تو کراچی سے روبصحت لوٹ انے والے نے اسے ہی کافر سمجھ کر مار ڈالا_برادرياں تو کيا گھر کے کھر يوں تقسيم ہوکر جانی دشمنی پر اتر اے مزہبی ٹھکيدار جتنے تھے جلتی پر تيل کرتے گۓ لکھاری اخبارياور ماس ميڈيا والے مزيد تماشہ ديکھنے کے شوق ميں يہ سب اچھالتے گۓ قائداعظم اورپاکستان کی کھلےعام توہين ہوتی رہی کسی کويہ بھی ياد نہ رہا تھا کہ پاکستان کے قيام کےبعد اثاثوں کی تقسيم تک ہمارا بجٹ اغاخان کی مالی معاونت اورنظام حيدراباد دکن کےايک کروڑ روپيہ سے چلتارہا_سارےچغادری دور کی بس يہی کوڑی لاۓپھولےنہيںسماتےرہے کہ دوقومی نظريہ نے خليج بنگال ميں غرقيابی کے بعد بقيہ پاکستان ميں نئی شکل پالی ہے اب يہ نظريہ مسلک کی بنياد پر اپس کی تقسيم کے مرحلے پر اپہنچا ہے۔ جي ہاں يہ وہ مقام جسے بہت سارے قوم کی جوانی کہتے ہيں؟ايسےميں گلہ خداسےکريں يا گلہ زمانے سے_حسن صاحب کی يہ تخليق پچھلے 20 سالوں کے دوران جنم لينے والی تخليقات ميں واحدپاکستانيات پر بنيادانسانيت کی پکارہے کاش ہمارے سارے دانشمندايساہی طرزعمل اپنا کر انسانيت کا حق ادا کريں_
Ye bohut ajab baat hae, jin sahab ka mawazna musalmano say kia gaya hae wo "angrez" Mr. Greg Mortanson, ba-zat-e-khud bamusharf-e-Islam haen. Aap sab kee itelaah k liye arz hae k, Mr. Greg Mortanson"angrez" nahi, aik "amreeki", jo Amreeka kee shumaali riyast say taluk rakhtay haen or , nihayat sadaa tabiyat or zaheen shaksiyat k malik shafeeq insaan haen. Mr. Greg Martoanson say meree aik mukhtasir mulaqaat amreeka may hu chukkee hae. Greg, Pakistani shumaali elaaqay (Northern Area) kay awaam kee sadaa or sachai say bharee, mehnti "life style" k bohut barday madaah haen. un ko Pakistan k shumaali elaaqay say mohabbat kee had tak lagao hae. Haqeeqat tu ye hae, Mr. Greg Mortanson jesay Amereeki, America may bhi bohut kam miltay haen.jin ko "American interest" say ziyada "Insani Interest' pyaraa hae. Yaqeenan, Greg, khud bhi aik nehayat achi or saada tabiyat k malik aik sachay Musalman haen. May Allah bless him.