| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جلاوطن انجیر کے درخت

حسن مجتییٰ | 2006-07-31 ،16:54

’بیروت میں بموں پر بم گرتے ہیں جیسے دوزخ کے دروازے ہم پر کھول دیئے گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے ساری دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ہے، ہم بےبس ہیں۔‘ یہ الفاظ یہاں امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائینا کے شہر شارلیٹ میں بسنے والی ایک لبنانی خاتون مونا عباسی نے مجھ سے کہے۔

lebanon203.jpg
لبنان سے باہر بسنے والے لبنانیوں کیلیے عرب کہتے ہیں یہ دوسری زمین میں پیوند کیے ہوئے انجیر کے درخت ہیں۔ مونا عباسی نے کہا: ’دیکھو! ہر لبنانی کی طرح ہمارے بھی دو گھر ہیں، ایک بیروت میں اور دوسرا اسکے جنوب میں بقا وادی کے شہر بالبک میں۔‘ مونا اگرچـہ خود امریکہ میں ہیں لیکن انکے والدین اور دو بھائی لبنان میں بالبک میں ہیں۔ امیریکن یونیورسٹی بیروت کی گریجوئیٹ مونا کو یاد ہے جب انیس سو بیاسی میں لبنان میں خانہ جنگی کے دوران اسکا گاؤں داخیل بھی لپیٹ میں آیا تھا۔ اس کے مطابق: ’لوگ کہتے ہیں خانہ جنگی بد تر ہوتی ہے، ہاں ہوتی ہے لیکن جنگ جب دن رات بم برس رہے ہیں بچے مررہے ہوں، تو بدترین ہوتی ہے۔‘

’ہماراگائوں وادی بقا کے پہاڑوں کے پائوں میں ہے۔ اس بار لبنان میں میرے بوڑھے ماں باپ وادی بقا میں ہیں، باپ کی ہڈی کے جوڑنے کا آپریشن ہوا ہے اور ماں سرطان سے بچ نکلی ہیں۔ ان سے صرف سیل فون پر رابطہ ہے جو اب تک وہاں کام کررہا ہے۔ میرے جچازاد بھائی جو کینیڈا کے شہری ہیں وہاں سے بمشکل بچ نکل آئے۔‘

مونا کہتی ہیں ’پچھلی بار بمباری میں ہمارا گھر تباہ ہوا اور مجھے دکھ ان فیملی فوٹوز کا ہے جس میں ہمارے خاندان کی پوری تاریخ بند تھی اور یہ تصویریں ایک ٹرنک میں تھیں جو اٹھارویں صدی میں میرا پردادا ارجینٹینا سے لایا تھا۔ مجھے دکھ ہے کہ ہمارے خاندان کی پوری تصویری تاریخ ختم ہوگئی۔‘

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 21:48 2006-07-31 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    جناب حسن مجتبٰی صاحب آپ نے مونا عباسی کی کہانی بڑی دردمندی سے لکھی ۔۔۔مگر کيا کيا جاۓ کہ يہ کہانی تو ہر لبنانی گھر کی ہے کيونکہ ۔۔۔
    ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے رفتگاں کا ہجوم
    ہوا نے ديکھ لۓ ہيں چراغ سب ميرے
    مونا کے توخاندان کی تو صرف تصويری تاريخ ختم ہوئ مگر صد افسوس نجانے کتنے خاندان اپنے تمام پياروں کے ساتھ کئ نسليں اور کيا کيا صورتيں لۓ خاک ميں پنہاں ہوگۓ ۔۔
    ہر ايک کا غم ايک دوسرے سے سوا دکھائ ديتا ہے ۔ کسے تسلی ديں ، کسے دلاسہ ۔۔ کسی ماں کو اس کے نونہال کا پرسہ ديں يا ايک سہاگن کو اس کی اجڑی مانگ پر تسلی ديں ۔۔کسی يتيم کے سر پر دشتِ شفقت رکھيں يا کسی شير خوار کو چپ کرائيں جس کی ماں اس سے جدا ہوگئ ۔ کسی سن رسيدہ کی جھکی کمر کو سہارا ديں يا کسی سخت بيمار کی دوا کريں ۔۔ذہن ودل دونوں تھک چکے ہيں !
    ہر وہ دل جو دھڑکنا جانتا ہے وہ اداس ہے ، غمگين ہے ، مصروفِ دعا ہے کيونکہ دعا ہی تو يقيں کا سلسلہ ہے ۔۔۔
    ۔۔۔ انسانيت کے قاتل ، معصوميت کے قاتل ، سچائ کے قاتل ، امن کے دشمن اور موت کے سوداگر يہ بات سمجھ ليں کہ ہم بچوں کے لہو رنگ پاک اور مقدس اجسام کو مٹی کی حوالے کرتے رہيں گے اور ايک دن اسی زمين سے فصلِ بہار آۓ گی ۔۔۔
    ہجومِ سلسلۂ رفتگاں دکھائ ديتا ہے
    زمين پر ہی مجھے آسماں دکھائ ديتا ہے

    انتہائ دکھی دل کےساتھ
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 2. 22:30 2006-07-31 ,shahidaakram :

    حسن صاحب انجير کے درخت کہيں بھی لگاۓ جائيں انجير کے درخت ہی کہلائيں گے،ليکن معا فی چا ہوں گی کہ انسانوں اور درختوں ميں يقيناُفرق بھی ہوتا ہے، بلا شبہ ميری جيسی بندی کو تو پھولوں،پودوں کو بھی توڑتے ہوۓ ان کے دکھ کا احساس ہوتا ہے،جبکہ انسان اور ان کی تکليف اور دکھ پر ہر ذی روح اور درد مند دل رکھنے والے کا دکھی ہونا ايک نارمل رويہ ہے،کوئ کيسے يہ بات کہہ سکتا ہے کيونکہ ايک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ „سفر وسيلہ ظفر „ ہوا کرتا ہے، ہميشہ سے ہی ايک جگہ سے دوسری جگہ کے سفر کو با برکت ہی سمجھا جاتا ہے،کبھی يہ مقا صد تجارتی وجوہات سے ہوتے ہيں، کبھی تلاش معاش کے سلسلے کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھي کچھ اور وجوہات،تو کيا يہ مجبوری سے ہجرت کر جانے والے ہمارے دل و جگر کے ٹکڑے نہيں رہتے، ايسا کہنا بالکل غلط روُيہ ہے ميں خود اپنے ملک سے اتنے قريب ہونے کے باوجود ميں اپنے سانسوں ميں اپنے ملک کی خوشبو محسوس کرتی ہوں اور ميرے خيال ميں وطن سے دور ہو کرآپ خود ميں وطن کو سانس ليتا محسوس کرتے ہيں ،اور ايسے دکھ کے لمحوں کی بےبسی موناعباسی کے الفاظ سے ظاہر ہے،جودور بيٹھ کربيمار ماں باپ کے لۓ کيسی بے قرار ہے ،ايک جگہ سے دوسری جگہ لگاۓ گۓ پودے اور انسان کا يہی واضح ترين فرق اُميد ہے واضح ہو گيا ہوگاکہ پودے ميں اور انسان ميں جزبات ہی ايک فرق ہے ، گو پودا بھی ايک جگہ سے دوسری جگہ لگانا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے کہ وہ ز مين کو قبول نہيں کرتا،اور يقينآيہ مٹی کا قرض ہوا کرتا ہے جو ادا کرنا ہی ہوتا ہے ،ادا کرنے کااندازگو ہر ايک کا جدا ہوتاہے،مونا کا سب کچھ چلا گيا،ديکھيں پھر بھی اس کو اثاثوں کے ضياع سے بھی زيادہ اپنے خاندانی اثاثے کے تلف ہونے کا دکھ ہے،جس کو تصويروں کی صورت ہی ديکھ کر اپنےآ باؤاجداد کو ياد کر سکتی ہے،تو يہی وہ چيزہے جس کے لۓ يہ کہا جاتاہے کہ يہی ہماری جڑيں ہيں،دعا کرتي ہوں کہ اے ميرے مالک کوئ اپني جڑ وں سے يوں جدانا ہو کہ جدائ کيسی بھی ہو بہت تکليف دہ ہوا کرتی ہو،وطن سے دوري ہو ،اپنے لوگوں سے ،ماں باپ سے يا اپنی جڑوں سے ،موناعباسی کے لۓ دلی دعائيں ان کے دل کےسکھی ہونے کی دعا ئيں
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

  • 3. 11:06 2006-08-01 ,Javed Iqbal Malik :

    Hassan brother
    Asslamo alikum
    Umat per aik muskal waqt aa chooka hay, Umat intahi muskil dour say guzar rahee hay, sarri super taktain iss Umat ko kitam kernay per tooli hoi hain, maggar yeh aik Umat hay keh iss main Ithad aur Unity nam ki koi cheez nahee hay humain allag allag mara ja raha hay aur sab kooch berdast ker rahay hain, hum sab appni appni barri kay intazar main hain, humain abhee tak koi hosh nahee hay , hum Firkon main batay hooway hain, humain kia ho gia hay, humain kab tak aissay hee kuffar martay rahain gain.

  • 4. 4:40 2006-08-02 ,محمد خرم بشیر بھٹی :

    وحید شاہ جی کبھی کبھی آپ ہمارے دل کی بات کر ڈالتے ہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ مگر کبھی یہ سوچ بھی آجاتی ہے کہ لبنان نے تو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ اعلانِ جنگ شاید نہیں کیا تو کس سے توقع کریں فصلِ بہار کی باغبانی کی؟ اور تو اور ہمارے عربی بھائی ابھی تک اس تنازعہ کو "عرب اسرائیل" تنازعہ کے نام سے ہی موسوم کرتے ہیں اور اسی پر مصر ہیں۔ ہم عجمیوں کی تو شاید مدد اور ہمدردی بھی ان کے نزدیک بے معنی ہے مگر کیا کریں کہ آقاصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی امّت کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ حل تو اس کا صرف اور صرف اتحاد امت میں ہے مگر یہ منزل ابھی تو بہت دور نظر آتی ہے اور جب تک ہمارے قدم اس منزل کو چھو نہیں لیتے تب تک نجانے ایسے کتنے مناظر دیکھنا ہوں گے اور کتنے لاشے بے گوروکفن رہیں گے۔

  • 5. 9:42 2006-08-03 ,sana khan :

    Afsos k siwa humsab kuch nahi ker sakte leken ek dusre ka dukh zaror bant sakte hain, pata nahi insano ki shakal mai kese janwar hote hain jo apne hi jese ek insan ki zindagi khatum ker dete hain, sahi bat hai dunya bahut ajeeb ho gai hai kutto ki maut per to lbd or black suits pehn ker rotay dhotay hain leken pata nahi ku humen insan hi nahi smajhte

  • 6. 9:39 2006-08-15 ,kamran :

    حسن بھائی ہمیں اپنی بقا کی خاطر اتحاد کا دامن پکڑنا ہوگا۔ کتنی عجیب قوم ہیں ہم۔ آپ عراق کی ہی مثال دیکھیں۔۔۔

  • 7. 13:58 2006-08-15 ,Tahir Gilani :

    اتنی بری جنگ لرنے کے بءد آخر اسراۓيل کو حار ماننی پڑی يے سب بات جيت سے حاصل ھو سکتا ھے کيا فاۓدا ھوا اتنے لوگون کو مارنے کا ------- طاھ---ر گيلانی --- کينيڈا------

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔