آدھا سیب
کل میرے سر اور آنکھوں پر سے پٹی اترنے والی ہے
ایک آنکھ سے میں کیا کیا دیکھ سکوں گا
ماں کا آدھا چہرہ
آدھا چولہا
آدھا سیب
میں خود کو لگنے والی گولی نہیں دیکھ سکا
مگر اسکا درد میرے سر میں گھس کر پھٹ گیا
ہاں اس فوجی کی شکل میرے سر میں ثابت ہے
جس نے ہاتھ سیدھے کر کے بندوق تانی تھی
اسکی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تھا
پتہ نہیں کیا تھا
مگر میں پٹی میں لپٹی ہوئی آنکھوں سے بھی اسے پورا دیکھ سکتا ہوں
ہم سب کے پاس آنکھوں کا ایک فاضل جوڑا ہوتا ہے
تاکہ اصلی آنکھیں ضائع ہونے پر اسے استعمال کر سکیں
اگلے مہینے میری سالگرہ ہے
مجھے ایک بالکل نئی شیشے کی آنکھ کا تحفہ ملے گا
اس آنکھ سے مجھے شاید ہر چیز درمیان سے موٹی اور کناروں سے گول گول نظر آئے گی
جس طرح مجھے اپنے کھیلنے والے شیشے کے ماربلز میں سے دکھائی دیتی ہے
میں نے سنا ہے کہ ایک نو ماہ کی بچی کی آنکھ بھی ضائع ہوگئی ہے
تو کیا اس پر بھی اسی فوجی نے گولی چلائی تھی
میں تو بہت بڑا ہوگیا ہوں
میں نے کافی زندگی دیکھ لی ہے
لیکن وہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے
اسے تو کچھ بھی نہیں معلوم
---------------------------------------------------------------------------
مجھے تقریباً چار سالہ فلسطینی بچے کے مزکورہ بالا تاثرات کسی نے آج ہی ای میل کئے ہیں۔ اس بچے کے سر میں اس وقت گولی لگی تھی جب وہ اسکول میں کھیل رہا تھا۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب وسعت اللہ خاں صاحب آپ کو بہت بہت سلام اور آپ نے جس انداز سے بيروت سے ہميں ’سچی خبريں‘ اور سچی کہانياں اور لوگوں کی آپ بيتياں پہنچائيں ہيں اس کے لیے ميں آپ کا ازحد شکرگزار ہوں۔ اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان ميں رکھے اور آپ کی توفيقات ميں اضافہ فرمائے۔
آپ نے جس دردمندی سے اس معصوم بچے کے لفظوں کو لکھا ہے اس سے دل نہايت غمگين ہوا۔ يہ بچہ تو چند خوش قسمتوں ميں سے ہے جو کم از کم آدھا ہی ديکھ سکتے ہيں، ان کا کيا کيا جائے جن کی دنيا ہی اندھيری ہوگئی اور کئی معصوم تو زمين ميں زندہ دفن ہوگئے۔ کچھ تو شايد ابھی بھی کہيں دبے ہوں گے۔۔۔
اس بچے کی باتيں پڑھ کر ميں سوچ رہا ہوں کہ اس بچے کے کھلينے کودنے دن ہيں اور وقت نے اسے کس قدر بڑا اور سمجھ دار بنا ديا۔ اس بچے کو ميری طرف سے سالگرہ مبارک۔ خدا اس کو اور تمام بچوں کو لمبی عمر دے اور ان کے سروں پر ان کے ماں باپ کا سايہ ہميشہ قائم رکھے ۔
bahou afsos huwa. Allah sabar de dono bachoon ko. very sad. Allah un hathoon ko ab kisi aur per goli chalanay na de.
وسعت بھائی بلاگ کا کچھ حصہ پڑھ کر تو ايک دم سانس رُک گئی تھی۔ شايد يہ سوچ کر کہ کہيں اللہ نا کرے يہ سب۔۔۔ليکن اس سے آگے جو کچھ پڑھا اُس نے ميرے ہوش پوری طرح اُڑا دیے۔ يہ بالکل سچ ہے۔ اس ميں کوئی جذباتيت نہيں اور ہو بھی کيسے سکتی ہے؟ اس بلاگ کو پڑھ کر دل خون ہونے سے نہيں روک پائےگا۔ اگر تو وسعت بھائی، اُس فوجی نے عين اسی طرح اس معصوم کو نشانہ بنايا تھا جيسا کہ آپ نے لکھا تو حقيقتاً وہ انسان نہيں ہو گا اور يقيناً جانور بھی نہيں ہو گا کيونکہ مامتا تو جانوروں ميں بھی ہوا کرتی ہے۔ کاش کہ وہ شخص ميرے سامنے ہو تو ميں اُُس سے صرف اتنا پوچھوں کہ تمہيں اتنے معصوم بچوں ميں کونسی دہشت گردی نظر آئی، جو بندوق تان کر ساری زندگی کے لیے اُس کی ذہنی حالت کو ايسا دگرگوں کر ديا اور کيا اُس نو ماہ کی بچی نے کسی جگہ جا کر ميزائل داغے تھے جس کے جُرم کی پا داش ميں اُس کو آنکھوں سے محروم ہونا پڑا؟ جس بات کا اندازہ ايک چار سال کے معصوم بچے کو ہے وہ آج کی دُنيا کے خود ساختہ آقاؤں کو نظر نہيں آ تا۔ کچھ اندازہ نہيں کہ کہاں، کيا ہو رہا ہے يا صرف اپنا دُکھ ہی اپنا ہوتا ہے۔ نعيمہ جي آپ سے ايک بار پھر معزرت ہے ليکن بات وہی ہے کہ ہر رشتے ، ہر عمر ميں اپنا ويسا ہی رشتہ نظر آجا تا ہے تو کيا جب انسان دشمن ہو تو انسانيت کے بھی درجے کو نظر انداز کر کے درندے کا روپ کيوں دھار ليتا ہے؟ کاش کہ ميرے پاس کوئی ايسی جادو کی چھڑی ہو تو ميں وہ تکليف دہ لمحہ اُس بچے اور ايسے سارے معصوموں کے ذہنوں سے نکال باہر پھينکوں اور اسی جادوئی چھڑی سے دُنيا کو ايک ايسی خوبصورت جگہ بنا دوں جس ميں کسی دکھ، کسی غم کی کوئی پرچھائيں نہ رہے، ليکن کہاں سے ملے گی يہ چھڑی؟ کيسے ہو گا يہ سب کہ معجزے اب نہيں ہوتے اور نہ ہی ہم شايد معجزوں کے لائق ہيں۔
وسعت اللہ، اسرائيل اغوا کر لے گا، قلم سنبھال کر چلائیں، ابھی بيروت ميں ہی ہیں۔۔۔
محترم وسعت اللہ صاحب ، سب سے پہلے تو ميں آپ کی اور بی بی سی کی کاوشوں کو سراہتا ہوں اور آپ کی خيريت کا دعا گو ہوں کيونکہ آپ جنگ زدہ علاقے ميں حالات کی کوريج کر رہے ہيں۔ گوليوں اور توپوں کے آنکھ نہيں ہوتے، نہ ہی وہ سننے کی حس رکھتے ہیں کہ کہيں صحافی کوريج کر رہے ہوں، وہاں نہ گريں۔ بہر حال ذمہ دارياں تو نبھانی پڑتی ہيں۔ آپ کے بلاگز سبق اموز اور متاثر کن ہوتے ہيں۔ آپ نے جو بلاگ تحرير کيا ہے اس طرح کے واقعات بلوچستان ميں بھی آئے روز رونما ہو رہے ہيں۔ لبنان پر بلند ہونے والے شعلے ٹی وي، اخابارات کی زينت بنے ليکن بلوچستان کی آتش فشاں صورتحال پر دنيا اور اقوام متحدہ نے چپ سادھ لی ہے ۔ کمی ايک چيز کی ہے وہ ہے ’آزادی صحافت۔‘
ماں صدقے جائے۔ اتنے معصوم چھوٹے بچے پر ظلم کا پہاڑ توڑتے ہوئے اُس ظالم کا دل نہ کانپا ہو گا؟ جب سے پڑھا دل کو شديد بے چينی ہے۔ مجھ کو سمجھ نہيں آ رہی کہ کيا کروں؟ کس طرح اس حوصلہ مند معصوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کا، اس کے نقصان کا کيسے اضالہ ہو؟ اس معصوم کا حوصلہ قابل داد ہے جو اپنے بارے ميں بھول کر اس پھول سی بچی کے بارے ميں سوچ رہا ہے۔ ان ظالموں کی اپنی اولاد کے ساتھ اگر ايسا ہو تو ان کو شايد احساس ہو۔ اب تو صرف خدا سے اميد ہے انصاف کی۔ دوسروں سے کيا اميد رکھنا، اگر اپنے ہی برباد کرنے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ ہيں۔ ميرے خدا اس دنيا کو توفيق عطا فرما کہ يہ محبت سب کے ليے نفرت کسی سے نہيں پر ايمان لے آئے۔
آدم کے ظہور ميں آتے ہی شجر نيک و بد کےسائے بڑھتے ہي رہے ہيں۔ آج تو ’گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے‘ کا عالم ہے۔ اس لیے ذرا خيال رہے کہ يہ اي-ميل ہمارے نمائندوں کے گھٹنے بڑھنے کو عام نہ کرديويں۔۔۔
کيا يہ بچے بھی دہشت گرد ہيں؟ اگر يہ بچہ بڑا ہو کر خود کش بمبار بنا اس نے بھی ہتھيار اٹھائے، تو کون ذمہ دار ہوگا؟ کيا حزب اللہ، القاعدہ يا امريکہ اور اسرائيل؟
aur ab bhi Isreal kehta hai ki Palestine main her bacha suicide bomber kyun banta hai...
اللہ تعالي اس بچے کو زندگی عطاء فرمائے اور ايمان نصيب کرے ۔ يہ اور اِس جيسے ہزاروں ديگر لبنانی بچے بڑے ہو کر حزب اللہ کا قيمتی سرمايہ ثابت ہونگے۔
بابر خان ، العين
Its nice thing that, Wusat has conveyed to the people of world. We all have to condemn war and warriors everywhere in the world.
Janab Wasatullah Sahab
Assalamo Alaikum Wa Rahmatullah Wa Barkatahu
Aap Ka Bahut Bahut Shukriya Ki Aap Barabar Hame B.B.C. Ke Jariye Bairut Se Sachi Sachi Khabre Sunate Aur Dekhate Rahe Hum Allah Se Duaa Karte Hai Ki Allah Hum Sahafiyon Ko Hamesha Hamesh Sahi Aur Sachi Khabro Ko Nashr Karne Ki Taufiq De Taki Hum Aawam Tak Sahi Khabron Ko Dekar Unki Khidmat Kar Sake Jo Ki Hamara Nasbulain Haiلا Aur Hum Allah Duaa Karte Hain Ki Allah Un Dono Bachon Ko Sabr Ki Taufiq Se Nawaje Aamin
مجھ سے بھی بچوں کی تکليف نہيں ديکھی جاتی اس لیے ميں امريکہ اور اسرائيل
سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ جيسے آپ کے ملک کے بچے ہوتے ہيں بلکل ويسے ہی بچے عراق فلسطين کشمير اور لبنان کے ہيں۔ ان کو بھی بلکل آپ کے بچوں کی طرح بم راکٹ گولی سے ڈر لگتا ہے، ان کو بھی اندھيرے ميں ڈرلگتا ہے، ان کو بھی جنگ گندی لگتی ہے، ان کو اسکول جانا اچھا لگتا ہے، ان بچوں کو بھی صرف آئس کریم اور چاکليٹ کھانا اچھا لگتا ہے۔ خدا کے لیے ان کی طرف بم نا پھينکے۔ عراق، فلسطين، کشمير اور لبنان کے معصوم بچے ان کو
کھلونا سمجھ کر اٹھا ليتے ہيں اور پھر ذہنی يا جسمانی بيماری ان کا مقدر بن
جاتي ہے۔ ان پر رحم کريں ان کو بھی سوئی اور ہسپتال سے ڈر لگتا ہے۔
Allah Taala Ap ki Zindgi main Wosat day Ameen Jab tak hakook selb hotay rahieen ga ya jidojahid bhi Jari o Sari Rahay gi,
depressed zindagi mai mazeed depression barh jata hai ye sab parh ker Allah ne bhi zalimo ki rassi hud se bhi ziada dheeli hi chor di hai pata nahi kab khenchega ye belagam rassi