انڈین بابو گھومنے چلا
میں یہ بات وثوق سے کہتی ہوں کہ تیسری دنیا میں اگر کوئی طاقت ور ہے تو وہ سرکاری افسر عرف بابو صاحب ہیں۔
میڈیا میں آنے کا اگر کوئی فائدہ ہوا ہے تو ہم پر بابووں کا زور زیادہ نہیں رہا حالانکہ ریڈیو میں بھی ہم نے کئی بابوؤں کے نخرے سہے ہیں اور ہم نے خوب ان کی ٹھاٹھ باٹھ دیکھی ہے۔
میں انڈیا میں بابوؤں کو ڈھنڈونے کے لیے نہیں آئی تھی بلکہ خانہ بدوشوں کے ہمراہ چل کرخود خانہ بدوشوں کی زندگی کا آنند لینا چاہتی تھی، مگر انڈیا پہنچتے ہی ایک بابو سے اینکاونٹر ہوا۔
دلی کے ریستوران میں انڈین بابو اپنی فیملی کے ساتھ ابھی ریستوران میں پدھار ہی رہے تھے کہ ویٹر کی شامت آئی۔ بابو اس پر برس پڑے کہ اس نے دروازے کو کیوں نہیں کھولکے رکھا تاکہ اس کی بیگم اور دو بچے ٹھاٹھ سے اندر داخل ہوتے۔
بابو نے موچھوں پر تاو دے کر کہا ’تمہیں نہیں معلوم کہ میں آپ کے اس ریستوران کو بند کروا سکتا ہوں۔ کسی نے یہ تہذیب نہیں سکھائی کہ افسروں کی خدمت کیسے کرنی ہوتی ہے۔ اگر دروازہ کھولنا آپ کے لیے ہتک آمیز ہے تو ویٹر کیوں بنے ہو۔ میں آئی اے ایس افسر ہوں، انڈیا کی تقدیر بناتا ہوں اور آپ کی موٹی عقل اس بات کو کیسے سمجھے۔‘
ویٹر تابعدار کتے کی طرح کھڑا اپنا پسینہ پونچھ رہا تھا اور اپنے افسر کی جانب بے بسی کی حالت میں دیکھ رہا تھا۔ بابو کی بیوی ویٹر کو خشم زدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جبکہ بابو کے بچے اپنے آئی اے ایس باپ پر ہنس رہے تھے۔
مجھے اب بھی نہیں معلوم کہ بچے آئی اے ایس باپ پر ہنس رہے تھے، ویٹر پر یا انڈیا کی تقدیر پر۔
اس گتھی کو سلجھانے میں خانہ بدوشوں کی زندگی گذارنے کا میرا پروگرام ڈاماڈول ہو رہا تھا۔ مگر جب خانہ بدوشوں کو دیکھا تو ان میں کوئی افسر نہ دیکھ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔
آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو بھارت یاترا کے بارے میں بتاوں تو اب کئی ہفتوں تک سنتے رہیے اور جب بوریت ہونے لگے تو پلیز فوراً بتا دیجیے گا۔ میں برا نہیں مانوں گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
Madam pehli baat to yea kah aap urdu main hindi alfaz na shamil karain please. Yea main kisi tasub say nahi balkay apni hindi knowledge na honay ki waja say arz kar raha hoon.
Baqi raha media main aanay say 'nokar shahi' say bachnay ki sanad ... to ho sakta hay India main aisa hota ho! Pakistan main yaqeenan aap nay qadam nahi ranja farmay warna... waisay Hayat Ullah ka nam shayed suna hi ho aap nay. Baichara azadi-e-sahafat ka latest victim tha. Allah maghfirat karay
Babu type items to yeha bhi bharay pare hain, wese wo bachay zaror apne bap per hi hans rahe hongay k ghar mai to waiter wali halat pita ji ki hoti hai mata ji k samnay , leken ghareebo per khud se kamzor logo per zor dikhana to fashion ban gya hai, ager ye babu pakistan ka hota to isne apne 6 adad bodyguards se pitwa bhi lena tah waiter ko, kher naema aunty ap befiker rahen jese hi bore lage ga apko bata denge
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ آداب ۔۔۔ بہت سچ لکھا آپ نے!
ميری دعا ہے کہ اللہ ان بابو نما لوگوں سے ہم سب کو محفوظ رکھے اور تقدير بنانے کے فيصلوں سے تو کوسوں دور رکھے۔ ميرے خيال سے بچے اپنے باپو پر ہنس رہے ہوں گے کہ ايسا غيض و غضب ہم نے ماں کے سامنے گھر ميں تو نہيں ديکھا۔ يہ باپو کو کيا ہوگيا ہے۔ آپ اپنی بھارت ياترا کی کہانياں جاری رکھيں۔ بس اتنا کہوں گا ’ بابو جی ذرا دھيرے چلو ۔۔۔‘
دعاگو
سيد رضا
برطانيہ
براے مہرباني فضول بلاگ لکھکر اپنا اور ہمارا وقت برباد نہ کرے
نعيمہ جی عنوان ديکھ کر ہی اندازہ ہو گيا ہے کہ اب آپ کے سفر کی رُوداد دل پزير پڑھنے کو ملے گی جو يقيناْ ايک ايسی چيز ہے جس سے ہم پکی بات ہے کچھ نا کچھ ضرور سيکھتے ہيں پڑھنا بذات خود ايک انتہائ دلچسپ امر ہے اور اگر ايسی جگہوں کے متعلق معلومات مليں جو آپ پہلے نا ديکھ چکے ہوں تو اشتياق دوبالا ہو جاتا ہے ،آپ نے يہ بلاگ ويسے بہت دل لگا کر لکھا ہے کيونکہ بہت مزہ آيا پڑھ کر، اور بابوؤں کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ آج کي دنیا کی ايک ظالم حقيقت ہے ۔ميرا خيال ہے اگر دنيا کو دو حصوں ميں تقسيم کيا جاۓ تو ايسے بابوؤں کا تناسب عوام سے کہيں زيادہ نکلے گا اور عوام پر حکومت انہی بابوؤں کی ہے وہ چاہے آفس کے باہر بيٹھا ہوا چپڑاسی ہی کيوں نا ہو وہ يقيناْاس اعلي افسر سے بھی اونچے مقام پر فائز ہو تا ہے جس افسر کی چوکيداری کے فرائض وہ ادا کر رہا ہے کہ وہ اجازت دے تو کو ئ صا حب بہادر سے مل پاۓگا ۔ويٹر کی کيا حيثيت ہے کہ وہ ان بڑے صاحب کے لۓ دروازہ نا کھو لے ليکن حيرت تو مجھے اس امر پر ہے کہ آئ اے ايس يا انڈيا کی تقدير کيا انہی بابوؤں کے ہاتھوں ميں ہے يا يوں کہہ ليں کہ انہوں نے ہی سب کچھ کرنا ہے يا نہيں کرنا ہے ۔ نعيمہ جی يہی جواب ہے جو آپ کی آخری بات ميں چھپا ہوا ہے ۔ ايک بات بتاؤں کہ ميں ذاتی طور پر خانہ بدوشوں سے اور اُ ن کی زندگی سے بہت متاثر ہوں کہ کتنی آسان زندگی ہے اُن کی ليکن شايد ہميں گزارنی پڑے تو مشکل ہو کيونکہ ہم ويسی زندگی کے عادی نہيں ہيں اور ہاں آپ بے فکر ہو کر اپنی داستان سفر ہميں ضرور لکھيں اگر بور ہونے لگے تو بلا تکلف بتا بھی ديں گے ہم بھی تکلف ميں نہيں پڑنے والے
دعاگو
شاہدہ اکرم
yeh masla tau india pakistan may bohut aam hai. pakistan may bhee taqatwar kamzor ko daba deta hai jaisa kay haal he may eik fauji brigadear nay police wallay ko fauj bhej kar thanay say uthwa liya. Agar ham farangee mulkon ko dekhain tau ham bachon kay saamnay aisee koyee harkat kartay huey sharmatay hain kuinkay bachay ulta ham ko kehtay hain kay aboo this is illegal thing to do kuinkay woh school say acha bura seekh kar aatay hain jabkay india pakistan may jis kee laathee us kee bhains walla maamla hai. khud soch lain yeh bachay jab baray hongay tau inn mulkon kaa kiya haal hoga. nalaiq aur baddamagh bachay
this is nothing new, its normal in that culture, its basically like, "jiski laathi uski bhains,"powerful n rich got the control on others most of the time in this world, so the person who got some power ( in any way, either money power physical power) they got to show off and express it to others
ادابُ درجہ بندی ُ تميز ُ اورکلچرتو انڈيا ہی سے ارتقا پزيرہوتا آيا ہے_مغليہ دربار ميں جب منشی دربارنگاری پر مامور ہوا کرتے تھے کہتے ہيں ايسے ہي ايک منشی کوجب ايک روز بادشاہ کے دربار کی عظمت وشان کا کچھ زيادہ ہي احساس ہوا تو خوب بن ٹھن کر خوشبو لگاۓ دربار ميں حاظرہوا اور توجہ کا مرکز بنا-کوئي درباري ايسے ميں بولا کہ آج تومنشي بابو آۓ ہيں يعنی عطر لگاۓ حاظر ہيں جس کے بعد منشي گوياہميشہ کےليۓ بابو کہلاۓ_مغل دور کے بعدہر دور ميں بابو نے بڑي ترقي کرلي جس کي ايک جھلک آپ نےريسورانٹ ميں ملاحظہ کي۔ پاکستان ميں توبابو صدرمملکت وزيراعظم اورگورنر جنرل بنے_جنرل اسکندر مرزا فوجي بابو تھے غلام اسحاق خان سول سروس کے بابو تھے۔ چوہدری محمدعلی بھي انڈياسول سروس ميں رہے تھے اور غلام محمد بھي جو بعد کوگورنرجنرل بنے يہ سب بابولوگ تھے
تيسری دنيا کے ملکوں ميں آفيسر ہونا بھی جرم اور نہ ہونا بھی جرم ہے اور ايک عام آدمی ہونا ذليل ہونے والی بات ہے
Dear Naeema
yeh sirf India main hee nahee hay bilkeh Pakistan main bhee aissa hee hay , her saksh affsar lagta hay aur jiss kay pass jitnay aktiyrat hain wo in ka istamal ker raha hay. maggar istamal tottly galt ker raha hay.
naema mehjoor nay jab bhi koi article lekhi hai to wo haqeeqat say bahut nazdeek hokar lakhi hai ...main is tarah ki himat aur lekhnay ki jurat per naema baaji ko mubarik baad paish karta hon..welldone naema mehjoor
نعیمہ احمد مہجور۔ ہمشہ کی طرح عمدہ تحرير
ْبابو لوگ جتنے بااثر ہيں اس کی ہلکی سي جھلک آپ نے اس کالم ميں ملاحظہ فرما ليا ہے اس طرح کا تلخ تجربہ ضرور کہٹکتا ہے