| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اسلام اور مغرب کی لڑائی اٹل نہیں

اسد علی | 2006-09-23 ،14:22

بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ووٹ ڈالتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ دنیا تقسیم ہو چکی ہے۔ میں بھی شاید یہ من و عن تسلیم کر لیتا لیکن۔۔۔۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ووٹ ڈالتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ دنیا تقسیم ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مشرق و مغرب اور اسلام اور مغرب کی تقسیم کی باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ میں بھی شاید یہ من و عن تسلیم کر لیتا لیکن مجھے اپنی کی پہلی تقریب یاد آ گئی۔birthday_cake.jpg

یہ سن دو ہزار چار کی بات ہے جب میں لندن کے علاقے ہیکنی میں دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کے ساتھ چار کمروں کے فلیٹ میں رہ رہا تھا۔ گریگ اور ڈیبرا انگریز تھے اور کرسٹل کا تعلق فرانس سے تھا۔ مجھے ان کے ساتھ رہتے ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا۔ ان دنوں میری نائٹ شفٹیں چل رہی تھیں اور اتفاق سے وہ میرا گھر صاف کرنے کا دن بھی تھا۔

میں صبح اٹھا تو معلوم ہوا گریگ کچن صاف کر چکا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ ان تینوں نےفیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ آج میری سالگرہ کا دن ہے اس لیئے میں کوئی کام نہیں کروں گا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی سالگرہ نہیں منائی۔ یہ میرے تینوں فلیٹ میٹس کے لیئے حیرت کی بات تھی۔ وہ پہلے ہی میرے چھٹی نہ لینے پر حیران تھے۔ بہرحال مجھے گھر صاف نہیں کرنا پڑا۔

شام کو میری دفتر روانگی سے پہلے کرسٹل نے کہا کہ گھر کے کچھ معاملات طے کرنے کے لیئے لِونگ روم میں تھوڑی دیر میں ایک میٹنگ ہے۔ پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ڈیبرا نے مجھے نیچے آنے کے لیئے کہا۔

لِونگ روم میں میز سجی ہوئی تھی۔ کھانے کی پلیٹیں، چمچ، کانٹے اور گلاس موم بتیوں کی لو میں چکمک رہے تھے اور کرسٹل ایک پلیٹ میں کیک لیئے اندر داخل ہوئی اور تینوں نے ’ہیپی برتھڈے‘(سالگرہ مبارک) گانا شروع کر دیا۔یہ میری پہلی برتھڈے پارٹی تھی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:39 2006-09-23 ,dr nadia ch :

    islam and west has not seperated,and it should never be seperated.when we see and meet people at public level as in universities or neighbourhood ,the people from different communities behave nicely with each other.as far as matter of extremism is considered to give comment against each other's religion..it has been working same as muslim from different branches criticize each other.so it is need of time to create balanced enviornment..as other religion in which prophets n holy books were sent,they are discussed in our holy book QURAN..but their teaching are modified and lasted in our book...so we can use this point positively for our benefit and to play role in the world,and to achieve knowledge from other west nations.

  • 2. 16:00 2006-09-23 ,hafsa :

    jab tak yeh siyasi partys hen us waqt tuk dunya ka mefaad yahi rahega pakistan pay hi malhooz-e-nigah kar k dekhiya

  • 3. 16:15 2006-09-23 ,Fida Hussain Gulzari :

    کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اے حضرت آدم تو نے اچھا نہيں کيا جو شجر ممنوعہ پر ہاتھ ڈالاـ

  • 4. 16:40 2006-09-23 ,اے رضا :

    انسانوں کے باہمي تعلقات تہزيبوں کےاس جاری و ساری تناؤ سے قطعي مُبراء ہيں، اس کی گواہی ميں ايک ذاتی تجربے سے دينا چاہوں گا -

    اتفاق سے 11/9 کے ٹھيک چھ ماہ بعد نيويارک شہرسے گُزرنےکا اتفاق ہوا اور قيام بہت ہي مُختصر تھا- ميري اگلي پرواز ميں صرف نصف دن کا وقفہ تھا جس کےاندر مجھے شہر کے ايک کونے سے دوسرے کونے اور پھر سمندري جہاز کے ذريعے سٹيٹن آئي لينڈ پر واقعي مجسمہء آزادي تک پہنچ کر دوبارہ سارا شہر عبور کرکے اپني پرواز پکڑنا تھا-
    بندرگاہ پر ٹکٹ گھر پر پيچھے کھڑي ايک اُدھيڑ عُمر سفيدفام اجنبی خاتون نے صاحب سلامت کے بعد ميرا پروگرام سُن کر مُجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا- خُدا جانے وہ دادی اماں کون تھيں جن کے کہنے پر مُحافظوں نے زنجير ہٹائي اور بلا مبالغہ کوئي ہزار دو ہزار سياحوں پر مُشتمل طويل قطار کوپيچھے چھوڑ ہم جہاز پر سوار تھے-

    قصہ مختصر، منزل پر پہنچ، اُس مہربان بزرگ خاتون نےاپني راہنمائي ميں مُجھے چہار اطراف گھما پھرا، تصويرکشي کيليۓ بہترين مقامات دکھا، اپنا خيال رکھنےکي تاکيد کےساتھ، واپسي جہاز پر سوار کرا ديا اور خود چکن روسٹ کا لنچ کرنے چل ديں جس کي دعوت ميں وقت کي کمي کے باعث قبول نہ کر سکا-

    ہالی وُڈ، اور لاس ويگس سميت چار رياستوں پر مُشتمل اس دلچسپ امريکي سفر کي سب سے خوشگوار ياد، بلاشُبہ مُجسمہء آزادي پر يہ محبت بھرا تجربہ تھا-

  • 5. 17:31 2006-09-23 ,shahidaakram :

    اسد صاحب آپ نے جو کچھ لکھا اس کاکسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہيں يہ تو ہر انسان کی اپنی اخلاقيات ہوتی ہيں جو ہميں دوسروں سے ممتاز کرتی ہيں ہم بھي يہاں پرديس ميں کسی کو بھی دکھ يا خوشی ميں ديکھ کر اس کی خوشی ميں شامل ہو نے کی کوشش ضرور کرتے ہيں يہ سوچ کر کہ کبھی اگر کہيں دور ہمارا کوئی پيارا يونہی تنہا ہو تو شايد کوئی اس کا ساتھی ہو کر اس کی خوشی يا غم شيئر کرے يعنی اچھے اخلاق يا اچھا روْيہ کسی کی ميراث نہيں سو جو کچھ آپ کے ساتھ آپ کی سالگرہ پر سرپرائز کی صورت ہوا يقيناْايک انتہائی خوشگوار تجربہ رہا ہوگا کيونکہ جس طرح ہر گھر کے مختلف طور اطوار ہوا کرتے ہيں نا جانے ہم کيوں يہ سمجھ بيٹھتے ہيں کہ بقول ہمارے گورے لوگ بالکل ہی پيار محبت اور رواداری سے عاری ہوتے ہيں بلکہ ميرے خيال ميں تو وہ اس طرح کی روايات کو زيادہ خوش اسلوبی سے نبھاتے ہيں بس بات دل کے قبول کرنے کی ہے مجھی تو اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ کو وطن سے دور وطن کی خوشبو ملی وہ بھی بالکل اچانک اس کا آپ نے تصور بھی نہيں کيا تھا يہی زندگی ہے ،خوش رہيں خوشياں بانٹيں دنيا چند روزہ ہے کون جانے کل کيا ہو کاش کہ دنيا ايک چھوٹی سی ايسی خوشی کی کلی بن جائے جس کو ہر کوئی چھو سکے
    ڈھيروں دعائيں دنيا کی خوشيوں اور کھوئی ہو ئی رنگينيوں کے لیئے، رمضان المبارک کا بابرکت مہينہ ہے سب بہن بھائيوں سے خصوصی دعاؤں کے اہتمام کی درخواست ہے
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

  • 6. 19:54 2006-09-23 ,محسن عباس چودھری :

    اسد چودھری اس دفعہ کے بلاگ ميں تم نے بڑے ہی مختصر الفاظ ميں بہت بڑے موضوع پر بات کی ہے۔انتيس فروری کو پيدا ہونا ہی بڑی بات ہے اور دوسری ہمارے معاشرے ميں بہت سارےلوگ سنی سنائی باتوں کو بنياد بنا کر اپنے فيصلے کرتے ہيں۔اچھے لوگوں کی يہ پہچان ہے کہ وہ معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے بعد فيصلے کرتے ہيں۔ يہ فروری 2002 کی بات ہےـ ستمبر گيارہ کے امريکی ٹريڈ سنٹر پر حملوں کے بعد ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ميں اپنے چھ دوسرے پاکستانی دوستوں کے ہمراہ ٹوکيو کے راستے امريکہ کے سفر پر رواں تھا- ہمارا وفد ٹوکيو ائيرپورٹ پر روک ليا گيا اورامريکن ايمبيسی کے عملہ نے ہماری دوران لنچ کھانے سے تواضع بھی کي۔ہم حيران ھوئےکيا ماجرا ہے ۔کچھ عرصہ انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ سارا انتظار اس لیئے کرايا گيا کہ ہمارے دورہ کے دوران ہميں خصوصی طور پر سيکيوريٹی فراھم کی جائے گي۔تاکہ ستمبر گيارہ کے واقعات کی روشنی ميں کوئی ھمارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پيش نہ آجائے۔ ہم حيران ہوئے ۔
    مگر آج اسد کا بلاگ پڑھنے کے بعد مجھے وہ سارے پاکستانی مسلم برادر ياد آرہے ہیں جنہوں نے گستاخانہ کارٹون چھپنے کے بعد اپنے ہی بھائيوں کے کاروبار ،دفاتر اور موٹر سےئيکل جلادیئے۔

  • 7. 19:57 2006-09-23 ,Ahmad :

    ليکن مولوي کسی کے ساتھ نرمی کرنے کو تيار نہيں.....اس ليئے فی الحال اسلام اور مغرب کی لڑائی اٹل ہی سمجھيئے-

  • 8. 20:40 2006-09-23 ,فدافدا :

    يہ مسئلہ ہماری
    ورلڈ کے سياستدانوں کاپيدا کردہ ہے جن کے نزديک غريب ممالک کی گزر بسر امير ممالک کے دم سے ہے۔ غريبی ہٹانے کی بجائے ان کی پلانگ مزيد فارن ايڈ کے حصول تک رہتی ہے۔

  • 9. 20:50 2006-09-23 ,Ahsan Shafiq :

    اسد صاحب اپنی سوچ کو وسعت دیں۔ کم سے کم حالات حاضرہ کو اپنی سالگرہ سے آگے بڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں بالکل نہیں سمجھ سکا کہ بلاگ کا عنوان سے کیا تعلق ہے۔

  • 10. 2:00 2006-09-24 ,جاويد گوندل :

    ممکن ہے آپ درست کہتے ہوں مگر ميرا مشاہدہ ہے کہ جہاں مختلف النسل اور مختلف الخيال يا مختلف قوميت کے لوگ کسی خاص مجبوری کے تحت مخصوص مدت تک اکھٹے رہتے ہوں اور کسي حد تک انٹليکچوئل بھي ہوں ( کہ وہ بھي آپ کي طرع شعور سے آگاہي رکھتے ہونگے ورنہ آپ اکھٹے انکےساتھ ايک فليٹ ميں رہ نا پاتے) وہاں اس طرع کا ماحول عموماً بن جاتا ہے اور ايک دوسرے کی عزت اور مدد بھی کی جاتی ہے خواہ وہ بھارتی اور پاکستانی ہی کيوں نا ہوں۔ ہمارے جن ہم وطنوں کو بيرونی يونيورسٹيوں ميں پڑھنے اور ہاسٹلز ميں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ ميری اس بات کی تا ئيد کريں گے- اور پھرآپ کو ليپ سال کی چار سالہ سالگرہ پہ جو خصوصی طور پہ ٹريٹ کيا گيا وہ ان کے کلچر کا حصہ ہے بعين جس طرح پاکستان ميں پياس لگنے پہ آپ کسی کا بھی دروازہ کھٹکا کر پانی مانگ سکتے ہيں اور اکثر با حيثيت صاحب خانہ آپکا نام پو چھے بغير پانی کے ساتھ کھانے کی پيشکش بھی کرديتے ہيں جبکہ يوروپ اور امريکہ وغيرہ ميں يوں نہيں ہوتا کہ ہر کلچر کی اپنی خوبياں اور خامياں ہيں- ورنہ نماز ادا کرنے کي خاطرانتظار گاہ ميں پاؤں پھيلائےبيٹھے کسی گورے کو ذرا اُس طرف ہو کر بيٹھنے کا کہہ کر ديکھيےگا، اُس کے ناک منہ چڑھانے سے آپ کو ان کی مذھبی رواداری کا ثبوت مل جائےگا اور شايد اِن کے بارے ميں آپ کي رائے بھي بدل جائيگي-

  • 11. 5:50 2006-09-24 ,Azfar Khan :

    میں نے دنیا کے پینتیس ملکوں کی سیر کی ہے اور یورپی ممالک طویل کے لیئے رہا ہوں ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ امریکی بہت اچھے لوگ ہیں اور ان کے حق میں اللہ سے دعا کرنے چاہیے کہ ان کے سر سے بُش کا سایہ ختم ہو۔


  • 12. 12:25 2006-09-24 ,Sajjadul Hasnain :

    اسد صاحب آپ نے مغرب اور مشرق کے درمیان دوریوں کے باوجود محبت میل ملاپ اور جذبۂ خیر سگالی بہت اچھی مثال پیش کی۔۔۔ویسے حکومتیں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر عام انسان اس سے مبرہ ہے۔

  • 13. 13:13 2006-09-24 ,ishtyaquddin raushan :

    تقسیم تو ہوئی ہے مگر آپ سے کس نے یہ کہہ دیا کہ یہ مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے۔۔۔یہ تقسیم مفادات کی بنیاد پر ہے مذہب پر نہیں

  • 14. 16:01 2006-09-24 ,Rana Suhail :

    آپ صحیح کہہ رہے ہیں لیکن آپ کو اپنی یادیں تازہ کرنے کے لیئے چار سال انتظار کرنا پڑے گا۔ رانا سہیل

  • 15. 19:23 2006-09-24 ,Amjad :

    میں پانچ سال سے کینیڈا میں مقیم ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہاں مختلف مذہب اور نسل کے لوگوں کے درمیان بہت اچھا سلوک دیکھا ہے۔ میں یہاں بغیر کسی خوف کے مسجد جاتا ہوں لیکن پاکستان میں میں نےڈر کر بہت سال پہلے مسجد جانا چھوڑ دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ عالم اسلام میں بھی دوسروں کے لیِئے برداشت پیدا کی جانی چاہیے۔ I

  • 16. 20:06 2006-09-30 ,Naim Ali :

    جناب میرا تو یہ مشاہدہ ہے کہ عام لوگ تو ہر جگہ اچھے ہیں۔

  • 17. 18:12 2006-10-01 ,Muhammad Ayub Swati :

    اسد صاحب جب فروری کے 28 دن ہوتے ہونگے تب تو آپ کے سالگرہ منانا مشکل ہی ہوگا ناں- ويسے اچھے لوگ ہر جگہ ہوتے ہيں-

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔