ڈنڈا بردار لکھاری
یہ شاید پرو مارشل لاء یا جھموریت مخالف ٹائيپ سیانے کا ہی قول کہاوت بنا ہوگا کہ ’چار کتاباں اتوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا‘ (یعنی آسمان سے چار کتابیں اور اسکے بعد پانچواں ڈنڈا اترا۔
یاد رہے کہ صوفی لاکوفی لوگوں نے ازل سے مولوی اور فوجی کے ڈنڈے کو رد کیا ہوا ہے۔
لیکن کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ کسی ڈنڈے بردار نے کتاب بھی لوگوں کے سر پر دے ماری ہو؟
بارہ اکتوبر انیس سو نناوے کو آسمان والے نے تو نہیں پر آسمان سے ڈنڈا لیکر اتر آنے والے پاکستانی فوجی جنرل پرویز مشرف کی یہ تین سو اڑسٹھ صفحات پر مشمتمل کتاب تمامتر دھماکہ خيز مبینہ امریکی دھمکی والے انکشاف اور پبلسٹی کے باوجود، کتابوں کی فروخت کی سب سے بڑی ویب سائيٹ ’ایمازوں ڈاٹ کام‘ کے مطابق گذشتہ اختتام ہفتہ (جمعہ) کو اپنی پری
ریلیز یا رونمائی سے پہلے والی فروخت میں ایک سو بائیس نمبر پر تھی۔ بقول شخصے، وہ پاکستانی جنہوں نے اپنے ملک میں مشرف کو ہمیشہ وردی والی تصاویر بڑے شوق و رعب سے کھنچواتے دیکھا ہے، انکی کتاب کے سرورق پر ارمانی سوٹ والی تصویر پر حیران ضرور ہیں
شاید بغیر وردی والا مشرف مغرب کے لیے ہے۔
کل کے ’لاس اینجلس‘ میں لکھا تھا: ’پاکستانی صدر مشرف جو کہ ایک منجھے ہوئے فوجی افسر ہیں، جنہوں نے جنگوں میں فوجوں کی رہنمائی کی ہے، کمانڈوز کو تربیت دی ہے، ملک کا کنٹرول قبضے میں کیا ہے اور تین قاتلانہ حملوں سے بچ نکلے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ وہ رپورٹروں کے کلیدی سوالات کا جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ اپنے ناشروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
کتابوں کی نشر اشاعت کی دنیا کے لوگ کہتے ہیں ’اصولوں سے زیادہ یہ انہوں نے منافعے اور مزے کیلیے کیا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھيا نہ تو ڈنڈا ان کا اپنا ہے نہ قلم جو بھی کچھ ہے کسی دور بيٹھے حاکم کے اشارے پر چلتا ہے۔ اسی طرح لباس کا انتخاب بھی حکم حاکم کو مد نظر رکھ کر کيا جاتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار گاہک کا نامہ بر تلخ انداز اختيار کر ليتا ہے تو دبی دبی شکايت کر دی جاتی ہے جس کی فوری ترديد بھی ہو جاتی ہے۔ کوئی عجب نہيں کہ مغرب کے قاری اس کتاب کو خريدنے کے ليے ٹُوٹے نہيں پڑ رہے چونکہ بے پر کی باتيں پڑھنے کے شوقين لوگوں کے ليے ’نیوز آف دی ورلڈ‘ وغيرہ قسم کے چيتھڑے وہاں کثير تعداد ميں چھپتے ہيں۔ فوجی آمروں کی عادت کے عين مطابق يہ اپنے پيش رو کی پرواز ميں کوتاہی کو بھلا بيٹھے ہيں۔
مجھے سمجھ نہيں آتا کے آپ لوگوں کو اعتراض کس چيز پر ہے۔ مشرف پر کتاب پر يا اُن کے لکھنے پر يا جس سے کتاب لکھوائی ھے اُس پر اعتراض کتاب کے تين سو اڑسٹھ صفحات پر ہے يا اُن کے ارماني سوٹ پر يا کتاب کے ايک سو بائيس نمبر ہونے پر يا؟ ميں بار بار بلاگ پڑھ رھا ہوں مگر سمجھ نہيں آ رہا کہ آخر اس تنقيد برائے تنقيد کا کيا مقصد؟ کيوں اپنی توانائی بے مقصد ضايع کر رہے ہيں۔ آپ جيسے اچھے لکھاری کويہ زيب نہيں ديتا۔
شايد مشرف القاعدہ کے مشتبہ افراد سی آئی اے کے حوالے کر چکے۔ بس کچھ اورکمانے کی تمنا۔