مس بکنی اور تہذیبوں میں تصادم
شرف النساء ایک پاکستانی خاتون تھی جو امریکہ میں سلائی کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی شلوار قمیض کے سوٹ۔ وہ ایسے شلوار قمیض کے سوٹ میرے ایک اور پاکستانی نژاد دوست کی امریکی سفید فام زوجہ کے بھی بناتی تھی۔
تب میرے پاکستانی نژاد دوست کا سبز حلالی پاسپورٹ تھا جو گم ہوگیا تو اسکی امریکی
بیوی ظاہر ہے کہ پریشان تھی۔ شرف النساء نے اسکی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ ’قرآن کی سورہ النساء پڑھیے تو بھائی صاحب کا پاسپورٹ مل جاۓ گا‘۔ یہ سب نام نہاد تہذیبوں کے تصادم سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔
نہ میرے دہریے دوست کی کیتھولک گوری بیوی کو اپنے میاں کے پاسپورٹ کی تلاش میں قرآن کے انگریزی ترجمے والے ايڈیشن سے سورہ نساء نکال کر پڑھنے میں کوئی مضائقہ تھا اور نہ ہی شرف النساء کسی ’یہود و ہنود کی سازش‘ کا شکار تھی۔
پورے پانچ برس ہوگئے اس ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا طبل جنگ بجتے ہوئے۔
میں نیویارک میں فرسٹ ایونیو پر خواتین کے اس بار میں گیا تھا جہاں کی چھت پر بڑے قرینے سے بکنیاں سجی تھیں۔ یہ بکنیاں عورتوں کی جنسی آزادی منوانے یا پھر بریسٹ کینسر میں مرجانے والی خواتین کی یاد میں تھیں۔ اور ہم ہیں کہ اس بچی کو ڈس اون کرتے ہیں جو ہمارے ملک کا نام روشن کرنے کیلیے مس بکنی کے عالمی مقابلے میں حصہ لیتی ہے۔ کبھی کارلا خان تو کبھی اسری نعمانی کی تو کبھی ثانیہ مرزا تو کبھی ماریہ متین سے ہمارے ’ اسلاف خطرے میں‘ پڑجاتے ہیں!
تبصرےتبصرہ کریں
Asslam o alikum
yeah this is the clash of civilizations and in muslim society it is not allowed what happened there in China.So being a muslim i condemn all this and i do believe that all the mulsim will condemn.
thanx
bye
بات تہذيبوں کی نہيں دين کی ہے۔
اگر ميں پاکستان کا صدر ہوتا تو سب کو ٹھیک کر ديتا۔
YEH TU SIR A SIR BAYHAYAI HAI AGER IS NAY AISA HI KOI KAM KERNA HAI HAI TU WAHAN HI KAREY PAKISTAN KA NAAM LAINAY KI KAIYA ZAROORAT HAI ASI LARKIYIAN HOTI HIAN JIN K LIYE WAQATi CHARM HI SAB KUCH HOTA HAI . IS LARKI KO PAKISTAN MIEN NO ENTRY QARAR DAINA CHIYE
Hum NUDITY ke zariye mulk ka naam roshan karna hur giz pasand nahin karain ge. Hasan sahib maghrib se itna mutasir na hoon keh apna mazhab aur saqaafut bhi bhool jayein.
بےوقوفی ایک لڑکی کی۔
Miss Bikni is not at all representative of our culture or religion. Its been clearly said in Quran what a woman can wear and what not. I'm all for women freedom but not for vulgarity. Tthey are welcome to pursue any career they want and they should be encouraged to do so because thats the only way muslims can develop.
پہلی بات تو سب سے ضروری يہ ہے کہ اسلام کي روشني ميں واضع ہے کہ يہ عمل مسلمانوں کي طرف سے کابل مزمت ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اگر کوئی غلط طور سے بلا اجازت ملک کا نام استعمال کرے تو قابل مزمت ہے۔
Pakistan ISLAM kay naam per aazad hoa aur Lakhoon Shaheed jin main meray bhi Azeez shamil thay unhoon nay apni Janoo ka Nazrana iss liay dia tha kay wo aik aisa khitta hasil kar rahay hain jis per wo ISLAM kay usoolon kay mutabiq zindagi guzaar sakain. Lihaza bahaisait Muslim Agar iss Amriki Larki ko itna hi shauq hay to ho pura karey Laikin barahay karam apnay aap ko Pakistani keh kar hamaray Buzurgoon kay khoon ka mazaq nay Uraey. Shukria
پھائی صاحب بکنی پہن کر دنيا کو دکھانا کہان کی ثقافت ہے؟
It is wrong. The best is to ignore it. Please you condemn it more. Just ignore it.
mujhey itna pata hai keh kisi pakistani ya kisi muslim ko yeh zaib nahi deta, kuch logo ne short dressing ko azhary azadi samajh leya hay. jaha tak sania mirza our karala khan ki baat hai toh woh yeh sabh game complete dressing main bhi ker sakti hian, game kerna or short dressing kerna do alagh alagh batein hain.
حسن، نہ جانے کيوں آج ’حسن صاحب‘ کی جگہ حسن کہہ کر مخاطب کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ آزادی حد ميں اچھی ہوتی ہے۔
ظاہر ہے دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے سے تہذيبوں کا تصادم تو ہوگا۔ ليکن اپنی تہذيب چھوڑ کر مغرب کی ’تاريک تہذيب‘ اپنانے سے ہمارے ہاتھ سوائے زلت اور رسوائی کے کچھ نہيں آئے گا۔ ايک مشہور مثال ہے: ’کوا چلا ہنس کی چال سو اپنی چال بھی بھول گيا‘۔ لہزا ہم اپنی ہی تہذيب ميں رہ کر وہ کام کريں جو ہمارے ملک اور مذہب کے ليے فخر کا باعث ہو نا کہ بدنامی کا باعث۔
ظاہر ہے دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنے سے تہذيبوں کا تصادم تو ہوگا۔ ليکن اپنی تہذيب چھوڑ کر مغرب کی ’تاريک تہزيب‘ اپنانے سے ہمارے ہاتھ سوائے زلت اور رسوائی کے کچھ نہيں آئے گا۔ ايک مشہور مثال ہے: ’کوا چلا ہنس کی چال سو اپنی چال بھی بھول گيا‘۔ لہزا ہم اپنی ہی تہذيب ميں رہ کر وہ کام کريں جو ہمارے ملک اور مذہب کے ليے فخر کا باعث ہو نہ کہ بدنامی کا باعث۔
اگرآپ مسلمان ھيں تو اسلام کے حرام کو حرام اور حلال کو حلال کہنا پڑے گا ورنہ غیر مسلمان اور مسلمان ميں کوئی فرق نہيں
یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس سے پاکستان کی عزت بڑھی ہے یا کوئی اسلامی یا پاکستانی کلچر ہے۔۔۔باقی سب کو پتہ ہے کہ کون کیا کروانا چاہتا ہے اور کیوں۔۔۔
جولوگ مقابلےميں اس لڑکی کی شرکت کی حمايت کر رہے ہيں وہ صحيح کہتے ہيں اور جو مخالفت وہ بھی اپنی جگہ صحيح۔ ليکن مخالفت کرنے والے ذرا يہ بتلائے کہ کيا ہماری ثقافت، ہمارا مذہب اور ہماری وطنيت کو اسی بات پر آکر شروع يا ختم ہو نا ہے؟ کيا دوسرے معاملات جو اس سے بھی بنيادی ہيں اس ميں ہم پرفيکٹ ہيں؟
جو لوگ مقابلے ميں اس لڑکی کی شرکت کی حمايت کر رہے ہيں وہ صحيح کہتے ہيں اور جو مخالفت وہ بھی اپنی جگہ صحيح ہیں۔ ليکن مخالفت کرنے والے ذرا يہ بتلائیں کہ کيا ہماری ثقافت ہمارا مذہب اور ہماری وطنيت کو اسی بات پر آکر شروع يا ختم ہونا ہے؟ کيا دوسرے معاملات جو اس سے بھی بنيادی ہيں اسں ميں ہم پرفيکٹ ہيں؟
پہلی بات تو یہ کہ ہر تہذیب کی اپنی حدود ہوتی ہیں اور ہمیں وہ قبول کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ یہ خاتون اب امریکی شہری ہیں انہیں امریکہ کی نمائندگی کرنی چاہیے نہ کہ پاکستان کی۔۔۔
یہ مذہب کا معاملہ ہے اور اپنے ملک کا اس طرح استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ بالکل صحیح نہیں ہے اور حکومت کو ایسے واقعات روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی جگہ ایسی چیزوں میں اپنی ترقی کیوں دیکھتے ہیں۔
ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔
کھبی کھبی آپ کيسی باتيں کرنا شروع کر ديتے ہيں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ کيا کم کپڑے پہنا روشن خيالی ہے؟ بلکل نہيں۔ اگر آپ بھول گئے ہيں تو ميں ياد کرواتی چلوں کہ جب انسان پتھر کے دور ميں تھا تب بھی اپنا تن پتوں سے ڈھانپتا تھا۔ جب انسان نے دھاگے سے کپڑا بنايا اور اپنے جسم پر لپيٹا تب جاکر انسان تہذيب يافتہ قرار ديا گيا۔ تو آج کے اس جديد دور ميں پھر انسان کپڑے کيوں اتار رہا ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے؟ آج عورت کی تذليل جتنی مغربی معاشرے ميں ہو رہی ہے اس کی مثال نہيں ملتی۔ عورت کی سرعام نمائش لگائی ہوئی اور اس فحاشی اور عريانی کو روشن خيالی قرار ديا جارہا ہے۔ آخر يہ بکنياں ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کيوں کی جارہی ہے؟ ہم تو يہ نہيں کہتے جو لوگ شلوار قميض نہيں پہنتے وہ روشن خيال نہيں۔ اگر اسی طرح ايک تہذيب دوسری تہذيب پر حاوي ہونے کي کوشش کرتي رہي تو اس کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ آپ جيسے ميڈيا کے لوگ صرف ان جيسی عورتوں کو highlight کرتے ہيں آپ وہ لڑکی نظر کيوں نہيں آتی جو پردے حجاب ميں رہتے ہوے فائٹر پائلٹ ہے؟
پاکستان ميں تو سارے مرد فرشتے اور عورتيں نيک پروين ہیں۔ اسی لیے ان باتوں پر اسلام، گناہ، جہنم ياد آجاتا ہے۔ ليکن ’بےواچ‘ اور ’مقابلہ حسن‘ ديکھتے وقت فرشتے لبرل ہو جاتے ہيں۔ ثانيہ مرزا اور کارلا خان اگر يہ برقعہ پہن کر بھی کھيليں تب بھی متنازع ہی رہيں گی۔ کاش کہ ان کی گيم پر توجہ دی جائے نہ کہ کپڑوں پر۔ اچھا ہوتا کہ مس بکنی پاکستان سپورٹس يا سٹڈيز کی وجہ سے پاکستان کو ريپريذنٹ کرتي۔
پاکستان ميں بھلے نيک پروين نہيں يا فرشتے نہيں مگر بکنی پہن کر روشن خيالی يا آزادی کا اظہار بھی نہيں۔ مجتبی صاحب کيا کہنے آپ کے تو ايسی بات کرتے ہو کہ حيرانگی کے ساتھ ہنسی کا بھی دورہ پڑتا ہے۔ يہ پاکستان کی نمائندگی تب کرتیں جب پاکستان نے ان کو بھيجا ہوتا۔يہ کيا بات ہوئی جہاں سے دل چاہا منہ اٹھايا اور چل دئیے۔ ثانيہ اور کارلا نے اپنے ملک کا نام کھيل ميں بنايا، اس بی بی نے صرف 15 منٹ کی شہرت کے ليے پاکستان کا نام استمعال کيا ہے اور کوئی بات نہيں۔ خواتين سے معذرت کے ساتھ عزت اس عورت اور مرد کی کی جاتی ہے جو ہر حال ميں اپنی اقدار، رسم و رواج اور عزت کا خيال رکھتے ہيں چاہے وہ دنيا کے کسی بھی خطے سے ہوں۔
بکنی پہن کر کوئی روشن خيال بن سکتا ہے ميں يہ نہيں مانتا۔ يہ سراسر عورتوں کا استحصال ہے۔ مغرب نے عورت کو شو پيس بنا ديا ہے۔
ايک مسلمان اور پاکستانی کی حیثيت سے اس کی مزمت کرتا ہوں
حسن اب آپ کو سورہ نساء کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور وہ بھی سليس اردو ترجمہ کے ساتھ۔ اپنے نظريہ روشن خيالی ميں تصحيح فرما ليں۔ آپ تو اس کا مطلب کچھ اور ہی سمجھ بيٹھے ہيں۔