یہ تو ہوگا
پانچ ماہ قبل ایک مسافر کوچ میں دیگر مسافروں کے ہمراہ لٹنے کے بعد میں نے کوچ میں ہی بیٹھنا چھوڑ دیا۔ لیکن کراچی سے حیدرآباد دوستوں سے ملنے کے لئے تو چار و ناچار انٹر سٹی بس میں ہی جانا پڑتا ہے۔
مگر کوچ کے واقعے کے بعد سے جب بھی میں کسی انٹر سٹی بس میں بیٹھتا ہوں تو انتظار کرتا ہوں کہ کب دوتین مسلح افراد مسافروں کے درمیان سے اٹھیں گے اور ہم سب کو لوٹ لیں گے۔ میں غیر شعوری طور پر سیٹ کے نیچے یا سامنے والی سیٹ کی پشت کے پلاسٹک کور میں وہ گنجائشیں تلاش کرتا ہوں جن میں وقت پڑنے پر فوراً اپنا بٹوا یا موبائیل چھپا سکوں۔ انٹر سٹی بس میں سفر کرنے سے پہلے میں اپنے سارے کریڈٹ اور وزیٹنگ کارڈ اور اہم رسیدیں گھر میں چھوڑ دیتا ہوں اور بٹوے میں اتنی ہی رقم رکھتا ہوں جو ناگزیر ہو۔ لیکن ایک نہ ایک دن تو میری بس کی باری آنی ہی آنی ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے کراچی کی سڑکوں پر اگر کسی نے انیس سو اٹھانوے کے بعد سےمیرا موبائیل فون نہیں چھینا تو اسکا یہ سبب نہیں ہے کہ میں کوئی اسٹریٹ فائٹر یا لحیم شحیم آدمی دکھائی دیتا ہوں بلکہ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جن موٹر سائیکل سوار مسلح لونڈوں نے مجھ سے موبائیل چھیننا ہے وہ یا تو چند منٹ پہلے کسی اور کے ساتھ واردات کی دھاڑی لگا چکے ہیں یا پھر وہ اتنی عجلت میں ہیں کہ اب تک میری جانب انکا دھیان نہیں جا سکا۔
اگر کسی نے آج تک میری کنپٹی پر ٹی ٹی رکھ کر کار یا موٹر سائیکل ہتھیانے کی کوشش نہیں کی تو اسکی صرف یہ وجہ ہے کہ میرے پاس نہ تو گاڑی ہے اور نہ ہی موٹر سائیکل۔
چنانچہ جب مجھے روزانہ یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ شہر میں آج تیس کاریں اور چون موبائیل فون چھن گئے تو میں یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہتا ہوں کہ شکر ہے آج پھر سات آٹھ لاکھ روپے کے نقصان سے بچ گیا۔
لیکن کوئی ایک دن تو ایسا ضرور آئے گا جب موٹر سائیکل سوار دو مسلح لونڈے مجھے فوکس کر ہی لیں گے اور میرا موبائیل بھی روزانہ پچاس سے زائد چھننے والے موبائیل فونز میں شامل ہوجائے گا۔
میں جس ٹیکسی میں سفر کررھا ہوں گا جب وہ کسی دن ایک خاص لمحے میں سرخ ٹریفک سگنل پر رکے گی تو کوئی نہ کوئی تو اس میں کود کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ ہی جائے گا اور میری کمر سے ٹی ٹی کی سرد نال لگا کر بڑے دھیمے سے لہجے میں کہےگا۔
’’ بھائی صاحب آپ چپ چاپ بغیر ہلے بیٹھے رہنا پسند کریں گے یا پھر لیٹنا پسند کریں گے ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
Assalam Walaykum ..Wusat sahab ne phir karachi ki bus yaad dila di hain or app ka wo blog bhi yad aa gaya hai jo app ne kuch months pehley likha tha. mujhay badi hansi a rahi hai app ka blog read ker ke. Aisey hi lik tay rahain app. Khuda ap ko sahi salamat rakhay, Ameen.
Gun point per lutnay ka waqiha hamaray sath bhi karachi ke defence ke area mein 1991 mein pesh a chuka hai.yeh ladkey sham ke time motorbike per hamein peechay se lights mar rahay they. Car roknay per kehnay lagay keh woh falan sarak kidher hai aur sath hi pichli seat walay ne choti tt nikaal li.woh aur cheezon ke sath ham logon se purse mein paray 6 hazar bhi le gai. us din ke baad se mein ne hand bag lena chor dia.mujhey aaj bhi un ladkon se shadid nafrat mehsoos hoti hai.
Wusat bhai aap lebnon se ho aaye wahan darr nahin laga.
abb apne logon ke darmayan kya darna. ab ye dacoit israeli hamlawaron se ziyada khatarnak lagte hain kya?
waise aap ke her blog ki tareef karta hoon. .apna khyal rakhiye ga.
a
وسعت انکل آپ نے تو اشتہار بنا ديا ہے اپنے نہ لٹنے پر۔ لگتا ہے آپ کو شوق ہو رہا ہے لٹنے کا۔ اگر لفنگے آپ کا بلاگ پڑھ ليں تو زيادہ بہتر رہےگا۔ وہ پہلے آپ کوسيدھا گھر لے جائیں گے، ليکن آپ مزاحمت کی بجائے اپنا کوئی ٹينشن سے بھرا بلاگ پڑھا دينا وہ نہ سدھرے تو آپ اپنا نام بدل دينا!
وسعت جی آداب۔ آپ اتنا اچھا بلاگ لکھتے ہيں سمجھ نہيں آ رہا کہ کن الفاظ ميں تعريف کروں۔ ايک سنجيدہ موضوع کو ہلکے پھلکے انداز ميں پيش کرنا کہ پڑھتے وقت ہنسی بھی آئے اور بات دل پراثر بھی کرے۔ ليکن حکومت پر کب اثر کرے گا پتہ نہيں۔ کراچی ميں اسٹريٹ کرائم اس حدد تک بڑھ گيا ہے جس کی کوئی تاريخ ميں مثال نہيں ملتی۔ ہمارے بہت سے رشتہ دار کراچی ميں رہتے ہيں۔ ايسے سينکڑوں دفعہ وہ اپنے موبائل اور پيسے، جيولری گنوا چکے ہيں۔ کراچی ميں جان مال سب بہت خطرے ميں ہے۔ کراچی جو کہ کھبی روشنيوں کا شہر تھا آجکل لوڈشيڈنگ کی وجہ سے تاريکيوں میں ڈوبا رہتا ہے اور اوپر سے چورياں اور نلکوں ميں پانی ہے نہيں۔ ليکن سڑکيں بارش کے پانی سے بھری پڑی ہيں اور شہری حکومت صرف اپوزيشن کی صفائی ميں لگی ہے۔
وسعت جی اللہ نہ کرے کہ کھبی آپ کا ان لونڈوں سے ٹاکرا ہو۔ ہم سب کی دعائيں آپ کے ساتھ ہيں۔ اللہ آپ کو اپنی حفظ وامان ميں رکھے آمين