صحرائی برسات اور بنجارے
میں نے برسات دیکھی ہے مگر صحرا میں برسات کا منظر پہلی بار دیکھا اور وہ بھی اس وقت جب ریت اور پانی میں لت پت بنجارن عورتیں بھیرو بابا کی بھینٹ چڑھانے لگیں۔
وراٹ نگرکے کشوری گاؤں میں خانہ بدوشوں کی بستی چند سال پہلے ہی آباد ہوئی ہے پہاڑ پر مستقل طور پر انہوں نے مٹی کے کوٹھے بنائے ہیں جن پر گھاس پھوس کی چھت ہے۔
یہ لوگ آج بھی پہاڑوں پر اپنے مال میوشی لے کر جاتے ہیں مگر کشوری کو انہوں نے اب اپنا مستقل گھر بنایا ہے۔
بستی تک جانے کے لیے کچی سڑک ہے اور تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ہینڈ پمپ نصب ہے۔
بستی میں رونق اور چہل پہل ہے۔ کمی ہے تو پانی کی جس کے لیے یہ بستی ترس رہی ہے۔ بنجارن عورتوں کے رنگ برنگے گھاگھرا چولہی سے کبھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ تقریبا تین ماہ سے نہائی نہیں ہیں۔
ان کے کھانے میں اسی فیصد مٹی ملی ہوتی ہے کیونکہ ہر چیز مٹی میں لت پت ہے۔
بنجارن بھیرو بابا سےگاگا کے بارش کے لیے التجا کر ہی رہی تھیں کہ شدید آندھی آئی۔ صحرا کی دھول ایسے اڑی کہ آسمان اور زمین کے بیچ میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
چند لمحوں میں برسات شروع ہوئی۔ زمین سے گرم گرم بخارات نکلنے لگے اور ہر طرف عجیب سی بو آنے لگی۔
برسات ایسی کہ پانی کی چادریں بہہ رہیں ہیں۔ ہر کوئی بے قابو ہو رہا تھا۔گردو غبار میں پڑا کشوری گاؤں، عورتوں کا ناچ اور مردوں کا نشے میں دھت ہونا، یہ دیکھ کر مجھے دہشت سی ہوئی۔ بغیر کچھ کہےمیں بھیرو بابا کی مورتی کی شرن میں بیٹھ گئی۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھيرو بابا نے جان چھڑائ بارش دے کر ان بنجارنوں سے اگلے تين مہينوں کيليۓ ويسے وہ کونسا گانا گا رہی تھيں جو طوفانی بارش شروع ہو گئ کراچی ميں جب بارش نہيں ہوکبھی تو ہم لوگ بھی کوشش کرينگے ويسے آپ کے بلاگ ميں مزہ آتا اگر بنجارنوں کی تصويريں ہوتی اور نشے ميں ان کے پتيوں کی اور مٹی لگے کھانوں کی بھي ويسے عجيب لوگ ہيں پانی آيا تو جلدی جلدی نہاؤ نہ کے دھشت پھيلاؤ مہمانوں پر
يعہ بھرو با با کو ن ہے؟ ُآ پ ا س کے ٰچر ن ميں کيوں بيٹھ گيئں؟
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ ، آداب
حبس تنہائيوں کا دور کرے
پھول ، بارش ، دھنک ، صبا کوئ
بہت شکريہ کہ آپ نے صحرائ برسات کی ، خوبصورت منظر کشی کی ۔
ايسی سوندھی خوشبو لۓ برسات يہاں کہاں ۔۔
چھتری ، رين کوٹ اور تيزتر زندگی بھلا اُس برسات کا کہاں مزا دے گی جو آپ ديکھ کر آئ ہيں ۔۔
بس اسی طرح زندگی کے خوبصورت رنگ دکھاتی رہيں اور سب ميں يہ دھنک رنگ بانٹتی رہيں ۔
نکہتوں کے پيامبر بن کر
باغ ميں صورتِ صبا رہيۓ
نيازمند
سيد رضا
برطانيہ
نعيمہ جی زندگی ميں بہت کچھ ديکھا ہے ليکن آپ کے آج کے بلاگ نے ايسے آنکھيں کھول دی ہيں کہ لگتا ہے کبھی بند نہيں ہوں گی صحرائ زندگی کی تکاليف کا کافی کچھ اندازہ ہے اس لۓ کہ ميرے شوہر نے ساری زندگی فيلڈ کی ہی جاب کی ہے اور بدوؤں کی زندگی اور اُن کی زندگی ميں پانی کی اہميت کے متعلق بتاتے رہتے ہيں اور ہميں بھی پانی کو احتياط سے استعمال کرنے کی تلقين کرتے ہيں سعودی عرب ميں بھی رہی ہوں پانچ سال تک اور اب پچھلے تيرہ چودہ سال سے مڈ ل ايسٹ ميں بھی رہتے ہوۓ انداز ہ ہے کہ پوری دنيا ميں تيل کی دولت سے مالا مال ہونے والوں کے نز ديک پانی کيا اہميت رکھتا ہے کہ جتنے ميں پيٹرول کی ڈيڑھ ليٹر کی بوتل آتی ہے پانی کی آدھي بوتل اُس سے ڈ بل قيمت ميں ملتی ہے اور صحرا ميں لينڈ کروزر رکھے ہوۓ بدو بھی اونٹ ساتھ ساتھ رکھتے ہيں اور جدھر جدھر يہ اونٹ جاتے ہيں اُن کے ساتھ چل پڑ تے ہيں کہ يہی ہمارا رزق ہيں اور جس جگہ سے پانی ختم ہوا وہاں سے پڑاؤ ختم کر ديتے ہيں تو پرانی عربوں کی پڑھی ہوئ کہانياں ياد آ جاتی ہيں جو صرف اور صرف پانی پر محيط تھيں کہ شہر بھی پانی کے قريب کے علاقوں کے پاس ہی آباد تھے اور واقعتاْ صحرا ميں بارش ديکھنا خوداپنے ميں ايک عجيب داستان رہی ہو گی ايک انوکھا تجربہ جو آپ نے کيا،خدا ہم سب کو ميانہ روی کی توفيق دے کے ہمارا مزہب بھی اصراف سے منع فرماتا ہے اور زيادتی تو ہر چيز کی ويسے بھی غلط ہے ، اور آج سے ميں بھی پانی کی اہميت کو اور زيادہ محسوس کرکے احتياط کيا کروں گی ،ہاں ايک بات اگر برا نا محسوس کريں تو، ہندی کے الفاظ اگر ہو سکے تو استعمال کم کريں کيونکہ ہمارے کچھ بہن بھائ ہو سکتا ہے ہندی سے نابلد ہوں کيونکہ آپ کے بلاگ ميں اس کا کافی استعمال ہے ،معزرت خواہ ہوں يہ لکھنے پر ليکن ايسا محسوس ہوا تو
دعاگو
شاہدہ اکرم
پانی واقعی قُدرت کی عظيم ترين نعمتوں ميں سے ايک ہے- سيارہ زمين پر پانی کے گھٹتےہوۓ ذخائر ماہرين کے لۓ باعث تشويش ہيں- کہا جاتا ہے مُستقبل کی جنگيں، تيل کی بجاۓ پانی کے حصول پرہوں گي-
دُنيا کے تقريبا” تمام مُمالک ميں پانی کے بےجا ضياع کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے- خليج عرب کي امير رياستيں سمندری پانی کو پينے کے قابل بنانے کی انتہائي مہنگي ٹيکنالوجی خريدنے کی استطاعت رکھتی ہيں جبکہ کراچي اور استنبول جيسے عظيم الشان شہرساحل پر رہتے ہُوۓ پياسے رہ جاتے ہيں - پاکستان ميں ذخيرہ اندوزي کے ناکافي انتظامات کي بدولت برسات کا قريب ساٹھ فيصد پانی سمندر ميں جا گرتا بتايا جاتا ہے جو يقينا” کُفران نعمت ہے-
ضروری ہے کہ کشوری گاؤں کے ان بنجاروں جيسے اذيت ناک مُستقبل سے بچنےکے لۓ کوئی فکر کی جاۓ ورنہ اللہ مُعاف کرے ..... ہماري يہ بےخبري ، اگلي نسلوں پر بُہت بڑا ظُلم ہو گا-
کتنا اچھا ھوتا اگر يہ منظر ھم ديکھتے
محترم نعيمہ جی
اسلام عليکم! آپ کا ہر بلاگ بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ آپ کے بلاگ ميں بہت گہرائی ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے بلاگ ميں صحرا کی خوبصورت تصوير کھيچی ہے۔ آپ نے وہاں کے باسيوں کے مسائل کو بھی لکھ ڈالا ، آپ نے بارش کے بعد صحرا ميں مٹی کی خوشبو کا بھی تذکرہ کيا ، آپ نے واقعتا بالکل سچ لکھا ہے کہ صحرا کے لوگ بہت سے مسائل کا شکار ہيں۔ گندے پانی کی وجہ سے وہاں سينکڑوں بيمارياں انسانوں کو لاحق ہيں، مگر اقوام متحدہ اور دوسری عالمگير تنظيموں کے ليئے لمحہ فکريہ ہے۔ آپ نے اپنے قلم کا حق ادا کر ديا ہے۔ ويل ڈن نعيمہ
صرف اتنا کہنا ہے کہ ہندی الفاظ استعمال کرنا نہ چھوڑیے، اگر کوئی ان سے نابلد ہے تو یھ اسکی بدقسمتی ہے، ہر زبان کا اپنا حسن ہوتا ہے، ابن انشا کی شاعری کا ایک لطیف پہلو ہندی الفاظ کا خوبصورت استعمال تھا۔