غلام رسول کی گاندھی گیری
فلم ’لگے رہو منا بھائی‘ سے بھی برسوں پہلے غلام رسول سہتو نے گاندھی گیری شروع کی ہوئی تھی اور آج بھی، سیاسی و ہر قسم کی داداگیری کے دنوں میں بھی، غلام رسول سہتو ’منے بھائی‘ کیطرح لگا ہوا ہے۔
غلام رسول سہتو کراچی پریس کلب کے سامنے چونتیس دنوں سے سوبھو دیرو ضلع خیرپور میرس سندھ کے ہاریوں (کسانوں) اور آبادگاروں کیساتھ تادم مرگ بھوک ہڑتال یا مرن بھرت پر ہے اور اب انکے اور انکے ساتھیوں کی آنتوں سے خون آنے کی اطلاعات ہیں۔ نہ انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کی ہے اور نہ ہی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے کسی نمائندے نے غلام رسول سہتو اور انکے کسان ساتھیوں کے مطالبات اور انکی تادم مرگ بھوک ہڑتال پر کوئی ’آخ‘ بھی کی ہے۔
حالانکہ اصغر خان جیسے بزرگ سیاستدان بھی سندھ کے ان کسانوں اور سہتو کی دلگيری کے لیے انکے بھوک ہڑتالی کمیپ پر آئے تھے۔
یہ وہی حکومتیں ہیں، جو ویسے تو مل ہل لندن اور نائین زیرو کراچی میں صرف کسی کے ہاتھ کی انگلی میں فیروزے کی انگوٹھی پھیرنے سے وزیر اعظم، وزیر اعلٰی یا فوجی صدر تک طواف کرنے لگتی ہیں۔
مجھے پتہ ہے کہ سہتو نہ فقط اپنی دھن میں کے ٹو کیطرح پکا ہے، بلکہ اصول پرست بھی۔ اسکی یہ اور اسکے ساتھیوں کی تادم مرگ بھوک ہڑتال بہت اصلی ہے۔ سہتو ان لیڈروں اور بھوک ہڑتالیوں میں سے نہیں جو بھوک ہڑتالی کیمپ پر تکیے کے نیچے ڈبل روٹی یا وھسکی کی بوتل رکھتے ہیں اور پیغام بھیجتے ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں ’منتیں‘ کرکے جوس کے پیکٹ سے انکی بھوک ہڑتال ختم کروائے۔
سہتو اور سوبھو دیرو کے کسانوں اور آبادگاروں نے یہ مرن بھرت محمکہِ انہار یا آپپاشی کے مقامی انجینئیروں کے ہاتھوں کسانوں اور آبادگاروں کے حصے کا پانی بیچ دینے کیخلاف کیا ہے۔ انکی ہزاروں ایکڑ زمیں کربلا بنی ہوئی ہے اور انکا پانی حکومت کے حامیوں کو جارہا ہے۔
محکمہِ انہار و مواصلات کے انجینئر،جن میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے وزير اعظموں، اور وزیروں کی سیاست اور الیکشنوں کے خرچے اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سہتو کی گاندہی گيری یا تادم مرگ بھوک ہڑتال کی کس کو پرواہ۔!
تبصرےتبصرہ کریں
مجتبی صاحب کس کس کے مسائل کو اٹھائیں گے۔ آپ اور کون کونسی حکومتوں کی بد عنوانيوں اور سياست دانوں کے اعمال کا پردہ فاش کريں گے۔ آپ کو شائد اس بات کا علم نہ ہو۔ دہلی ميں پارليمنٹ کے پاس ايک نوے سالہ مجاہد آزادي اپني جھگی کے باہر درد و کرب سے آنسو بہاتے نظر آتے ہيں اور يہ کہتے ہيں کہ ان کالے انگرِيزوں سے وہ گورے ہی بھلے تھے جو جليان والا باغ ميں بھی اگر گولی چلاتے تو سوچتے کہ زيادہ ہلاکتیں نہ ہوں اور غير ہونے کے باوجود کچھ نہ کرتے ہوئے بھی عوام کا بہت کچھ بھلا کر جاتے تھے۔
حسن صاحب دنيا سنگين کی نوک ہو گئ ہے جس کی تيز دھار کو ہر کوئی آزمانے کی جرات نہيں کر سکتا اور جو کرتے ہيں وہ ہميشہ کے لئے آنے والے دنوں ميں تاريخ رقم کر ديا کرتے ہيں۔ گاندھی جی کی ستيہ گرہ ہو يا غلام حسين کی تا دم مرگ بھوک ہڑتال، آپ فکر نا کريں کچہ نہيں ہونے والا۔ ايوان بالا کے ايوانوں ميں، کہيں کوئی ايک تار بھی اپنی جگہ سے نہيں ہل پائے گی کہ يہ حکومتيں جو ديکھنے ميں بہت ناپائيدار دکھائی ديتی ہيں ان ميں بہت طاقت ہوتی ہے اور وہ اتنے کئے پر ڈگمگايا نہيں کرتيں۔ ان کو ہلانے کے لئے صرف ايک طاقت کی طاقتوری ہی کام آيا کرتی ہے جس کو يہ سب بھولے بيٹھے ہيں اور جس دن وہ جوش ميں آئی ان کے ہوش اُڑجائيں گے۔ پھر کوئی فیروزہ نا الماس کچھ بھی کام نہيں آئے گا بس۔
جب لاد چلے گا بنجارہ
دعا کريں کہ ہوش بر وقت آ جائے ورنہ
لازم ہے کہ ہم بھی ديکھيں گے، ہم ديکھيں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پر لکھا ہے
ہم ديکھيں گے
پھر خود ہی حساب کتاب ہو جائے گا پوچھنے کی ضرورت نہيں رہے گی
ميں کس کے ہاتھ پر اپنا لہُو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئِے ہيں دستانے
دعاگو
شاہدہ اکرم