| بلاگز | اگلا بلاگ >>

زندگی کی جھلکیاں مصوّر کی منتظر

اسد علی | 2006-11-04 ، 9:34

لندن غیر معمولی طویل گرمی کے موسم کے بعد سردی کی لپیٹ میں ہے اور ایک بار پھر میرا دھیان سرگودھا میں کِینوں کے باغات اور گجرات میں اپنے گاؤں مچھیانہ میں ابلتی ہوئی رو سے بھرے ہوئے کڑاہوں کی طرف چلا گیا جن میں گُڑ تیار کیا جاتا ہے۔
تصویر بشکریہ نیو والک میوزیم، لیسٹر سٹی میوزیم سروس، یو کے/برجمین آرٹ لائبریری۔
winter_203.jpg

میرا دِل چاہتا ہے کہ جیسے مغرب میں مصوّروں نے ہر دور میں مختلف مناظر کو تصاویر میں اتارکر آنے والے وقتوں کے لیے محفوظ کر دیا اسی طرح انُ مناظر کو بھی کینوس پر بند کیا جانا چاہیے۔

مصوری کے بارے میں میرا علم نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی میں نے اس طرف کبھی زیادہ دھیاں دیا تھا لیکن لندن میں اور ٹی وی پر مصوروں کے بارے میں دلچسپ پروگراموں کے ہوتے ہوئے اس چیز سے بچنا بہت مشکل ہے۔

مغرب میں جتنی اہمیت مصوری کو دی جاتی ہے اتنا ہی اپنے ہاں اس کے نہ ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ برطانیہ میں تو ایک تصویر کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کی شہرت کے پیش نظر اس میں پیش کیے گئے منظر کو ہی محفوظ کر لیا گیا اور آج بھی لوگ اس مقام کو دیکھنے جاتے ہیں جہاں مصوّر نے وہ تصویر بنائی تھی۔

لندن سے باہر بھی مختلف شہروں کی سیر کے دوران اب کسی آرٹ گیلری کا چکر ضرور لگاتا ہوں اور ایک آدھ تصویر ضرور ایسی ہوتی ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور جسے بار بار دیکھنے کو دِل کرتا ہے۔ مجھے لاہور سِول سیکرٹریٹ میں لگی استاد اللہ بخش کی ایک تصویر کو پہلی بار دیکھ کر بھی ایسا ہی احساس ہوا تھا جس میں پنجاب میں کنویں کے گِرد گھومتی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اِن تصاویر میں دھیمی رفتار سے گزری ہوئی زندگی دیکھ کر ٹھہراؤ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اس کام کو جاری نہیں رکھا گیا یا زیادہ وسیع پیمانے پر نہیں کیا گیا اور اگر کیا بھی گیا تو یہ کام مصوری میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ دوسروں کی دسترس سے باہر ہے یا یوں کئی کہ اسے عام نمائش کے لیے نہیں پیش کیا گیا۔ شہری زندگی کی جھلکیاں ضرور عام دکانوں اور نمائش میں دکھائی دیتی ہیں لیکن شہروں سے باہر رہنے ولوں تک پہنچنے کی کوشش کا ثبوت عام نہیں مِلتا۔

پاکستان میں ’ترقی‘ کے زیرِ اثر منظر بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور شاید آئندہ آنے والوں کے لیے تصاویر میں بھی محفوظ نہ رہے۔ اس میں وہ چرواہے شامل ہیں جو صبح گائے بھینسوں کے ساتھ گھر سے نکلتے تھے اور شام ڈھلے لوٹتے تھے۔ اس کے علاوہ سردیوں میں گاؤں کے گرد کھلی زمینوں پر گنے کے رس سے بھرے بڑے بڑے کڑاہوں میں گُڑ کا تیار کرنا اور سرگودھا کے مشہور مالٹوں کے باغات سے وابستہ مصروفیات اور رنگ مجھے دلچسپ موضوع لگتے ہیں۔

اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں طرح طرح کی جھلکیاں ہوں گی جنہیں اوجھل ہونے سے پہلے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

مصوری کی جمالیاتی اہمیت کے ساتھ یہ تاریخی ریکارڈ کا کام بھی دیتی ہے لیکن پاکستان میں ترقی کی دوڑ میں اور بعض اوقات مذہب کے نام پر اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ کہیں ہم مصوری کو(کئی دوسری چیزوں کے علاوہ) نظر انداز کر کے اپنے ماضی کو بھی گنواتو نہیں رہے؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 11:23 2006-11-04 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم اسد علی چودھری صاحب ، آداب اور التماسِ دُعا
    ميں تو سمجھتا ہوں کہ زندگی کی جھلکياں تا قيامت مُصور کی منتظر ہی رہيں گی کيونکہ مصورِ حقيقی نے اتنی تصويريں بنائی ہيں کہ دنيا کے سارے رنگ استعمال کۓ جائيں اور دنيا کے تمام مصور تمام عمر تصوير کشی کرتے رہيں پھر بھی ان جھلکيوں کو کينوس پر منتقل نہيں کرسکتے کيونکہ ہر جا ، ايک جہاں ہے ۔۔
    ميں خود بھی خطاطی اور تجريدی مصوری کا شوق رکھتا ہوں اور قلم و رنگوں کی مدد سے سکون حاصل کرنے کوشش کرتا ہوں اور جب بھی موقع ملتا ہے مصوری کی نمائشوں اور گيلريز جاتا رہتا ہوں ۔۔ يہاں آرٹ کو جتنا آگے بڑھانے کے مواقع ہيں ، پتہ نہيں کيوں پاکستان ميں نہيں اگر کچھ ہے تو صرف فيشن کے طور پر ہے اور بس ! کتنے ہی خوبصورت خطاط و مصور گمنامی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہيں ۔۔۔!
    آخر ميں بس يہ کہوں گا کہ ۔۔۔
    ہے ديد کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
    ہے ديکھنا يہی کہ نہ ديکھا کرے کوئی
    ملتمسِ دعا
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 2. 11:32 2006-11-04 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی ومکرمی اسد صاحب
    اسلام عليکم! کے بعد عرض ہے کہ آپ نے ايک مرتبہ پھر خو بصورت بلاگ لکھ ہے - اور پاکستان کے عظيم مصوروں کی ياد دلا دی ہے- آپ سے ميں اتفاق کرتا ہوں کہ آپ اس شعبہ ميں حکومتی اور نچلی سطح پر کام نہيں ہو رہا- پا کستان کے جن قدرتی مناظر کو اپنے فن پاروں ميں محفوظ کرنے والے نہ جانے کہاں چلے گئے- ميرے خيال ميں اس کی وجہ شايد يہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب شايد ان لوگوں کو بھی اس ميں دلچسپی نہيں رہی اور پھر معاش نے بھی پريشان کر ديا ہے ورنہ پاکستان ميں اعلی صلاحيتوں کے حامل مصوروں کی کمی نہيں ہے -

  • 3. 13:19 2006-11-04 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    اسلام وعليکم محترم و مکرم اسد علی چوہدری صاحب ويسے تو اور بھی دکھ ہيں زمانہ ميں محبت کے سوا پر جو پيار اور لگن آپ کی تحريروں سے جھلکتا ہے اس جيسا ساقی کے جام ميں کہاں آپ نے بجا فرمايا تصاوير اپنے حال کو مستقبل کے آنے والوں کيلۓ يہ تاريخ کا درجہ رکھتی ہيں -
    دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
    بيٹے رہيں تصور جاناں کيے ہوئے
    بدقسمتی يہ کے نام نہاد ترقی کے نام پر مادر وطن کا چہرہ جھلسے ہوئے چہرے کی صورت اختيار کرتا جا رہا ہے جس کا اولاد بھی اسے ديکھنے کا حوصلہ نہی رکھتي-
    يہاں تو وزيرستان، بلوچستان اور باجوڑ سانحہ کی تصاوير ديکھنے کو ملتی ہيں کہ ديدہ عبرت نگاہ ہو-
    ورنہ مرزا کے بقول
    بعد مرنے کے ميرے گھر سے يہ سامان نکلا
    چند تصوير بتاں اور حسينوں کے خطوط

  • 4. 15:24 2006-11-04 ,shahidaakram :

    اسدصاحب حسب معمول وطن سے دور وطن کی ،اپنو ں اپنے پياروں کی يادوں اور اُن کی خوشيوں اور خوشبوؤں ميں بسا ايک اور بلاگ پڑھ کر ميں خود بھی اُنہيں گليوں اور راستوں پر پہنچ گئ ہوں جہاں کی دُھول مٹی ميں پل کر بڑی ہوئ اور اپنی تمام تر ايسی باتوں کے باوجود جو ناگوار گُزرتی ہيں پھر بھی جان و دل سے پياری ہيں،ميں بھی آپ کے ساتھ ساتھ اُنہيں کينو کے باغوں اور مہکتی خوشبوؤں کا سفر کر رہی ہوں ليکن کيا کہيۓ کہ کُچھ ايسا ہی ہے ہم لوگ ہر کام دوسرے کے ذمے ڈال کر خوش ہونے والے لوگ ہيں اب وہ مصّوری کا شعبہ ہو،اپنی تاريخ رقم کرنے کی بات ہو يا تھيٹر ہو يہ سوچے سمجھے بغير کہ ہر کام کے لیے کافی افراد کا ہونا ضروری ہوا کرتا ہے صرف ايک رفيع پير تھيٹر الحمرا سے تھيٹر قائم نہيں رہے گا تو صادقين ہو ں يا گُل جی چند لوگ پورے کام کو ہميشہ کے لیے زندہ اور قائم و دائم نہيں رکھ سکتے بات ہو رہی تھی محفوظ کرنے اور حفاظت کی تو جيسے ہو گھر کے کُچھ اصول ہو ا کرتے ہيں اور اُن کو چلانے کے لیے ذمے دار ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح ايسے شعبوں کے ہر کام کے لیے ذمہ دار افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہماری آئندہ نسلوں تک ہمارے ورثوں کو پہنچا سکيں آج سينہ بسينہ روايات پہنچانے کی روايت بھی ختم ہو رہی ہے محفو ظ کرنا تو دور کی بات ہے
    عاليہ جی سے ايک درخواست کی تھی جو شايد بی بی سی کی روايتوں کے خلاف ہو گی اور شايد اب بھی درخور اعتنا نہيں سمجھی جائے گی آج ميری مما کی برسی ہے ،سات برس ہو گئے آج مُجھے اپنی جنّت سے دُور ہوئے وہ باتيں جو روايت کی صورت يا کہانی کے پيرائے ميں اپنی مما سے سُنی تھيں اور ايسا لگتا تھا سب کُچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے وہ لوگ اگر آجاتے محسوس ہوتا کہ ميں اُن کو پچان لوں گی کہانی کی صورت بات کہنے کا فن بھی کہيں کھو گياليکن ميں اپنی بيٹی کو آج بھی اُن يادوں کی صورت دکھا کر سوچتی ہوں کُچھ قرض ادا کر رہی ہوں ليکن کون جانے يہ سب اگلی نسل ميں مُنتقل ہو يا نہيں کيونکہ ہم لوگ گنوانے ميں ماہر ہيں اب وہ ماضی ہو يا کوئی بھی اور چيز آپ سب بہن بھائيوں سے درخواست ہے کہ ميری مما کے بُلند درجات کے لیے دعا کريں اللہ تعالٰی اُن کو کروٹ کروٹ جنّت نصيب کرے اور ہميں صبر نصيب ہو جو آکر نہيں ديتا،کُچھ دن ہو ئے کہيں پڑھا تھا اگر جگہ مل جاۓ تو مہربانی نا ملے تو بھی شکريہ
    ماں
    تيری ياد کو لفظ بناتی ہوں
    تو وہ تيرے لہجے کی خوشبو کو ترستے ہيں
    جيسے
    کوری مٹی کے کھنکھناتے برتن پر
    پانی کے چند قطرے گريں
    تو محض کھن کی آوازآتی ہے
    کوئ لہجہ آتا ہے نا کوئ لمس
    اور
    شب و روزکی محنت سے جوڑے يادوں کے وہ چند لفظ
    حقيقت کی ايک ہی ٹھوکر سے تڑخ جاتے ہيں کہ
    تو نہيں ہے
    اور جو ہستی کی تکان سے بوجھل آنکھيں
    تيری يادوں کے خواب بُننا چاہيں
    توِخاموش دھندلے سے خاکے
    تيری شبيہ کے رنگوں کو ترستے ہيں
    آنکھوں کی تھکن بڑھتی ہے
    خوابوں کی اُلجھن بڑھتی ہے
    بے صدا الفاظ
    بے شبيہہ تصويريں
    دُکھوں کی چُبھن بڑھاتی ہيں
    زيست کی تکان کو بڑھاتی ہيں
    کوئی کندھا نہيں
    کوئی آغوش نہيں
    کوئی دلاسا نہيں
    اور تيری طرف جاتا کوئی رستہ نہيں
    بس مٹی کا گھروندہ ہے
    جو تيرا نشان بناتا ہے
    مجھ کو پاس بُلاتا ہے
    بے حُکم کيسے جاؤں
    اپنے درد کيسے بتاؤں
    يادوں کے تانے بانے بنتے ہيں،
    ٹوٹتے ہيں
    تو بے بسی ہاتھ تھام ليتی ہے
    اور کہتی ہے تو نہيں ہے
    کہيں نہيں ہے
    ماں جو جنّت نشاں ہے
    مجھے پتہ ہے کہ اس ياد کو جگہ نہيں ملے گی ليکن پھر بھی درخواست دعا ہوں سب بہن بھائيوں سے اللہ آپ سب کوخوش رکھے اور جن کی جنّتيں موجود ہيں اُن کواُن کی قدر کرنا سکھائے کہ يہ بھی تو اسد صاحب ہمارا ماضی ہيں کہيں ہم ان کو گنوا تو نہيں رہے
    دعا گو
    شاہدہ اکرم

  • 5. 4:42 2006-11-05 ,اے رضا، ابوظبی :

    مُحترم اسد علی صاحب
    سلام و دُعا کے بعدگُذارش ہے کہ ’عشق نےغالب نکما کر ديا ...‘ کے مصداق ، اپنے ہاں غالبا” روزي روٹي کے چکرنےہي کسي لائق نہيں چھوڑا ... اور بقول ہمارے سيّد رضا صاحب ... خُدا اُنہيں رُوبصحت فرمائے ... جو استطاعت رکھتےتھےوہ اسےفيشن سےآگےنہ لےجا پائے- اب سبھي وان گوف توہونےسےرہے کہ کسمپُرسی کي مار سہہ کر بھي شاہ پارے بنائے چلے جاتے - رؤسا ، نوابين اور بادشاہوں کي سرپرستي کےعلاوہ مغرب ميں چرچ بھي اس کارخير ميں شريک رہا ، تب مائيکل اينجلو جيسےفنکار عظمت کي بُلنديوں کو چھُو پاۓ - ليکن مُصّوری کيا صرف کينوس اور برش تک ہي محدُود ہے؟
    پہاڑي چرواہے ہوں يا مالٹوں کے باغات - کُھلےميدانوں ميں کھولتي رو کے کڑاہے ہوں يا سرديوں کي کُہر ميں لپٹا ہُوا آپ کا لندن ... ايک تخليقی ذہن روشني کو بطور برش استعمال کرتے ہوئے يہ سب کُچھ ... غالبا’زيادہ اثرانگيز انداز ميں ... کيمرے کي آنکھ ميں بھي تو محفُوظ کر ليتا ہے -
    کبھی آزما ديکھيۓگا-
    دعاگو
    رضا

  • 6. 5:07 2006-11-05 ,فدافدا :

    ارے بھائی مصوری تخيل نگاری کا مشکل کارنامہ ہے اپ گڑ گڑ کہتے جايں منہ کب ميٹھا ہوۓ؟ جب اپنے ہاں تصور کا مادہ ہی نہيں تو مصوری کاہے کي؟جو دوايک ہيں وہ بھی کافرکہلائے گئے۔ہاں نت نئی دہشتگردی کاتخيل مسلمان کو جہادی ہوتے ہوئے ملا ہے اسکے گيت گائيں

  • 7. 18:27 2006-11-05 ,Sajjadul Hasnain :

    يقيناً ہم اپنے ماضی کو گنوا رہے ہيں- مغرب نے ہر حال ميں جينے کا ہنر سيکھا ہے اور ہم ہيں کہ ہر چيز ميں مسائل کو ڈھونڈ ليتے ہيں يا پھر مسائل کھڑے کرديتے ہيں-مغرب نے اپنی محنت شاقہ سے جينے کے رنگ بھرے اور ہم ہيں کہ رنگوں کوايک بد نما داغ بنانے ميں جٹے ہيں- چاہے ہندوستان ہو يا پاکستان يہاں قدرت نے زمين کو بے پناہ حسن سے نوازا ہے -وہاں کينوں کے باغ ہوتے ہيں اور يہاں چاول کے کھيت -وہاں گنا ماحول ميں مٹھاس گھولتا ہے اور يہاں ناريل ٹھنڈک بخشتے ہيں-وہاں چرواہے گائے بھينسوں کے ساتھ نکلتے ہيں اور يہاں کسان بيل کی مدد سے حل جوتتے نظر آتے ہيں چرواہے بکرياں چراتے ہيں -نديوں ميں بطخيں تيرتی ہيں- جب پو پھٹنے کے ساتھ آسماں ميں بگلوں کی قطاريں ديکھو تو ايسا لگتا گويا فضائيں مسکرارہی ہوں- ميں وطن سے دور نہيں ہوں اس ليے جب جی چاہتا ہے ان رنگينيوں کو سميٹنے کيليے شہر سےدور درياؤں اور پربتوں کی اوور نکل پڑتا ہوں-ان فضاؤں کو ميں نے اپنی آنکھوں ميں تو قيد کيا ہے مگر افسوس کی کينوس پر اتارنے يا کيمرے ميں ہميشہ ہميشہ کے لیے قيد کرنے کا خيال کبھی نہيں آيا -اور رہی ناقدری کی بات تو کب ہم نے اپنے فن کی فنکاروں کی اور شاہکاروں کی قدر کی ہے جو آج کے مصروف زمانے ميں کرينگے---
    شکر ہے کہ ايک صحافی نے اپنی گوناگوں مصروفيات اور خبريں اکھٹا کرنے کے تھکادينے والے کام کے باوجود اپنے اندر کے اس انسان کو زندہ رکھا ہے -جوحسن کی جماليات کي اور تخيل کي نہ صرف حس رکھتا ہے بلکہ اسکيقدربھی کرتا ہے اور اسکی جانب کھچتا چلاجاتا ہے-
    سجادالحسنين-- حيدرآباد دکن

  • 8. 21:42 2006-11-05 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    شاہدہ آنٹی، آپ کی والدہ کي ساتويں برسي کے موقع پر اظہارِ تعزيت پيش کرتا ہوں۔ ميری دعا ہے کہ خداوندکريم آپ کی والدہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ان کی روح کو شاد رکھے اور آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو صبرِ جميل عطا فرمائے ۔
    اپنی دعاؤں ميں اس خاکسار کو ياد رکھيۓ گا ۔
    ملتمسِ دعا
    سيد رضا

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔