پی آئی اے کی پیاری پیاری باتیں
میں کئی سالوں سے پی آئی اے سے بالکل پرہیز کر رہی ہوں۔ اور حال میں مجھے اپنے اس فیصلے پر بہت خوشی ہوئی ہے۔
ہماری قومی ایرلائن پر کچھ بھی ممکن ہے۔ معصوم مسافر کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
مثلاً یہ کہ پچھلے اتوار کو جب ہمارے ایک دوست ائرپورٹ پہنچے تو چیک اِن ڈیسک ’بند‘ کیا ہوا تھا۔ ان کے ٹکٹ پر پی آئی اے کے لاجواب عملے نے ٹھپا لگایا جس میں لکھ دیا کہ ’مسافر پانچ بج کر اٹھائیس منٹ پر پہنچا، لیکن چیک اِن پانچ بجے بند ہو چکا‘۔ ساتھ انہوں نے مسافر کو ڈانٹنے کی کوشش بھی کی۔
مسافر شکل سے شریف آدمی لگتے تھے لیکن در اصل وہ اعلی سرکاری افسر بھی تھے لہذا بوقت ضرورت انہوں نے اس کا رعب ڈالا۔ پی آئی اے والے انہیں ڈانٹنے کے بجائے پھر ان سے معافی مانگنے لگے۔ پتہ لگا کہ یہ تاخیر کی باتیں سب جھوٹی تھیں۔ در اصل پی آئی اے کے کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا تھا۔ کچھ مسافروں کو وہ ایئربس پر روانہ کر رہے تھے اور باقیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کر رہے تھے حالانکہ ان کی اصل ذمہ داری تھی کہ وہ مسافروں کو حالات سے آگاہ کرتے اور ان کی کچھ مدد کرتے۔
ظاہر ہے ہمارے دوست کو بھی فلائٹ پر ایک دم سے جگہ مل گئی۔ اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ سٹیشن مینیجر بھی اسی پرواز پر ہونگے۔ یہ بھی پی آئی اے کے سٹیشن منیجرز کی خاص بات ہے۔ کسی بھی کرائسِس میں وہ سٹیشن سے غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ سارا ڈرامہ دیکھ کر میرے شوہر کو آخر کار سمجھ آگیا کہ میں پی آئی اے کی ’ڈائریکٹ فلائٹ‘ لے کر پاکستان کیوں نہیں جاتی۔
ہماری قومی ایرلائن پر کچھ بھی ممکن ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خيری صاحبہ
اگر يہ پاکستان اير لائين کي پياري پياري باتيں ہيں تو پھر پی آئی اے کی تلخ باتيں کيسی ہونگيں؟
سجادالحسنين،حيدرآباد،دکن
جن مسافروں کو ہیوسٹن سے سفر کرنا تھا وہ ابھی فلایٹ کے انتظار میں ہیں حالانکہ 1400 ڈالر تک کا ٹکٹ لیا تھا۔ لاجواب لوگ،لاجاواب سروس اب مشرف ہی بہائی نئی کتاب لکھیں تو راز افشا ہوں!
ھوشيار
ميں ذاتی طور پر پی اءی اے سے کافی سفر کر چکا ہوں اور اپ سب کو خبرردار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کبھی بھی اپنا دستی سامان سٹاف کو نہ ديں اس لیے کہ وہ سامان غائب کر ديا جاتا ہے اور مسافروں کے پاس کوئی ثبوت بھی نہيں ہوتا ہے
کئی لوگ اسی طرح اپنے پيسے اور زيورات کھوچکے ہيں اور پی آئی اے ٹريفک سٹاف اس ميں ملوث معلوم ہوتا ہے
ماشااللہ حالات پورے پاکستان کے ايسے ہيں- آپ اس کا عنوان بدليں ’پاکستان کی پياری پياری باتيں‘۔
پی آئ اے کی محالفت سے بہتر ہے آپ باقي اير لاينز پر بھی نظر ڈاليں۔ ميں نے انڈين اير لاين ميں سفر کيا دوسری دفہ جوس مانگا تو جواب ’يہ رول نہیں ہے‘ اور سروس جو بتا نہیں سکتا۔ اب امارات اير لاين پہ بات کرتا ہوں يہ صرف نام اچھا ہے باقی کچھ نہ پوچھو ہميں اپنی چيز ميں کيڑے نظر آتے ہيں اير بلو وقت کی بہت پابند ہے اور آپ کو بتا دوں اير بلو کو اير لائن اف دی ايئر کا ايواڈ ملا اس کی پا بندی وقت کی وجہ سے اور پی ائی اے u.a.e ميں سب سے زيادہ اپريشن کرنے والی اير لاين ہے۔انڈيا سے صرف ايک اير لائں يہاں آتی جاتی ہے اور پاک کی تين ليٹ دنيا کی ہر ائر لاين ہوتی ہے ا س ميں بڑی بات نہیں اپنی چيز کی انسلٹ ميں پتا نہں کيا مزہ اتا ہے شايد اس ليے کہ اپنی چيز کی بلاوجہ انسلٹ کرو دنيا کے سامنے کوئی کچھ نہيں کہتا بلکہ حوشی ھوتی ھے اپ کوی راے دينے سے پہلے تيسری جگہ کھڑے ہو کر موازنہ کريں
يہ کوئ خير کی خبر نہيں کہ آپ پی آئی اے سے سفر نہيں کرتيں۔ آپ ملک کا ہی خيال کر ليں- پيسہ غيروں کی جيب ميں تو نہ ڈاليں-
ويسے - يقين مانيۓ - مجھے تو کبھی یہی مسئلہ نہيں ہوا۔ميں پاکستان سے امريکہ سفر کرتا ہوں- کبھی کبہار دير سوير تو ہو ہی جاتی ہے اتنے لمبے سفر ميں- مائنڈ کس بات کا؟
ويسے آپ نے کون سا جلدی پہنچ کر ہل چلانا ہوتا ہے!
عنبر جی اپنی قومی ائر لائن پر آپ کے اس بلاگ کو پڑھ کر مجھے کوئی حيرت اس لۓ نہيں ہوئی کہ اس وقت ہماری ائر لائن جس کرائسس سے گزر ہی ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہيں ہے ليکن اب جواب آں غزل کے طور پر کُچھ لوگ يہ بھی کہيں گے کہ ہماری کونسی لائن ٹھيک جا رہی ہے ميرا مطلب مُلک کے ہر شعبے سے ہے سو ہم ہر شعبہ آھستہ آھستہ دوسروں کے حوالے کر رہے ہيں بجلی کا محکمہ ہو يا فون کا ،شايد خيال يہ ہو گا کہ قسطوں ميں ہر چيز اگر تقسيم کی جاۓ گی تو نظروں ميں نہيں آۓ گي،ہر ايک کے پاس ہر موضوع کے لۓ کوئ نا کوئ واقعہ ہوتا ہے آپ کے بتاۓ ہوۓ واقعے کو پڑھ کر مجھے تقريباْ تين سال پہلے کا ايک واقعہ ياد آگياجب اسلام آباد اچانک ايمرجينسي جانا پڑا اور جو بھی فلائٹ ملی وہ براستہ پشاور تھی اور پوری فلائٹ ميں صرف ميں اور ميری بيٹی ہی خواتين کے نام پر تھيں اور بے چارے نا جانے کتنی مدّتوں سے گھروں سے دور ہمارے پٹھان بھائيوں نے وہ چند گھنٹے ہمارے لۓ مشکل بنا دۓ اور جب پتہ چلا کہ جہاز لينڈ کرنے والا ہے تو سکون کا سانس ليا کيونکہ ابوظہبی سے چلتے ہوۓ اور سيٹ کنفرم کرواتے ہوۓ يہی بتايا گيا تھا کہ يہ فلائٹ ابوظہبی ،پشاور اور پھر اسلام آباد ہے سو جب مسافر حضرات جا رہے تھے تو ابھی سانس پوری طرح آ بھی نہيں پايا تھا کہ اعلان ہوا ہم آپ کو اسلام آباد ائر پورٹ پر خوش آمديد کہتے ہيں ہم دونوں اتنی زور سے سيٹوں سے اُچھلے ہيں کہ ہائيں يہ کيا؟ کہ کيونکہ يہ قومي ائر لائن ہے تو ليکن ٹکٹ پر جو لکھا تھا وہ۔۔۔،بہر حال آپ کے لکھے گۓ واقعے پر جہاں ہنسی آئ وہيں دُکھ کی ايک لہر بھی رگ وپے ميں دوڑ گئ يہ سوچ کر کہ ہم لوگ کب اپنی ذمے داريوں سے صحيح طرح عہدہ برآ ہونے کے قابل ہوں گے۔ دعا ہے کہ ہم اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہونے کے جلد قابل ہو سکيں اور اس سب کے لۓ ہمّت بھی ہميں خود ہی کرنا ہو گی يہ سب کوئ اور کہيں اور سے آکر نہيں کر کے دے کر جاۓ گا ہر بات کے لۓ دوسروں کی طرف ديکھنا جب تک ہم نہيں چھوڑيں گے ہمارے ساتھ ايسا ہوتا رہے گا بار بار، سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بات ہر کام کو کسی اچھی نہج سے ناکرپانے پر ہم خود کو مجبور کيوں پاتے ہيں ؟ کون بتاۓ گا؟
دعا گو
شاہدہ اکرم
دنيا كي سب سے برى ائرلائن ہے PIA
آصف محمود صاحب ،
حيراں ہوں دل کو روؤں کہ پيٹوں جگر کو ميں !
آپ ابھی تک پی آئی اے سے سفر کرتے ہيں ؟
بابر خان ٹرانٹو ، کينيڈا)
ميراانکل 25 ساک سے ملک سے باہر ہيں اور وہ کبہی پی آئی اے پر نہیں آتے کيونک پی آئی اے کے لوگ با کمال ہيں
کبھي دوبئي ۔کراچي سيکٹر پر برٹش ائرويز کی پروازيں چلا کرتي تھي - ميں نے اُن پروازوں ميں گوری ميزبانوں کو جس توجہ اور مہربانی سے پاکستانی مزدوروں کی ديکھ بھال کرتے ديکھا ، اُس کی مثال نہيں پائي۔ دوران سفر مُسافروں کي تمام ضروريات پر نظر رکھنے کے علاوہ، يہ تمام خواتين کراچي اترنے سے قبل ان پڑھ مزدوروں کے لۓ ضروري فارم بھی پُر کر ديا کرتی تھيں جو انہيں اميگريشن کاؤنٹر پر جمع کروانا ہوتے تھے- بڑا دلچسپ منظر ہوتا تھا جب چھ چھ فُٹے معصُوم صُورت جوان، بغل ميں بيٹھي گوري سے شرماۓ ہوۓ ... بلکہ تھوڑا سا گھبراۓ ہوۓ ... اپنا نام پتہ لکھوا رہے ہوتے تھے اور وہ گوري ... اُن کي مُصيبت سے بے خبر، سر نيہوڑاۓ اپنا کام کر رہی ہوتی تھی -
دُوسری طرف ... ديگر بے نيازيوں کے علاوہ، فقط پانی کے سوال پر مُسافر کو جھاڑ تک کھاتے ہوۓ ديکھا ہے کہ، ” بيٹھ جاؤ ... آتے ہی پاني مانگنے لگتے ہو! ” ليکن اب صُورتحال کافی بہتر ہے-