| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کوئی کیا کہےگا، میں کیسا لگ رہا ہوں؟

اسد علی | 2006-11-25 ، 9:19

کوئی کیا کہے گا؟ میں کیسا لگ رہا ہوں؟ جیسی فکریں بھی کسی بیماری سے کم نہیں۔ میرے نزدیک تو یہ اچھی خاصی خوفناک بیمیاریاں ہیں جن سے انسان تمام تر ترقی کے باوجود جان
نہیں چھڑا سکا۔
vogue_magazine_covers203.jpg

انسان ہزاروں سال میں اپنے ابو جد سے بہت آگے نکل گیا ہوگا اس نے بہت کچھ ایسا دیکھا اور کیا ہوگا جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہیں تھا لیکن اچھا دکھائی دینے کا چکر جوں کا توں قائم ہے۔

میں تو اسی لیے یہ بھی نہیں مانتا کہ کوئی تعلیمات یا پیغام صرف وقت کے ساتھ پرانا ہو جاتا ہے کیونکہ انسان وہی ہے اور اس کی زندگی کے خدشات اور مسائل وہی ہیں۔ خیر یہ بات کسی اور طرف نِکل گئی۔

اچھا برا لگنے کی طرف واپس آتے ہیں۔ دونوں پیروں میں ایک جیسی جرابیں پہننے سے لے کر مناسب موقع کے لیے مناسب لباس کا چناؤ اور یہ دھیاں رکھنا کہ کونسا ڈیزائن ’اِن‘ ہے اور کونسا ’آؤٹ‘ میں چھوٹی سی زندگی کا کتنا قیمتی وقت اور دماغ ضائع ہو جاتا ہے۔ بال کالے کروانا یا نئے لگوانے کے بارے میں بھی میری یہی رائے ہے۔انسان خوامخواہ فیشن انڈسٹری کے چکر میں پھنس گیا ورنہ زندگی آسان ہے۔ نہا دھو کر بغیر استری کے کوئی بھی صاف کپڑے پہن کر دفتر ، شادی پر یا کہیں بھی جایا جا سکتاہے یا کم سے کم ہونا ایسا ہی چاہیے۔


اب تو سادہ لگنے کا بھی اچھا خاصا مہنگا کاروبار ہے۔ ایسے لباس کی بھی اچھی خاصی قیمت ہے جسے پہننے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پہننے والے کو کسی کی پرواہ نہیں۔ کوُل لگنے کا چکر سارا بھی اسی فلسفے کے گرد گھومتا ہے اور اچھا خاصا مؤثر بھی۔

میرے ایک دوست نے عید کے روز ’فیوڈل لُک‘(جاگیردارانہ روپ) اپنانے کا فیصلہ کیااور سارا دِن جاگیردار لگنے کے چکر میں کندھے پر ’درست طریقے‘ سے چادر سنبھالتے ہوئے گزر گیا۔ ان کی زندگی کا خاصا وقت ’لُکس‘ اور ’پینڈو‘ نہ لگنے کے چکر میں گزرا ہے۔

لاہور میں ایک بار ایک بزرگ نے باتوں باتوں میں بتایا کہ ان کی صحت ان کے بیٹوں سے کیوں اچھی ہے۔ انہوں نے ایک مثال دی کہ انہوں نے ساری عمر اچھے سے اچھے اور مہنگے سے مہنگے سوٹ پہنے اور اس سے انہیں خوشی ملتی تھی جبکہ ان کے مطابق ان کے بیٹے لوگوں سے مقابلے کے چکر میں ’بیمار‘ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اچھے کپڑے پہن کراور پھر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر خوشی ہوتی تھی جبکہ ان کے بیٹے لوگوں کو دکھانے کے لیے سوٹ پہنتے تھے۔ ان کے بیٹوں کو یہ فکر کھا گئی کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں کیسے لگ رہے ہیں یا کوئی کیا کہے گا۔

مجھے اپنے گاؤں میں ایک شادی یاد آ گئی۔ کچھ مرد حضرات برات میں جانے سے پہلے ہمارے گھر میں جمع ہوئے تھے۔ ان سب نے دھلے ہوئے بغیر استری کے عام سے کپڑے پہنے تھے۔ کسی نے ان کے حلیے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میں نے ایسا پہلی بار دیکھا تھا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور اچھا بھی لگا۔

موضوع کی طرف دھیان یوں گیا کہ لندن میں کافی عرصہ قبل یونیورسٹی میں ایک لڑکی کو یہ بات بہت اچھی لگی تھی کہ میں نے کبھی اس کے لباس اور حلیے یا شکل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا اور اب اسی یونیورسٹی میں ایک اور دوست ہے جس کو فکر رہتی ہے کہ کوئی کیا کہے گا، لوگوں کو بات کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے اور موقع کی مناسبت سے تیار ہونا چاہیے اور اس موضوع پر خاصی بحث ہوتی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 11:01 2006-11-25 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم اسد علی چودھری صاحب ، صبح بخير وسلام
    آپ کا جاگتا اور جگاتا ہوا بلاگ پڑھا تو يہ شعر ياد آگيا ۔۔
    ميں اس اضطراب کا عادی ہوں اس قدر صہبا
    سکوں ہو تو طبيعت ميری بحال نہ ہو
    ظاہري طور اچھا لگنے کی دوڑ ميں انسان بہت تيز دوڑنے کی کوشش ميں اپنے اندر کے انسان کو خوبصورت بنانے سے غافل ہوگيا ہے ۔۔
    لباس صاف ستھرا اور پاک ہونا ضروری ہے اور فيشن کے حساب سے ہو ، ڈيزائنر ہو يہ انسان کی حيثيت اور شوق اور ذوق پر منحصر ہے مگر ميں سمجھتا ہو کہ ذوق سب سے ضروری بات ہے وگر نہ ايک مہنگا لباس آپ کی شخصيت کے حوالے سے درست نہيں تو پھر بے ڈھنگا ہی نظر آتا ہے ۔۔ دوسرے محض بھيڑ چال کا شکار ہوکر اچھا نظر آنے کی فکر بھی انسان کو احساسِ کمتری ميں مبتلا کر سکتی ہے ۔
    بس کوشش يہ ہونی چاہيۓ کہ ٰ ٰ ہجومِ دوستاں ٰ ٰ ميں گم ہونے کے بجائے اپنی شناخت اور شخصيت کو ظاہری اور باطنی لحاظ سے صاف ، ستھرا رکھا جائے تاکہ سکونِ قلب حاصل ہو ۔
    نکل آيا ہوں ہجومِ دوستاں سے
    سکونِ قلب کی حد ہے يہاں سے
    اپنا اور اپنے دوستوں کا خيال رکھيۓ گا ۔
    نياز مند
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 2. 11:17 2006-11-25 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی و مکری اسد بھائی
    اسلام عليکم ! مجھے آپ کا بلاگ بہت پسند آيا - آپ نے کافی عرصے کے بعد ايک منفرد بلاگ لکھا ہے - حقيقت يہ ہے کہ اصل چيز
    انسان کا اپنا من ہوتا ہے - جو چيز انسان کے من کو بھا جائے وہ ٹھيک ہوتی ہے -اور زمانے کی فکر نہيں کرنی چاہيے- ہاں يہ لباس ظاہری نمودونمائش اور حليے کی کوئی اہميت نہيں ہے - ہاں البتہ کردارکو ہميشہ اہميت دينی چاہيے - ايک شخص ايسا ہے کہ جو بظاہر وضع قطع ميں انتہائی سادہ ہے مگر اعلی تعليم يافتہ ہے - اور کردار ميں بھی اعلی ہے - تو اس کی اہميت ذيادہ ہونی چاہيے - ميں آپ کی اس بات 100 فيصد اتفاق کروں گا کہ ہم نے اپنے آپ کو خود ہی مشکل ميں ڈال رکھا ہے -مثلا کپڑے ايسے ہونے چاہيے ، ميچنگ ہونی چاہيے داڑھی ميں اکا دکا بال سفيد ہيں تو کيوں ہيں - سر کے بال کم ہيں يا سخت ہيں - دراصل ان باتوں سے ہم ايک طرح سے اللہ تعالی کی نا شکری بھی کرتے ہيں - وہ ذات عظيم ہے جس حال ميں بھی رکھے ہميں خوش ہونا چاہيے -

  • 3. 12:32 2006-11-25 ,Waqas Ahemd :

    اسی چکر میں میرے سارے بال اُڑ گئے۔

  • 4. 13:06 2006-11-25 ,سونيا احمد بلوچ :

    انسان کی نيچر اس کے ارد گرد کے ماحول سے بنتی ہے- بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک وہ کچھ باتيں ارادی اور کچھ غير ارادی طور پر adopt کرتا ہے- جہاں تک دوسروں کے سامنے اچھا يا برا لگنے کی فکرکا تعلق ہے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہيں۔ سب سے بنيادی وجہ معاشرے کا وہ ردِ عمل ہے جو کسی کے اچھا يا برا لگنے پر سامنے آتا ہے -اور ايک وجہ خود کو دوسروں سے کم تر سمجھنا ہے جس کے پيشِ نظر انسان خود کو اور زيادہ خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے- جہاں تک ميرا ذاتی تجربہ ہے تو چند سال پہلے جب ميں پاکستان ميں تھی تو کافی حد اپنے لباس اور بننے سنوربے پر توجہ ديتی تھی کيونکہ وہاں لوگوں کی نظر ميں ايک مقام بنانے کے کيے يہ سب ضروری تھا ليکن اب آسٹريليا آ کر يہ باتيں بہت پيچھے رہ گئی ہيں۔يہاں آ کر ميں نے زندگی کی حقيقت کو سمجھا ہے۔

  • 5. 14:55 2006-11-25 ,ابرار سيد :

    کہاوت ہے کہ ’کھاؤ من بھاوت اور پہنو جگ بھاوت‘- کچھ تو سچائی ہوگی اس بات ميں- آپ دوسروں کو کيسے لگتے ہيں اس کی ضرور ايک حد تک اہميت ہے- کھانا کيسا ہے اس کا نتيجہ آپ نکال سکتے ہيں ليکن لباس آپ کو کيسا لگ رہا ہے يہ دوسروں کی نظر ہی بتا سکتی ہے-
    تدھ گلابی چنی رنگی تاں ميں گلابی پگ
    دو دلاں ناں اتنا ملنا تک نہ سکيا جگ-
    تو يہ جگ ہی ہے جو چنی اور پگ کے بارے رائے ديتا ہے- آپ خود نہيں- لہذا اس کی پسند کی ايک اہميت ہے ليکن ايک حد تک-

  • 6. 15:06 2006-11-25 ,Mian Asif Mahmood, MD - U.S.A :

    محترم اسد علی چوہدری صاحب
    اسلام وعليکم
    لباس کی بجائے ملبوس کی فکر وسوچ اس کے کردار تعين کرتے ہيں- اچھی خوراک اور اچھی سوسائٹی اچھے ذھن کی پرورش ميں اہم کردار ادا کرتے ہيں۔.
    مگر جب انسان فکر معاش سے آزاد ہوتا ہے تو پھر مال و زر کی سوسائٹی ميں اپنے لباس جس کا بنيادی مقصد تو اس کو موسم حشرات الارض سے محفوظ رکھنا ہوتا کی قيمت بڑھانے ميں لگ جاتا ہے اور جس کی وجہ سے معاشی طور پر غريب طبقتات مزيد دباؤ کا شکار ہو جاتے ہيں.
    امريکہ کے بڑے بڑے ملبوسات کے سٹورز پہلے گھسی ہوئی يا پھٹی ہوئی جين کی پتلونيں قميضيں تو فروخت کرتی ہی ہيں مہنگے اونی اور چمڑے کے لباس جوخاص طور پر تيار شدہ ہوتے ہيں بيچتے ہيں اور نوجوان طبقہ ان مہنگے مگر ہمارے ہاں کے ملنگوں اور منشيات کے عاديوں والا لباس پہنتے ہيں۔ اگر ڈرس شرٹ اور پتلون 40 سے 50 ڈالرز کی آتی ہے تو يہ کم از کم 200 کے آتے ہيں-
    نوجوان مرد و زن اپنے کپڑوں کو اس انداز سے پہنتے ہيں کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے الٹ لباس کے اندر چھپے جسم کی جھلکياں ملتی رہيں اور ميں کہ مہو حيرت ہوں کہ دنيا کيا سے کيا ہو جائے گی سوچتا رہتا ہوں يہ کيپيٹلسٹ نظام ہميں کہاں لے جائے گا
    دعا گو - آصف محمود ميری لينڈ امريکہ

  • 7. 15:41 2006-11-25 ,جاويد گوندل :

    محترم چوہدری صاحب!
    حيرت ہوتی ہے کہ لباس جيسے مسئلے کو کس آسانی سے چودہ سو سال پہلے ہمارے دين ، اسلام نے ہميشہ کی بنياد پہ حل کرديا تھا- لباس کی تين خصوصيات کو لباس کی بنياد قرار ديا گيا ہے اوّل۔ لباس جسم کو سردی گرمی سے بچائے، دوئم۔ لباس سے جسم ڈھکے اور شرم حيا کا تاثر پيدا ہو اور سوئم۔ لباس ديدہ زيب ہو نا صرف اپنے ليے بلکہ معاشرے کے باقی افراد کے ليے بھي اور يہ خصوصيات مرد عورت دونوں کے ليے ہيں۔ اور ميری ذاتی رائے ميں لباس کي بناوٹ ، ساخت ، رنگت ، برانڈ اور لباس کا مقصد(شادی بياہ ، تقريب ، جاب يا روز مرہ کے فرائض) ہر ايک کا اپنا اپنا انتخاب ہوتا ہے اور ہر انسان کے مالی حالات لباس کے انتخاب پہ ضرور اثر انداز ہوتے ہيں اور جو لوگ سادگی کو اشعار بناتے ہيں وہ زيادہ سکون سے جيتے ہيں اور رفتہ رفتہ انکے جاننے والے بھی انہيں سادہ ديکھنے کےعادی ہوجاتے ہيں يہی سادگی ايک دن سادہ انسان کی خصوصيت بننے سے اسکی تعريف کا سبب بنتی ہے-
    ضروری نہيں کہ ہر انسان کو اللہ نے حسن کی ہر خصوصيت عطا کی ہو ايسے لوگوں کو اپنا اندر ٹٹولنا چاہيے خدا نے ضرور کچھ اسی خوبيوں سے نواز رکھا ہوگا جوحسين لوگوں کے پاس نہيں ہوں اس ليے احساسِ کمتری کا شکار ہوئے بغير اچھا لباس اپنے دل کو خوش رکھنے کے ليے ضرور پہننا چاہئيے اوررومال، کنگھی ، پٹی ، شيشہ ، عطر ،باڈی اسپرے ، پرفيومز وغيرہ کہ اس وغيرہ کا ايک لمبا سلسلہ ہےاور خصوصاً خواتين کے ليے توايک ختم نا ہونے والے لوازات موجود ہيں يہ لوازمات بھی اپنی حيثيت اور موقع کی مناسبت سے استعمال کرنے ميں کوئی مضائقہ نہيں - يہ تو ظاہری شخصيت کی بات ہوئی اور باطنی شخصيت کا اثر بھی انسان کی ظاہری شخصيت پہ پڑتا ہے اچھی سوچيں ، عمدہ اخلاق ، اعليٰ ظرفی اور عدم احساسِ کمتری يہ سب مل جل کر انسانی شخصيت کو چار چاند لگاتی ہيں -
    جاويد گوندل، بآرسيلونا - اسپين

  • 8. 15:43 2006-11-25 ,Mian Asif Mahmood, MD - U.S.A :

    برادرم اسد علی چودھری صاحب سلام مسنون
    مقابلہ کی اس دنيا ميں مال و زر کی دوڑ تو شروع سے ہی لگی ہے - سرمايہ دارانہ نظام کے مظبوط ہونے اور مذھبي ربط کي کمزوری نے اس کی رفتار بڑھائی ہے- اب مقابلہ جسم ڈھانپنے کی بجائے اس کی نمائش کا ہوتا ہے جہاں آپ (يورپ) رہتے ہيں اور امريکہ ميں اس برفانی سرديوں ميں زن و مرد شاپنگ سيزن ميں جامے کہ زير ِ جامے زيادہ پہنے اپنی جوانی اور گئی جوانی دکھانے کی دوڑ ميں لگے ہيں - محترم ابرار سيد صاحب آپ نے ٹھيک فرمايا پہنو جگ بھتا کھاؤ من بھاتا پر وہ بھی ٹھيک ہی ہے کہ’ کلا وِگڑے تے سمجھائے وہڑہ وہڑہ وگڑے تے سمجھائے کہڑہ - ترجمہ
    اگر اکيلا شخص بگرے تو تما اہل محلہ(صحن) اسے سمجھاتے ہيں مگر اگر تمام اہل محلہ ہی بگڑ جائے تو کون سمجھائے - شکريہ

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔