رب کا شکر ادا کر بھائی
’رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی‘
جمعرات کو امریکہ میں تھینکس گِونگ ڈے یا یوم تشکر تھا جسے سارا امریکہ ایک بڑی چھٹی یا بڑے دن کے طور پر مناتا ہے، سوائے میرے دوست حیدر رضوی اور کچھ نیٹو امریکی ایکٹوسٹوں کے۔ یہاں تک کہ میرے جیسا نیم دہریہ نیم ناستک بھی اس دن، جو بھی ہے، ایک چھپی ہوئی انرجی، یا کوئی اور غیر مرئی چیز، یا ارتقا کا چکر، یا سجن کا سایہ ، بہرحال اسکا شکریہ ضرور ادا کرتا ہے۔
تھینکس گِونگ کے دن اس بچارے پرندے کی بن آتی ہے جسے ٹرکی کہتے ہیں۔ میں نے پہلی بار ان پرندوں کا جوڑا اپنے گاؤں میں دیکھا تھا جسے میرے گاؤں کے لوگ امریکی مرغی کہا کرتے۔ تھینکس گِونگ کے دن شمالی امریکہ میں کوئی لاکھوں کروڑوں ٹرکیاں پکائی جاتی ہونگی خدا کے شکرانے کے طور پر۔ لوگ اپنے گھروں پر ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بڑا کھانا کھلاتے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں اور عزیزوں کو دور دراز کا سفر کرکے ملنے آتے ہیں۔ ہر سال نومبر کی چوتھی جعمرات کو منایا جانے والا یہ دن ایک طرح کی شروعات ہوتی ہے سردیوں اور چھٹیوں کے موسم کی۔ پھر کرسمس اور پھر نیا سال۔
ہم (میں، میری بیوی اور بیٹا) بھی کل ایک ہماری افریقی امریکی دوست فیملی کے ہاں تھینکس گِونگ پر مدعو تھے۔ میری میزبان کی ماں، دادی اور مارٹن لوتھر کنگ کے بڑی تصاویر کے نیچے ٹرکی، کرین بیری، میٹھے آلوؤں، ایپل پائيز اورابلی ہوئي سبزیوں سے سجی کھانے کی میز پر ہم نے تھینکس گِونگ لنچ کیا۔ ہماری میزبان کا سابق شوہر بھی اپنی والدہ سمیت مدعو تھا۔ ’یہ لوگ کہاں سے ہیں؟‘
’پاکستان سے۔‘
اب تو ویجیٹیرین یا سبزی خور لوگوں کیلیے ’ویجی ٹرکی‘ اور مسلمانوں کیلیے ’حلال ٹرکی‘ بھی دستیاب ہوتی ہے۔ آپ اعتبار کریں یا نہ، صدر بش نے بھی وائیٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں اس ٹرکی کی جان بخشی کا آن لائین حکم صادر کیا جس پر انکے کتے نے بھونکا تھا۔ پچھلے سال ایک ٹرکی نے انکو چونچ ماری تھی!
کل میرے پڑوس کے ہوم لیس بھی کہیں نظر نہیں آئے کیونکہ وہ بھی کہیں نہ کہیں مدعو تھے۔ آخری بار میں نے انکو چرچ کی دیوار کے سائے میں بیٹھے بيئر پیتے دیکھا تھا!
تبصرےتبصرہ کریں
حسن مجتبٰی صاحب آج آپ نے مجھے ميرے اسکول کی ياد دلادی۔
دوسری جماعت کے نصاب ميں يہ نظم شامل تھی اور پتہ نہيں کيوں اردو کے ہمارے استاد کو يہ نظم مار مار کر ازبر کرانے کا جنون تھا۔ تھينکس گيونگ ڈے کے موقع کی شروعات آپ نے گائے سے کيوں کی۔ ويسے آپ نے يہ نہيں بتايا کہ کیا ٹرکی تيتر کی طرح لزيذ ہوتی ہے۔ ميں نے بھی ديکھا تھا ٹی وی پہ کہ بش کس پيار سے ٹرکی کی جان بخشی کر رہے تھے۔ حيرت تو اس بات پر ہے کہ بش کو ٹرکی پر تو رحم آتا ہے مگر ان مسلمانوں پر نہيں جو افغانستان ميں عراق ميں ابو غريب ميں گوانتنامو جيل ميں اور نہ جانے کہاں کہاں اگر زندہ ہيں تو کتوں سے بد تر حالت ميں اور اگر مرگئے ہيں تو اس کتے کی طرح جو کسی قومی شاہرہ پر اچانک ٹرک کے نيچے آجاتا ہے اور راہ چلتے مسافر ايک اچٹتی سی نگاہ ڈال کر ايسے گزر جاتے ہيں جيسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
بہرحال آپ کو بھی يوم تشکر مبارک۔
آپ کی اس حقيقت پسندی کہ آپ اپنے آپ کو کم ازکم نيم دھريا يا نيم ناستک تو قبول کرتے ہيں، ورنہ يہاں پر تو بےعمل لوگ بھی اپنے آپ کو ايکسڑيم مذہبی ہی کھلواتے ہیں۔ آپ کی حقيقت پسندی پڑھ کر خوشی ہوئی۔
محترم حسن مجتبٰی صاحب سلام اور يومِ تشکر کی مبارکباد۔ اچھا ہے کہ سال کا کوئی دن تو اہليانِ امريکہ يومِ تشکر کے طور پر مناتے ہيں ورنہ شايد عوام تو نہيں مگر امريکی حکومتيں تو پورے سال دوسروں کے بارے ميں شکوہ شکايتيں کرتے ہی گزار ديتی ہيں۔ رب کا شکر نہ صرف گائے بنانے پر کرنا چاہيئے بلکہ ہر ساعت ہی اگر شکر ميں گزرے تو نا کافی ہے۔ دعا ہے آپ اسی طرح يومِ تشکر پر ٹرکي کے پرتکلف لنچ سے لطف اندوز ہوتے رہيں۔
ہاں جی اچھا کيا يوم شکر منايا۔ کينيڈا ميں اکتوبر سولہ کو منايا جاتا ہے۔ يہ ثمر کے بعد فال ميں کھيت کھليان سب اکٹھی کرنے کے بعد ساری نعمتوں کے لئے شکريہ اور سرديوں کی تياری ہوتی ہے۔ آپ نے تو اپنے دوست رضوی کا بھی ذکر کيا۔ اميد ہے دونوں کا سرمہ خوب گزرے گا۔ اگلے بلاگ ميں ان کی بھی تصوير لگائيں تا کہ لوگ جوڑی سلامت رہے کہہ پائيں۔
آپ نے تھینک گیونگ ڈے پر ٹرکی اور اس کے ساتھ دوسری لوازمات کا ذکر کر کے بہت سے لوگوں کو ایجوکیٹ کر دیا ہے۔ ہوم لیس بندوں کو تو یہ ایسے کھلاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں رمضان میں افطاری کھلائی جاتی ہے۔ زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر یا وہ جگہ بتا دے جہاں خدا نہ ہو۔ وہ اگر چرچ کی دیوار کے دوسری طرف بھی پی لیتے تو اسی خدا نے دیکھنا تھا جس نے ممنوع کرار دیا ہے۔ آپ اچھا لکھتے ہیں، اس واسطے میں کہوں گا لگے رہو حسن مجتبٰی بھائی۔
پاکستانی عوام يوم تشکر اپنے انداز ميں مناتے ہيں۔ ابھی اگر آج ہی موجودہ حکومت چھٹی کر جائے تو کل ہی يوم تشکر منانے والوں کی تصاوير آجائيں گی اور رات ميں وہ بھی ہوں گے جو اس حکومت کا حصہ تھے۔ مٹھائياں تقسيم کی جائيں گی، نئے اليکشن ہوں گے، پھر اس حکومت کو چلتا کرنے کيليئے پھر ايک اور يوم تشکر منايا جائے گا اور يوں اسی يوم تشکر ميں ہم نے 56 سال گزار ديے، مگر ہم کچھ بھی نہ کر سکے۔ ويسے آپ کا يوم تشکر منانے کا انداز عجيب لگا۔
حکومت اور عوام يہ بات خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان ميں يوم تشکر نہ منايا ہے کبھی اور نہ ہی منايا جائے گا کيونکہ کيا امير کيا غريب سب ہی ناشکرے ہیں يہاں۔