| بلاگز | اگلا بلاگ >>

وہ جو ’نیٹ‘ میں آ گئے

عارف شمیم | 2006-12-13 ، 5:05

حال ہی میں صحافیوں کے متعلق ایک رپورٹ نظر سے گزری۔ اسے پڑھ کر ڈر بھی لگا اور خوشی بھی ہوئی۔ ڈر یقیناً ’تھانے جانے‘ کا تھا اور خوشی کہ چلو کوئی تو ایسا کام کر رہے ہیں جس سے کوئی یا کسی کو چاہے رتی برابر ہی ہو، فرق پڑھتا ہے۔
journalist150.jpg

یہ رپورٹ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے تنظیم (یعنی سی پی جے) نے شائع کی تھی اور اسے پڑھ کر جو پہلی سوچ آئی وہ یہ تھی کہ فوراً کوئی دوسرا کام تلاش کر لیا جائے۔

ہو سکتا ہے میرے کئی ’چاہنے‘ والے دعا کر رہے ہوں کہ میں اپنی سوچ پر قائم رہوں۔ لیکن میرے ہر ارادے کی طرح یہ بھی بس ’ویسی‘ ہی سوچ تھی۔ اور میں ایک مرتبہ پھر اپنا بلاگ لکھ رہا ہوں۔

رپورٹ جو کہ سی پی جے کے سروے پر مبنی تھی کچھ اس طرح تھی کہ دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے بھیجے گئے صحافیوں کی تعداد میں اس سال بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سال پہلی دسمبر تک پوری دنیا میں ایک سو چونتیس صحافی جیل کے ’اندر‘ تھے۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ پکڑے گئے تین میں سے ایک صحافی یا تو انٹرنیٹ بلاگر ہے، آن لائن ایڈیٹر ہے یا ویب جرنلزم کا کوئی رپورٹر۔ سروے کے مطابق اس سال انچاس انٹرنیٹ صحافی جیل جا چکے ہیں اور جیسے جیسے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے جریدوں یا اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جیل جانے والے صحافیوں میں بھی اسی مقدار سے اضافہ ہوا ہے۔

صحافیوں کو جیل ڈالنے میں چین، کیوبا، اریٹریا اور ایتھوپیا امتیازی نمبروں سے سب سے آگے ہیں۔ (پاکستان میں بس اٹھاتے ہیں)۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف ان صحافیوں کے متعلق ہے جو کہ پکڑے گئے ہیں جو لاپتہ یا ’غائب‘ ہیں یا قتل ہو چکے ہیں وہ اس میں شامل نہیں ہیں۔ ویسے سی پی جے کے مطابق سن دو ہزار چھ میں ابھی تک باون صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔

اور ان بیچارے صحافیوں پر الزامات: ملک کے مفادات میں کام کرنا، ملکی راز افشا کرنا، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور کسی کی جائداد کو نقصان پہنچانے سے لے کر منشیات یعنی چرس رکھنے تک کے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو مذہبی منافرت پھیلانے اور سینسرشپ کے قوانین کی پابندی نہ کرنے جیسے جرائم میں بھی سزائیں دی گئی ہیں۔

یار چرس تک تو چلو ٹھیک ہے مگر ملک کی جاری و ساری برائیوں کی نشاندہی کرنے پر اگر انعام نہیں تو کم از کم سزا تو نہیں ملنی چاہیئے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 7:12 2006-12-13 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی ومکرمی عارف شميم صاحب
    اسلام عليکم ! مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ نے صحافيوں کے مسائل کو عالمگير ميڈيا پر اٹھا کر اپنے حقيقی صحافی ہونے کا حق ادا کيا۔ اس وقت فوجی حکومت کی موجودگی ميں صحافت کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اگر ان فوجيوں کو حال اور ماضی کی غلطيوں کی ياد دہانی کرائے جائے تو گناہ ہے اور اس کی کڑی سزا ہے ۔ اگر عدليہ ، انتظاميہ کے خلاف لکھا جائے تو بھی انتقامی کارروائی کا خدشہ ہے۔ اور يہ جاگير دار وڈيرے ، ملک ، اور چودھری کہاں اپنے خلاف لکھنے ديتے ہيں۔ مگر آپ نے ٹھيک لکھا کہ پھر بھی ايسے لوگ ہيں جو کہ ان فرعوني طاقتوں سے ٹکر لے ليتے ہيں اور اپنا نام امر کر جاتے ہيں۔

  • 2. 7:51 2006-12-13 ,منير چوہدري- واشنگٹن :

    بس قلم کی تلوار کے ساتھ لڑ تے رہيے۔ بالآخر قلم کی فتح ہو گي۔ صرف خدا کی امان چاہيے۔-

  • 3. 10:08 2006-12-13 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم عارف شميم صاحب ، خدا آپ کو سلامت رکھے ۔
    بہت سچا بلاگ لکھا آپ نے۔ کيا کيا جائے کہ سچ کہنے والوں کو قربانی تو دينی ہی پڑتی ہے وہ ايک فرد کی ہو ،افراد کی ہو يا پھر گھر کی ہو۔ يہ جنگ تو ہميشہ سے اور شايد ہميشہ ہی رہے مگر يہ بھي اٹل ہے کہ سچوں کو ہی فتح مندی نصيب ہوتی ہے چاہے بظاہر وہ شکست نظر آئے اور ويسے بھی سچوں کا مسئلہ فتح و شکست نہيں ہوتا ۔ان کا تو يہی پيغام ہوتا ہے کہ ۔۔
    مصلحت حرفِ صداقت پہ نہ آنے دينا
    تم اندھيروں ميں چھپا کر نہ اجالے رکھنا
    اس قبيلے سے ہوں جس کا يہ دستور ہے سيف
    قتل گاہوں ميں علم اپنے سنبھالے رکھنا
    دعا ہے خدا آپ کو اور تمام سچ کہنے اور لکھنے والوں کو اپنی پناہِ خاص ميں رکھے۔

  • 4. 10:33 2006-12-13 ,اظہر الحق :

    جب بی بی سی خود پر تنقید برداشت نہیں کر سکتا اور اپنی ’پالیسی‘ پر سختی سے پابند ہے اور تبصرہ کرنے والے کو گرفتار یا ’اٹھا‘ نہیں سکتا مگر تبصرہ شائع نہیں کرتا تو پھر حکومتوں پر تنقید چہ معنی؟

  • 5. 11:18 2006-12-13 ,Sajjadul Hasnain :

    شميم صاحب يہ ايک ڈراؤنا خواب تو نہيں ہے۔ اگر نہيں ہے تو پھر آپ نے آج يہ بلاگ کيوں لکھا۔ کيا آپ کو بھی حوالات کی ہوا کھانی ہے؟ ٹھيک ہے مگر جيل کو گھر کا ديوان خانہ مت سمجھيے گا۔ ميں نے ايسا کيوں کہا کيوں کہ رپورٹ ميں جو اعداد و شمار بتائے گئے ہيں وہ آن لائن جرنلسٹوں کی زيادہ نشاندہی کرتے ہيں اور آپ بھی ماشاءاللہ سے اس رپورٹ کو افشا ايک بلاگ ہی کے ذريعہ کر رہے ہيں۔ آپ کے ماضی کے بلاگ شاہد ہيں کہ آپ کو تو ضرور جانا ہوگا۔ ويسے بھی آپ انعام سے زيادہ سزا ہی کے متمنی نظرآتے ہيں۔ باوجود اسکے ہم نہيں چاہينگے کہ آپ جرنيلوں کے ہتھے چڑھيں۔ اسی لیے يہ نہيں کہينگے کہ لگے رہو۔ مگر کيا يہ آپ کا انداز خير خواہوں کے مشوروں کو ماننے کی نفی نہيں کرتا۔ اگر کرتا ہے تو بہت اچھا کرتا ہے-ارے يہ کيا بات ہوئی خير خواہی بھی اور انداز جارحانہ کی تعريف بھی۔ کيا کريں آپ کے بلاگوں کو چاٹنے کے عادی جو ہوگئے ہيں۔ اب تو يہی کہا جاسکتا ہے کہ چھٹتی نہيں ہے يہ کافر منہ کو لگی ہوئي۔
    خير انديش، سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن

  • 6. 12:02 2006-12-13 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    برارم عاف شميم صاحب خدا آپکا حافظ وناصر ہو۔ با ضمير صحافيوں کے دم سے انسان اس دور ميں حالات سے آگاہی حاصل کرتا ہے ورنہ تو دنيا کی سب سے بڑی جمہوريت امريکہ نے پيٹرياٹ بل منظور کر کے اپنے متعلق تمام خوش فہميوں سے پردہ اٹھا ديا ہے۔ آپ جيسے روشن ضمير لوگوں کے بارے جالب نے فرمايا تھا-
    ايک ہميں ياد ہے حرف بغاوت لکھنا
    اور سبھی بھول گئے حرف صداقت لکھنا
    ہماری حکومت آزادی صحافت کے دعٰوے کرتی ہے مگر صحافی غائب ہوتے جا رہے ہي، لاشيں ملتي ہيں اور دھمکياں بھی
    حکمرانوں سے کہنا ہے
    اتنا نہ بڑھا پاکی داماں کی حکائت
    دامن کو ذرا ديکھ ذرا بند قبا ديکھ

  • 7. 15:19 2006-12-13 ,ابرار سيد :

    کيوں جی صرف چرس تک کيوں ٹھيک ہے۔ کيا چرس پی کر آج تک کسی نے کسی صحافی کو قتل کيا ہے يا اس کو نيٹ سے ’نيٹ‘ ميں لايا ہے- اگر بات نشہ کی ہے تو پھر کيوں نہ آمروں کے اقتدار کو بھی منشيات ميں شامل کيا جائے کيوں کہ جو نشہ ان تانہ شاہوں کو اقتدار سے چڑھتا ہے وہ چرس ميں بھلا کہاں۔

  • 8. 17:07 2006-12-13 ,sharif hamza :

    عارف شميم صاحب صحافت ايک مشکل ترين کام ہے۔ اگر صحافی با ضمير ہو۔

  • 9. 22:19 2006-12-13 ,فواد :

    او بھائی چر س مے پکڑنا کيوں ٹھيک ہے۔ جہاں لوگوں کو قتل، ر يپ کرتے ہیں اور پکڑے نہيں جاتے وہاں چر س پينا جرم نہيں۔ اپنی جيب سے پيتے ہيں، سرکار تھوڑا ديتی ہے۔ اور بھائی يہاں صحافی بھي چرس کے بغير نہيں چلتا۔

  • 10. 5:13 2006-12-14 ,Rana Suhail :

    آواز دوستو کوئی آواز دوستو۔ جنرلزم جنرلوں کا پیشہ نہیں ہے۔

  • 11. 7:16 2006-12-14 ,اے رضا ، ابوظبی :

    کچھ لوگوں نےسچ بول کے ہي رہنا ہے ، خواہ کسی بھاؤ پڑے۔
    دُوسری طرف انواع الاقسام کےکالم نگاروں کی فوج ظفرموج کے ذريعے حکومت اور اپوزيشن سميت ہر کسی کو خوش رکھتا چلا آرہا ملک کا ’سب سے زيادہ کثيرالاشاعت‘ اردو ميڈيا بھي ہے۔ پھر آپ کو معين قريشی کی شائع کردہ وہ فہرست تو ياد ہي ہوگي جس ميں چند ايک کو چھوڑ کر ، ملک کے تقريبا” ہر جغادری اور بڑے سے بڑے ناصح ايڈيٹر اور کالم نگار کا نام شامل تھا جن کے زير استعمال دو دو ، تين تين ہونڈا ایکارڈ اور لينڈ کروزر گاڑياں، بيرونی دورے اور پرتعيش طرز زندگی ۔۔۔ سب خفيہ اداروں کی مرہون منت تھا۔ وہی سب چہرے آج بھی پاکستانی صحافت ميں ديکھے جا سکتے ہيں کہ ' آج مرے ، کل دُوسرا دن ' کے اس دور ميں ، چند دن کے شوروغوفا کے بعد ... يہ سب کسےياد رہتا ہے ؟

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔