| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اف وہ بچپن کا ہریسہ

نعیمہ احمد مہجور | 2006-12-14 ، 1:03

ہمیں سردی سے ڈر نہیں لگتا کیونکہ ہم تو سرد ماحول میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے مگر کہاں وہ ہماری سردی اور کہاں یہ مغرب کی سردی۔

دیسی سردی سے بچنے کے لۓ ہم پھرن پہنا کرتے اور پھرن کے نیچے دھیمی آنچ والی کانگڑی رکھتے ۔کئ مرتبہ کانگڑی کے اندرر ڈل کے تازہ سنگھاڑے رکھتے اور دن بھر سینک سینک کے کھایا کرتے۔
سردیوں میں ہریسہ ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور منگوایا جاتا اور اس کا لطف ہی اور تھا ۔باہر برف کی چادر میں لپٹی وادی اور اندر ہم سب بچے ذرا سی دھوپ نکلنے کا انتظار تاکہ برف کے بھوت بناکر ایک دوسرے کو ڈراسکے ۔منفی درجہ حرارت میں رہنے کا کوئی غم نہیں ۔ ان دنوں سردی سے بچنے کا کوئئ خاطر خواہ انتظام بھی نہیں ہوتا تھا
مغرب کی سردی سے بچنے کا بھر پور انتظام موجود ہے گیس ہیٹر ریڈیاٹر کیا کیا نہیں۔
بس میں ریل میں جہاز میں گرمی کا خوب انتظام ۔
اور کھانے کے لۓ انڈین کری پتزا بریانی ٹیک اوے کسی بھی وقت آرڈر کر سکتیں ہیں مگر وہ ہریسہ نہیں ملتا جسکو چکھنے کے لۓ ہم سب بچے جمع ہوکر ماں کا گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے کہ وہ کچن سے کب فارغ ہوکر ہمیں گرم گرم ہریسہ کھلادے ۔
کاش وہ ایک پل مجھے واپس مل جاۓ

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:19 2006-12-14 ,Naveed :

    بس وہی خیال کہ اپنے دیس کا سب کچھ اچھا

  • 2. 17:38 2006-12-14 ,Mian Asif Mahmood :

    نعيمہ بہن اسلام ُ عليکم دل ڈھونڈتا ہے ھھر وہی فرصت کے رات دن بھيٹے رہيں تصور جاناں کيے ہوۓ- ماں کے ہاتھوں کی تو سوکھی بھی بھلی لگتی ہے آپ تو ہريسہ کھاتی رہی ہيں - گوشتابہ نرگسی کوفتے اور سبز چاۓ بھی کشمير تے تحفے ہيں ہی مگر کانگری دوشالہ اور کيا کيا ياد کريں ميری والدہ تو اصل جنت کو روانہ ہو چکيں آپ نے انکی ياد دلا دی شکريہ-
    خدا آپکو خوش رکھے آپ کشمير آتی جاتی رہا کريں ہم فيالحال بے بس ہيں-
    دعا گو
    مياں آصف محمود
    ميری لينڈ
    يو- ايس-اے

  • 3. 18:17 2006-12-14 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ ، آداب
    آپ کا يخ بستہ بلاگ پڑھا تو ٰ ٰ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ٰ ٰ والا گيت ياد آگيا۔
    ۔۔۔ ٰ ٰ کاش وہ ایک پل مجھے واپس مل جاۓ ٰ ٰ کے اختتاميہ جملے نے دل کو چُھو ليا۔
    يہ مجھہ کو ياد ہے کہ ميرے لڑکپن ميں
    سحردم آنکھ کھلتی تھی
    تو ميں اس رات کے سب خواب لے کر
    اپنی ماں کے پاس جاتا تھا
    وہ ان پر غور کرتيں
    اور پھر ہر خواب کی ميرے
    ہميشہ ايک سی تعبير ديتی تھيں
    ٰ ٰ ٰ مبارک ہو تمہيں بيٹے
    تمہارا خواب اچھا ہے
    تمہاری آنے والی زندگی
    آرام و آسائش ميں گزرے گی ٰ ٰ
    ۔۔ ميں سوچتا ہوں کہ ماں خواب کی تعبير بتاۓ يا ہريسہ بناۓ وہ ہميشہ صرف اچھا ہي کيوں ہوتا ہے !؟
    اپنا خيال رکھيۓ گا ۔ اور اس خاکسار کو دعاؤں ميں ياد رکھيۓ گا ۔
    نيازمند
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 4. 6:00 2006-12-15 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ
    اسلام عليکم ! آپ کی غير حاضری بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ آپ لکھتی رہا کريں ، اس سے ہم جيسے ادنی لکھاريوں کو بھی مدد ملتی ہے۔ مگر آپ کو آپ کا انڈيا اور بچپن بہت پيارا ہے۔ آپ کی تحريروں سے لگتا ہے اور يہ بھی حقيقت ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کر جا ئے يہاں تک کہ چاند پرڈيرے ڈال لے مگر اس کو پھر بھی اپنی زمين ، اپنی دھرتی کی ياد ضرور ستائے گی۔ چونکہ جہاں پر انسان کا بچپن گزرتا ہے ، جہاں پر انسان کے بچپن کے دوست يار ہوتے ہيں ان گليوں اور محلوں کی ياد برقرار رہتی ہے۔ اور حقيقت تو يہ ہے کہ يہی زندگی ہے اگر اپنے بچپن کو بھول جايا جائے تو پھر يہ کيسے ممکن ہے۔

  • 5. 11:45 2006-12-15 ,Sajjadul Hasnain :

    نعيمہ مہجور صاحبہ السلام عليکم
    گذشتہ ہفتے حيدرآباد کی ايک مشہور جھيل کے پاس ميں اپنے ايک کشميری دوست کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ اتنے ميں اس نے اپنے گھر سے کال ريسيو کی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بات اس نے فون کرنے والے سے وہاں کے موسم کے بارے ميں پوچھا اور جب حال سنا تو بے ساختہ کہ اٹھا کہ ’تم بڑے خوش نصيب ہو کہ کڑاکے کی سردی اور سنے سے کانگڑی لگائے گھوم رہے ہو اور يہاں ہم ہيں کہ سويٹر بھی پہن نہيں پاتے‘۔ اس وقت مجھے بڑا عجيب سا لگا تھا کہ حيدر آباد کے معتدل اور اتنے اچھے موسم کے باوجود يہ سخت ٹھنڈ اور پھرن و کانگڑی کا طلب گار ہے۔ ليکن آج جب آپ کا بلاگ پڑھا تو اس کے جذبات کی شدت کا مجھے اندازہ ہوگيا ہے۔ بے شک يخ بستہ ہوائيں گرتی برف اور سردی سے بچنے کے ديسی طريقے اور سونے پہ سہاگہ گرم گرم ہريسے کي ڈش اور پھر وطن سے دور بچپن کی ياديں۔ گويا ايک بار پھر کوئی زبان سے کہہ رہا ہو کہ ’ميں است وہميں است و ہميں است‘

  • 6. 21:18 2006-12-19 ,syed javed :

    سردی اور سردی کی دھوپ کيا ياد دلا ديا آپ نے- اب تو دھوپ ہو يا ابر - بارش ہو يا برف کچھ خيال ہی نہيں رہتا - زندگی بھی کيا چيز ہے-

    واصف- نيويارک

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔