| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ڈ سے ڈاکو یا ڈاکٹر

وسعت اللہ خان | 2006-12-14 ،15:49

مقامی اخباری اطلاعات کے مطابق ملک اسلم گذشتہ ہفتے لاہور سے قصور جارھا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی اسکی موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر غائب ہوگئی اور ملک اسلم کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ blo_wusat190.gif

اسے لاہور جنرل اسپتال پہنچایا گیا جہاں آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر زمان نے اسکا معائنہ کیا اور چار دن کی تاخیر کے بعد ملک اسلم کے والد کو مشورہ دیا کہ مریض کو آپریشن کے لئے قصور کے الشفا میڈیکل کمپلیکس شفٹ کردیا جائے جہاں سرجن زمان پرائیویٹ کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ ملک اسلم کے والد نے چاروناچار اپنے بیٹے کو قصور شفٹ کیا جہاں اسکے بیٹے کی ٹانگ کے آپریشن سے پہلے تیس ہزار روپے فیس لی گئی لیکن چار دن کی تاخیر اور خون زیادہ بہہ جانے کے سبب سرجن زمان اور تین دیگر ڈاکٹروں نے اسے دوبارہ لاہور جنرل اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سے پہلے کہ ملک اسلم لاہور پہنچتا، وہ راستے میں ہی مرگیا۔

پشاور میں دو ڈاکٹروں کو گردے کے ایک مریض کا صحت مند گردہ نکالنے اور فروخت کرنے کے سلسلے میں تفتیش کا سامنا ہے۔ پنجاب میں بھی اس طرح کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

سندھ کے شہر دادو میں گزشتہ برس ایک بچے کے گردے کا آپریشن ہونا تھا لیکن سرجن کے سامنے آپریشن سے پہلے کسی دوسرے کیس کی رپورٹ رکھ دی گئی اور یوں بچے کے گردے کے بجائے آنکھ نکال دی گئی۔ اس پر صوبائی اسمبلی میں ایک دن ہنگامہ بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا کچھ نہیں معلوم۔

ہر ڈاکٹر ڈگری لیتے وقت خود کو انسانیت کے لئے وقف کردینے کی قسم کھاتے ہوئے یونانی طبیب ہپوکریٹ کے نام کا حلف اٹھاتا ہے مگر لگتا یوں ہے کہ بہت سے ڈاکٹر ہپوکریٹ اوتھ کا مطلب سمجھتے ہیں طب کے پیشے سے منافقت کا حلف۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب لوگ تھانے سے زیادہ اسپتال سے ڈرتے ہیں۔

اگر پاکستان میڈیکل کونسل نے ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا اور ساری توانائی اپنی برادری کے دفاع میں ہی صرف کرتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پہلی جماعت کا بچہ ڈ سے ڈاکو اور ڈ سے ڈاکٹر کا ایک ہی مطلب لے گا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:27 2006-12-14 ,Sami :

    کوئی گاہک لوٹ جائے یہ تو ممکن ہی نہیں
    میں نے حاصل کر لیا ہے سیلزمینی میں کمال
    ایک گاہک کو ضرورت ٹائلٹ پیپر کی تھی
    میں نے اسکو دے دیا ہے اسکے بدلے ریگ مال

    یہ مرحوم ضیاء قاسمی صاحب کا ایک شعر ہے اور کتنا فٹ بیٹھتا ہے ہمارے حالات پر۔ ہمارے ایک عزیز چار مہینے پہلے اپنے کندھے کے علاج کے لیے لاہور کے ایک بڑے ہسپتال گئے اور ڈاکٹرز نے ان کی گردن کا آپریشن کرڈالا اور بعد میں وہ اسی باعث انتقال کر گئے۔

  • 2. 19:30 2006-12-14 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم وسعت اللہ خان صاحب ، سلام عرض ۔
    ہميشہ کی طرح دل و دماغ کو جھجھنوڑتا ہوا بلاگ لکھا آپ نے ۔۔
    اور ميں آپ کی تمام باتوں سے متفق ہوں اور بحيثيتِ ڈاکٹر کسی بات کا دفاع نہيں کروں گا ۔
    دراصل ڈاکٹری کا پيشہ ايک انتہائ ذمہ داری اور ايثار والا پيشہ ہے جس ميں آپ کو ہمہ وقت جسمانی و ذہنی طور پر سو فيصد سے بھی ذيادہ چاق و چوبند رہنا پڑتا ہے ، مشکل حالات ميں مشکل فيصلے کرنے ہوتے ہيں ، اپنی پريشانيوں اور الجھنوں کو ايک طرف رکھ کر صرف مرض اور مريض پر توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے ۔يہ ضرور ہے کہ ايک انسان کی حيثيت سے غلطيوں کی گنجائش ہوسکتی ہے مگر ظاہر ہے ايک ڈاکٹر کی غلطی ايک عام غلطی نہيں ہوتی اسے پوری تندہی سے اور يکسوئ سے اپنے فرائض نبھانے ہيں ۔ جن بعض غلطيوں کی آپ نے نشان دہی فرمائ ان ميں سے کچھ يہاں بھی کبھی کبھار ہو جاتی ہيں مگر اس غلطی سے سيکھا جاتا ہے پوری تحقيقات کی جاتی ہے ، جہاں کمی ہوتی ہے وہاں نۓ سرے سے نۓ حفاظتی اصول بناۓ جاتے ہيں مزيد ديکھ بھال کی جاتی ہے اورچھوٹے بڑے تمام ڈاکٹروں سے بات چيت ہوتی
    ہے ۔ جبکہ ہمارے يہاں ايسا نہيں ہو پاتا ۔ خصوصاً چھوٹے اور بڑے ڈاکٹر کا تصور ان غلطيوں سے سيکھنے کی راہ ميں رکاوٹ ہے ۔ ہمارے ڈاکٹر حضرات اور عوام کو يہ بات اچھے سے سمجھنی چاہيۓ کہ غلطی ہو سکتی ہے ۔ اور ہميں ايسے طريقۂ کار وضع کرنے ہوں گے چھوٹے اور بڑے دونوں ہی قابلِ گرفت ہوں ۔
    ضرورت اس بات کی ہے علاج کی سہولت ايک غريب آدمی کی پہنچ سے باہر نہ ہو ، سرکاری اسپتالوں ميں سہوليات مہيا ہوں اور نجی اسپتالوں ميں منہ مانگے پيسے ليکر علاج سدباب کيا جاۓ اور ساتھ ہی ساتھ عطائ ٰ ٰ ڈاکٹروں ٰ ٰ سے سختی سے نبٹا جاۓ ۔ علاج اور طبی سہولتوں کو سياست بازی سے دور رکھا جاۓ ۔
    مجھے اميد ہے کہ پہلی جماعت کا بچہ ڈ سے ڈاکو اور ڈ سے ڈاکٹر کا ایک ہی مطلب نہيں لے گا ۔
    دعا گو
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 3. 0:24 2006-12-15 ,SYED JAVED :

    پوليس اور بےايمان ڈاکٹر دونوں کے ہاتھوں ميں عوام يرغمال ہيں۔ عوام کی جان اور مال جاتا ہے جاۓ حکومت اپنے آپ ميں مست ہے۔ نہ کوئی قانون نہ قانون سازی بس پاکستان کا اللہ ہی حافظ۔

  • 4. 1:09 2006-12-15 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    محترم وسعت اللہ خان صاحب اسلام ُ عليکم آپ کی تحريريں لگتا ہے آپکے نام کا عملی ثبوت ہيں.خدا رزق، عزت، وسعت نظری اور عمر ميں مزيد اضافہ کرے ہمارے تمام ادارے تباہ حالی کا شکار بنے ہوۓ ہيں ميں ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو ايک دوسرے کے سہارے قوم کو بيوقوف بنات ہوۓ ہر نا جائز کو جائز بناتے ہيں-
    بقول فيض ”ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گريز تھا ورنہ ہمارا درد بہت لا دوا نہ تھا”
    ان سب کا سبب نظريہ ضرورت اور اس کے تحت قائم ہونے والی باوردی حکومتيں ہيں کٹھ پتلی حکومتيں اور عدالتيں سب اس حمام ميں ننگے ہيں

  • 5. 1:18 2006-12-15 ,جاويد بھائی :

    وسعت بھائي!
    آپ کو داد ديتا ہوں کہ آپ معاشرے کے ناسوروں پہ ايک ايک کر کے يکے بعد ديگرے نشتر چلا رہے ہيں مگر يہ بھی حقيقت ہے کہ طوطی کی نقار خانے ميں کون سنتا ہے؟ بد نصيبی ہے ہماری کہ ہم موسٰی عليہ والسلام کے گمشدہ قبيلے کی مانند کئی عشروں سے ايک ہی دائرے ميں گھومتے جارہے ہيں۔ا ور دائرے کا يہ سفر اپنے نصف کے بعد عمود سے پھر واپس وہيں پہنچ رہا ہے جہاں سے يہ سفر شروع ہوا تھا۔ ہم اپنے نقطہِ آغاز کی طرف بڑھ رہے ہيں اور ستم ظٌريفی ديکھئيے کہ پی ٹی وی سے ہمارے اربابِ اختيار اور صاحبِ اقتدار ہر روز پوری قوم کو ايک ہی راگ الاپتے ہيں کہ پاکستان ترقی کرہا ہے، غريبی ختم ہو رہی ہے، ملک ميں ہر سُو خوشحالی کی لہر آگئی ہے۔ حقيت يہ ہے کہ معاشرے کا ہر ذی حيثيت طبقہ ملک کے مجبور عوام کو بڑھ چڑھ کر لوٹ رہا ہے۔ غالبا آپ ہی کی ايک تحرير چھپی تھی جس ميں آپ نےکسی بادشاہ کا ذکر کيا تھا کہ کسی سفر پہ جاتے ہوئےبادشاہ کے دستر خوان پہ نمک نہ ہونے کی وجہ سے بادشاہ نے سپاھيوں کو قريب کی بستيوں سے نمک معلوم کرنے کا حکم ديا اور بادشاہ کے سپاھي جب آس پاس کی بستيوں سے بادشاہ کے لئيے نمک لائے تو وہيں سے اپنے لئيےغريب کسانوں کے پالتو جانور اور مويشی مفت ميں ہانک لائے۔ تو وسعت بھائی وہ تو بادشاہ کو نمک چاھئيے تھا تو اسکی فوج ساتھ کے سارے گاؤں لوُٹ لائی مگر جس قوم کے بادشاہ ہی نمک مانگنے سے دو قدم آگے اپنے سپاھيوں کي طرع لوٹ مار پہ اتر آئيں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہيں بادشاہ کے حواری کتنے ہاتھ آگے ہو نگے؟ ايسے ميں ڈاکٹر کيوں پيچھے رھيں؟ اور صاحب يہ پی ايم ڈی سي (پاکستان ميڈيکل اينڈ ڈينٹل کونسل) کي بھی آپ نے خوب کہی کہ ماسوائے انگلينڈ اور غالبا آئرلينڈ وغيرہ ايک آدھ ملک کو چھوڑ کر امريکہ ، جاپان ، روس ، جرمنی يا باقی دنيا کے کسی بھی ملک سے اگر کوئی ايم بی بی ايس کرکے ڈاکٹر بن جائے تو يہ حضرات اُسکی ڈگری کو اسوقت تک تسليم نہيں کرتے جب تک امريکہ ، روس، جاپان،جرمني، چين وغيرہ سے ايم بی بی ايس کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹرز حضرات پی ايم ڈی سی نامی کونسل کا امتحان پاس نا کر ليں۔ تب تک آپ بحثيت ڈاکٹر پريکٹس يا جاب نہيں کرسکتے اور يہ ايگزام صرف انگلش ميں ہوتا ہے۔ اب بھلے سے آپ نے ايم بی بی ايس جاپانی ، روسی يا چينی وغيرہ کسی بھی زبان ميں ہی کيوں نا کيا ہو اور اسميں آپکے کتنے سال کيوں نا ضائع ہو جائيں۔ وسعت بھائی کبھی وقت نکال کر معمولی سی تحقيق کر کے پی ايم ڈی سی زدہ بے چارے ڈاکٹروں پہ بھی ايک آدھ بلاگ لکھ ديں بہتوں کا بھلا ہوگا۔ وسعت بھائی يہ کونسل تو محض کچھ ُ ٹور ٹار، کے لئيے اسلام آباد ميں اتنی پرسکون جگہ پہ بنا رکھی ہے ورنہ ان کے پاکستان ميں تيار کردہ کچھ کچھ ڈاکٹرز کے لئيے تو عمر قيد بھی کم ہے کہ صرف لفظی معنوں ميں نہيں بلکہ حقيقی معنوں ميں يہ انسانی جان سے کھيلتے ہيں اور طرفِ تماشہ ديکھئے کہ انکے خلاف نا کوئی ُکوکُ(شکوہ کرنے والی لمبی چيخ ، آہ و فغاں) اور نا کوئی فرياد کرتا ہے کہ سب جانتے ہيں کہ ڈاکٹرز ہميشہ درست اور چست قرار ديے جائيں گے اور ان کے ہاتھوں انکی لا پرواھی اور لالچ کيوجہ سے مرنے والے قسمت کا لکھا قراردئيے جائيں گے۔
    وسعت بھائي! يوں ہی لکھتے رھيئے اللہ اجر دے گا۔

  • 6. 4:28 2006-12-15 ,ظہوراحمد سولنگی :

    بہت اچھا مسئلے کو اجاگر کیا ہے وست اللہ خان نے، لیکن بڑے بھائی یہاں کے مسیحا بھی قصاب ہیں، چاہے مریض مر جائے ان کو فرق نہیں پڑتا سارے تو ایسے یقینن نہیں ہونگے لیکن اکثریت اس طرح کے ڈاکڑوں کی ہے، کیا معین اختر نے خوب کہا تھا نہ باپ نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ۔

  • 7. 5:26 2006-12-15 ,عبدالباسط قريشی :

    وسعت اللہ خان صاحب تو ڈاکٹروں کی ڈاکٹرگردی کاايک فيصدحصہ بھی بيان نہیں کرپائے۔

  • 8. 5:28 2006-12-15 ,Nauman Ahmed :

    جب انصاف بکتا ہو، معلم ٹیوشن کا کاروبار کرتے ہوں، قانوں کے رکھوالے قانون توڑنے کے گر ببتاتے ہوں، آئین بنانے والے آئین توڑنے کے راستے دکھاتے ہوں، جب سرحدوں کے محافظ ڈاکوں بن جائیں، جہاں مذ ہب کے نام پر کاروبار اور سیاست چلتی ہو، جہاں دانشور کی دانش اور صحافی کا قلم بکتا ہو، وہاں پر اگر ڈاکٹر اگر ڈاکو بن جائیں تو کاہے کی حیرت ؟ یہ باتیں اب ہمارے لیے خبر نہیں رہیں۔ اب خبر تو یہ ہے کہ کسی غریب کا مفت آپریشن ہو گیا۔ کسی مظلوم اور غریب کو عدالت سے انصاف مل گیا۔ کسی بندے کو بغیر سفارش نوکری مل جائے۔ اگر ایسی کوئی خوش خبری ملے تو ہمیں بھی سنایا کریں۔

  • 9. 5:32 2006-12-15 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی ومکرمی وسعت اللہ صاحب
    اسلام عليکم ! آپ کا ايک مرتبہ پھر خوبصورت بلاگ پڑھا ، بہت خوشی ہوئی۔ آپ کو علم ہو گا ، آپ نے يقينا ان دنوں چيف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار احمد چودھری کا از خود نوٹس لينے کا پڑھا ہوگا جوکہ انہوں نے چکوال ڈسٹرک ہسپتال کے ڈاکٹروں ، قصائيوں ، خصوصا ایک چائلڈاسپيشلسٹ ڈاکٹر کے حوالے سے ليا۔ انہيں ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ايک بچی اور ايک معصوم بچہ اللہ کو پيارے ہو گئے۔ مگر ان انسانيت کے دشمنوں کو صرف مال بنانے کی فکر تھی ليکن خوشی اس بات کی ہے کہ جناب افتخار چودھری جيسے لوگ اس ملک ميں موجود ہيں۔ اب ان کے فيصلے کی وجہ سے يقينا ان ’قصائيوں‘ کو بھی کچھ احساس ہو گا۔ يہ ہمارے چکوال کے ڈاکٹر تو ہميں انسان سمجھتے ہی نہيں ہيں ، ليکن ميں آپ کو داد ديتا ہوں کہ آپ نے اتنا اچھا بلاگ لکھا - آئندہ بھی لکھتے رہيے۔

  • 10. 6:37 2006-12-15 ,قمر جاويد :

    بالکل ميں اس سے اتفاق کرتا ھوں۔ پاکستان ميں لوگ پہلے ھی ڈاکٹر کو
    ڈاکو کہتے ھيں۔ ايسے لوگ معا شرے کا ناسور ہيں ان لوگوں کو خدا کا کوئی خوف ھی نہيں يہاں اندھی پيسے اور کتی چاٹے والا حساب ہے۔

  • 11. 12:02 2006-12-15 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    محترم جناب وسعت اللہ خان صاحب،
    يہ تو چند کالے منہ والے ڈاکو ہيں جنکی آپ نے نشان دہی کر دی ورنہ پاکستان تو اندھير نگری چوپٹ راجہ ہے جہاں حکمران ہی شب خون مارنے والے ڈاکو ہيں۔ ان سميت تمام رياستی مشينری اور معاشرہ بے بس ہوتا ہے۔ آپکی گاڑی کا ٹوٹل لاس والا کيس ہے جس کے ہارن کے علاوہ ہر پرزہ اپنی بدحالی کا باجا بجا رہا ہے۔ شايد ہر ڈرائيور يا تو پرزے خراب کرتا رہا ہے يا ہر پڑوسی کو ڈاجنگ کار کی طرح ٹکريں مارتا رہا ہے کہ حليہ ہی بگڑ گيا ہے۔ تمام سوارياں موت کے ڈر سے سہمی بيٹھی ہيں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔