آج جب بہت سی دنیا یسوع اور پاکستان ملک کے بانی جناح کی ولادت کا دن منارہے ہیں تو بلوچستان سے ’ترقی‘ کی نئي خبر آئي ہے۔
چوراسی ہزار بلوچ بےگھر ہوگۓ ہیں جن میں تینتیس ہزار بچے بھی شامل ہیں جن کی خوراک و علاج کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ میں بچوں سے متعلق تنظیم ’یونیسف‘ کے ہیں
’ترقی کس کو کہتے ہو؟
بلوچی ماؤں، بچوں کو بموں سے ڈھیر کردینا
سمندر کو، ندی کو، ماہی مچھلی کو
گوادر کی زمیں کو زیر کردینا
ترقی اس کو کہتے ہیں‘
یہ بلوچ وہ ہیں جو ڈیرہ بگثی اور کوہلو میں شورش اور فوج کشی کے نتیجے میں بے گھر ہوگئے۔ نہ جانے ان بلوچ عورتوں، مردوں اور بچوں کی تعداد کتنی ہوگي جو ’پاک فضائیہ‘ کی گولہ باری اور ’آزاد بلوچوں‘ کے دھماکوں اور بارودی سرنگوں کا نشانہ بن گئے ہونگے۔ شاید ہم کبھی بھی جان پائیں کہ صوبے میں فوج کشی پہلے ہوئی یا سرکشی لیکن بلوچوں کی نسل کشی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پیارے پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ۔ خان آف قلات کے محل میں اب بھی وہ کمرہ محفوظ ہے جس میں ملک کے بانی محمد علی جناح کو سونے (گولڈ) میں تولا گیا تھا اور محل کا وہ کھنڈر حصہ بھی جسے جناح کے سونے میں تلنے کے کچھ عرصے بعد فوجی بمباری سے کھنڈر بنایا گيا تھا۔
بلوچستان اب ایک عالمی اور انسانی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ بلوچ قوم پرست اورقبائلی رہنما اسے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے کی باتیں کررہے ہیں اور اسلام آباد ترقی کی باتیں کررہا ہے۔ بلوچوں کے تیل، گيس اور قیمتی پتھر کو وہ ’قومی اثاثے‘ قرارد دیتا ہے۔ ’چلو چلو گوادر چلو‘۔
مجھے کچھ روز قبل ایک امریکی جریدے میں چھپی ہوئی ایک بلوچ لیڈر کی بات یاد آئی’ایشیا اگر بیلٹ ہے تو اسکا بکل پاکستان ہے اور پن بلوچستان۔ پن نکل گئي تو پینٹ نیچے آ جائے گي‘۔