بغداد کا قصائی کافکا کا کردار بن گیا
سان ڈیاگو میں اس کرد ٹیکسی ڈرائیور کو سخت دکھ اور غصہ بھی ہے کہ، بقول اسکے، صدام حسین کو پھانسی لاکھوں کردوں کے قتل عام پر نہیں لیکن کسی ’دوسرے کیس‘ میں ہوئی۔ اس نے کہا کہ ’شیعہ بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن کردوں کے ساتھ تو صدام حسین نے ان سے بھی زیادہ ظلم ڈھائے تھے۔‘
’کیا تمہارا کوئی رشتےدار، دوست یا واقفکار صدام حسین کی پالیسیوں کا نشانہ بنا؟‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’یہ سوال کسی کرد سے پوچھنا بیوقوفی ہے کہ عراق میں پوری کرد قوم اسکے نشانے پر تھی۔ کیا تم انیس سو اسی کے سالوں میں حلب جاہ کو بھول گۓ ہو؟‘ اس نے مجھ سے کہا۔ پھر اس نے صدام حسین کا غصہ بھی مجھ پر اتارا ’جو کچھ تم لکھو چھپنے سے پہلے تم مجھے ضرور دکھانا ورنہ نہیں!‘ اس نے مجھ سے کہا۔ ’یہ تو صدام حسین اپنے ملک کے لکھنے والوں سے کہتا تھا،‘ میں نے اس سے کہا۔
کیلیفورنیا اور وہ بھی سان ڈیاگو میں کرد پناہ گزینوں کی امریکہ میں سب سے دوسری بڑی آبادی رہتی ہے ( انکی پہلی بڑی آبادی نیشویلی ٹینیسی ریاست میں ہے)۔ سان ڈیاگو کی فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹ میں صدام حسین کیخلاف کردوں کے قتل عام کیخلاف کروڑہا ڈالر ہرجانے کیلیے کلاس ایکشن لا سوٹ یا اجتماعی سول مقدمہ داخل ہے جو ایک کرد جوڑے نے درج کروایا تھا۔ امریکی قوانین میں فارین ٹارٹ لاز کے مطابق کسی بھی ملک کیخلاف کوئی امریکی شہری ناانصافیوں اور انسانی حقوق کے ضمن امرکی عدالت میں مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔
میرا بھائی عبداللہ ’پیشمرگ‘ (کرد گوریلا ) تھا جسے صدام حسین نے قتل کروایا‘ کرد خاتون فاطمہ نے مجھے بتایا۔ ’اسکی بیوی سات مہینے کی حاملہ تھی،‘ اس نے کہا۔
لیکن میں نے سوچا کہ پھانسی یا سزائے موت کیسے ایک ڈکٹیٹر یا بغداد کے قصائی کو کافکا کے کردار میں بدل دیتی ہے! سب سے بڑی بات کہ اسکا ٹرائل کافکا کے ’ٹرائل‘ کیطرح تھا۔ پر سے لیکر صدام حسین تک کاش دنیا ان تمام شقی القلب مسلمان حکمرانوں کومقامی مظلوموں کی آنکھ سے دیکھے؟