| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صدام بش دوستی میں دشمنی کیوں

اصناف:

نعیمہ احمد مہجور | 2007-01-01 ،12:38

مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ گہری سوچ میں بیٹھے تھے کہ ان کا ایک پیروکار دوڑتے ہوئے آیا اور جذباتی لہجے میں انہیں خوشخبری سنانے لگا: ’حضور آخر کار آپ کا دشمن مرگیا، میں یہ خوشخبری سنائے بغیر رہ نہیں پا رہا تھا اسی لیے دوڑا دوڑا آیاہوں‘۔

ہارون رشید نے جب یہ خبر سنی تو ان کے چہرے پر افسردگی چھاگئی اور پورا جسم جیسے لرز گیا، وہ کہنے لگے: ’ یعنی میرا وقت بھی قریب آچکا ہے۔ کاش آپ یہ خوشخبری لاتے کہ مجھے زندگی کےمزید چند سال ملے ہیں تاکہ مجھے اپنے دشمن کو معاف کرنے کا موقعہ ملتا‘۔

نجانے صدام کی پھانسی کی تصاویر دیکھ کر مجھے ہارون رشید کا یہ قصہ یاد کیوں آرہا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ جب جارج بش کو صدام کی پھانسی کی خبر سنائی گئی ہوگی تو ان کے چہرے پر کس طرح کے تاثرات ہونگے۔ صدام اگر اپنے لوگوں کا گناہگار تھاتو انہیں صدام کوسزا دینے کا موقعہ کیوں نہیں دیا گیا۔ بقول سیاسی مبصر صدام کو بش کے کہنے پر تختہ وار پر لٹکادیا گیا اور حقیقت میں کسے معلوم کہ اندرونی طور پر دونوں کی دوستی اتنی دشمنی میں کیسے بدل گئی کہ ان کی موت ہی اس باب کو بند کرنے کے لیے چنی گئی۔ مگر پھر بھی۔۔ کیا ان کی پھانسی کی خبر سن کر بش کو کوئی افسوس ہوا ہوگا کیونکہ کسی کومعاف کرنا عیسائیت کا پہلاستون ہے یا پھر اس مذہب میں بھی بش کے کہنے پر تبدیلی کر دی گئی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:48 2007-01-01 ,جاويد گوندل :

    آپ نے بجا فرمايا ُاس مذہب(عيسائيت) میں بھی بش کے کہنے پر تبدیلی کر دی گئی ہے۔، بلکہ بٌش اور بُش کے حواری عسائيت کے جس عقيدے کے قائل ہيں اُس ميں مسلمانوں کے لييے تو کُجا بلکہ عيسائيت کےاندر دوسرے عقيدوں کے ماننے والوں کے لئيے بھی ُمعافي نام کا لفظ شامل نہيں ہے-

  • 2. 17:56 2007-01-01 ,shahidaakram :

    نعيمہ جی آپ کی اطلاع کے لۓ عرض ہے کہ دوستی اور دُشمنی کے درميان بہت ہلکی سی لکير ہوتی ہے جسے پاٹنے کے لۓ کُچھ زيادہ کُچھ پھلانگنا نہيں پڑتا ،يہی سب کُچھ بُش اور صدام حُسين کے درميان ہوا يا اسے يوں کہہ ليں تو زيادہ بہتر ہوگا کہ ہر بڑے طاقتور اور نسبتآ چھوٹے طاقتور کے درميان ہوتا ہے اورآخر ميں جيت اُسی کی ہوتی ہے جو خواہ دکھنے ميں کمزور لگے ليکن دماغی طور پر اپنے مُہروں کا وقت پر او ر صحيح ا ستعمال کرنا جانتا ہو يہی کُچھ بُش بہادر نے کيا اور رہی بات يہ کہ صاحب بہادر کو افسوس ہوا يا نہيں تو بات اگر افسوس کی ہوتی تو يہ سب چکر چلايا ہی کيوں جاتا آپ نے بھی خليفہ ہارون رشيد کے ساتھ کس شخص کو ملانے کا کيا وہ لوگ جو دُشمنيوں کو نباہنا جانتے تھے دُشمنيوں ميں بھی روايات اور تہز يبوں کو ضرور مذنظر رکھتے تھے کہ گھر آۓ دُشمن کو بھی معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے خواہ وہ اُن کی اولاد کا قاتل ہی کيوں نا ہو آپ نے يہ بات بھت ضرور کہيں پڑھی يا سُنی ہو گی ،اور رہی بات يہ کہ پھانسی کا سُن کر صدام حُسين کے کيا تاثرات ہوں گے تاثرات تو اُنہوں نے اپنے آخری لمحات ميں بھی اتنے سکون کے دۓ کہ حيرانگی ہوتی ہے مگر اصل دُکھ تو يہی ہے کہ گُناہگار کوسزا دينے والے ہاتھ اتنی دور ديس سے کيوں آۓ جبکہ گُناہ گار تو صدام اپنے لوگوں کے تھے اور شايد مُجھے سب سے زيادہ دُکھ بھی اس وجہ سے ہے کہ کوئ جُرم کوئ کيمياوی ہتھيار وں کی موجودگی ثابت نا ہونے پر بھی جنگ مُسلّط ہوئ اور وہ عراق جو ترقی ميں عرب مُلکوں ميں کہيں آگے تھا آج ترقی يافتہ لوگوں نے اُسی عراق کو سالوں قرنوں پيچھے دھکيل ديا اُس سب کا ذمے دار کون ٹھہرايا جاۓ گا ،اُ س سب کا پچھتاوا کس کے کھاتے ميں ہو گا جس مزہب ميں ايک گال پر تھپڑ مارنے والے کے سامنے دوسرا گال بھی پيش کرنا روايت ہے جبکہ بات صرف يہ ہے کہ گھوڑے کی اگاڑی اور صاحب کی پچھاڑی سے ہميشہ بچنا چاہيۓ کہ کون جانے کب دوستی کا ہار گلے ميں پھانسی کا پھندا بن جاۓ ، کون جانے
    دعا کريں کہ ہم دوستی اور دُشمنی کے درميان کی باريک لکير کو سمجھ سکيں
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

  • 3. 18:53 2007-01-01 ,Bilal from Toronto :

    خوب بہت خوب فرمايا آپ نے ـ کيا مثال دی ہے آپ نے کاش ان لوگوں کو اس بات کا بھی احساس ہو جاۓ کہ ايک دن انہوں نے بھی مرنا ہے تو وہ اس طرح خوشياں نہ منائں ـ رہی بات کہ کرسچينٹی ميں معاف کرنا ايک اہم بات ہے تو جناب يہاں کوئ پوب جان پال جيسے عظيم لوگ تو ہيں نہيں جو کرچينٹی کی اس عمدہ روايات کو دہراتےـ

  • 4. 2:03 2007-01-02 ,Abid :

    دشمن میرے تے خوشی نہ کريے
    سجناں وی مر جاناں

  • 5. 2:18 2007-01-02 ,shawn :

    نعيمہ جي اس قدر اچھی بات کہی ہے آپ نے ہر مذہب کي بنياد رحم صبر اور معافی پر ہے مگر آج اسامہ بش مشرف يہ سب مذہب کے نام پرتجارت کر رہے ہيں بش دفاع کے نام پر دہشتگردی کر رہا ہے اور اسامہ مذہب کے نام پر ڈرامہ رچا رہا ہے جانے کس چيز کی ہوس ان کو مار رہی ہے ہم لوگ اپنے ہر عمل کے ليے معافی کي توقع کرتے ہيں مگر دوسروں کی چھوٹی سی بات کو نہيں بھولتے کس قدر کٹھور پن ہے آج سب کے دلوں ميں کاش کوئی تو معافی کے ہنر سے آگاہ ہو کوئی تو سمجھے معاف کرنے والے کا رتبہ کس قدر بلند ہوتا ہے خدا کی نظر ميں

  • 6. 5:24 2007-01-02 ,چوہدری جمیل احمد خآں کمالیہ پاکستان :

    نعیمہ احمد مہجور کا بلاگ پڑھا۔بڑا دلچسپ اور فکر انگیز بلاگ لکھا ہے۔ بس یہی کہوں گا کہ اللہ کرے ہم سب کی ایسی ہی سوچ ہو جائے۔خدا حافظ

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔