کشمیر زبان پر نہیں لاؤں گا
صدر مشرف کے کشمیر دعوے سے دستبردار ہونے کے بعدبیشتر کشمیریوں کو اب اس بات کا انتظار رہے گا کہ وہ کب کشمیر لفظ اپنی زبان پر لانے کی قسم کھائیں گے۔
گزشتہ دس برسوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو کشمیر میں شدت پسند تحریک کے کمزور پڑنے کے ساتھ ہی پاکستان کی سیاسی قیادت کو شدید احساس ہوگیا ہے کہ اسکا دعٰوی مضبوط ہونے کے بجائے آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگا ہے۔
کشمیریوں نے اسی کے اواخر میں جب بھارتی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو اس وقت الحاق پاکستان کے لاکھوں حامی موجود تھے، جنہوں نے کافی کاوشوں سے آزادی کی تحریک کا رخ موڑ کر اس کی منزل پاکستان قرار دی مگر کشمیری جن حالات سے گزرے اور انہیں جس طرح کی قربانیاں دینی پڑیں پاکستان کو ایک تماشائی کی طرح دیکھ کر جذبہ الحاق میں خودبخود دراڑ پڑگئی۔
بعض شدت پسند تنظیموں کو دورانِ تحریک ہی اس بات کا احساس ہوگیا جن میں سے بیشتر وادی واپس آکر اپنی روز مرہ زندگی بحال کرنےمیں لگ گئے۔ آج بھی اگر عام پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمریوں کو افسوس ہے تو اس بات کا کہ گزشتہ پچپن برسوں سے پاکستان نے اپنا خزانہ خالی کیوں کردیا اور اس مسئلے پر اتنا بیش بہا اور انمول انسانی سرمایہ کیوں ضائع کردیا۔
گو کہ سبھی جانتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد دنیا میں آزادی کی تمام تحریکیں القاعدہ کے زمرے میں ڈالی جانی لگی ہیں اور اس معاملےمیں سب سے زیادہ دباؤ پاکستان پر رہا مگر جس انداز میں بھارت کے مؤقف کی حمایت کرکے تحریک آزادی کو کمزور کردیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب اس مسئلے سے کسی طرح چھٹکارا چاہتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو روڈ میپ امریکہ اور یوروپی یونین نے تیار کیا ہے اس کے مطابق پاکستان کے لئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ دونوں ہاتھوں سے دستبردار ہونے کی ضمانت لکھ کر دے دے۔
برصغیر کے لاکھوں شہریوں کو افسوس ہوگا کہ اگر یہی بات پاکستان نے پانچ دہائی قبل کی ہوتی تو تین جنگیں نہیں ہوئی ہوتیں، ہزاروں بے گناہ لوگوں کو بچالیاگیا ہوتا اور ایک پوری نسل کو القاعدہ بننے سے روک دیا گیاہوتا۔
سن نوے میں جب جگموہن بحثیت گورنر کشمیر وارد ہوئے تو انہوں نے پہلی بات یہی کہی تھی کہ کشمیر پاکستان کے پیٹ میں پہنچ گیا ہے مگر جنرل مشرف صاحب نے بغیر کسی حجت کے آج کشمیر کو واپس بھارت کی جھولی میں ڈال دیا اور ماضی کی طرح آج بھی اس کھیل میں دونوں ملکوں کے فیصلے میں کشمیری موجود نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ ، آداب و صبح بخير
انتہائی حقيقت پسندانہ انداز اور فکر انگيز تحرير۔ اتنی مفصل گفتگو کے بعد کيا لکھا جاسکتا ہے ۔۔ بس بقول فراز
اور ميں نے ديکھا
کہ ميرے ہاتھوں ميں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی
ہتھيليوں پر فقط نامراد آنکھيں دھری ہوئی تھيں
اور ان ميں
قسمت کی سب لکيريں مری ہوئی تھيں
اپنا خيال رکھيئے گا اور مجھے دعاؤں ميں ياد رکھيئے گا۔
نياز مند
سيد رضا
برطانيہ
نعیمہ بہن اسلام عليکم۔ اگر پاکستان سے مشرقی پاکستان کی طرح دست بردار ہوگئے تو کوئی کيا کر لے گا ان جرنيلوں کا۔ دکھ ہوا نہ قوم کی پرواہ نہ کشمير کے شہيدوں کی نہ کشميری عوام کي اور نہ قائد اعظم کے قول و خواہش کی۔
یہ بھیک نہیں آزادی ہے
مانگے سے بھلا ملتی ہے کبھی
دل جوش میں لا ،فریاد نہ کر
تاثیر دکھا ،تقریر نہ کر
اغیار اور عالمی غنڈوں سے
امید نا رکھ بہبودی کی
طاقت سے کشمیر چھڑا
یا آرزوئے کشمیر نا کر
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ
آداب کے بعدگذارش ہے کہ آپ کا گلہ بجا ہے کہ اگر يہی سب کچھ کرنا تھا تو پچپن برس پہلے کيوں نہ کر ديا۔ کشميريوں کي دو نسلوں کو اس عذاب سے گزارنے کي کيا ضرورت تھي۔ سچ تو يہ ہے کہ کشمير شرافت سے واپس کرنا ہوتا تو سرے سے ليا ہي کيوں جاتا۔ يہ مسئلہ صرف طاقت ہي سے حل ہونا تھا جو ہم سے ہو نہ سکا۔ 1948ء ميں سرينگر پہنچ کر اہم تنصيبات سنبھالنے کی بجائِ مجاہدين مال غنيمت سميٹتے رہے اور بھارتی افواج نے ائرپورٹ پر اتر، لڑائي کا پانسہ پلٹ ديا۔ 1962ء کے ہند چينی معرکے ميں بقول قدرت اللہ شہاب، بھارت کو مصروف رکھنے کي واضح چيني پيشکش کے باوجود صدر پاکستان ہمت نہ کر سکے اور آزادي کشمير کا بظاہر آخري موقعہ بھي ہاتھ سے نکل گيا۔ اس کے بعد آپريشن جبرالٹر کے جواب ميں ستمبر 65ء کي جنگ سے لے کر کارگل تک کے واقعات آپ کے سامنے ہيں جہاں ہر موقعہ پر قومي قيادت ’ ناداں گر پڑے سجدے ميں جب وقت قيام آيا‘ کي تفسير بني رہي۔ ان حقائق کے پيش نظر اگر اگلے پچپن برس بعد يہي سوال کچھ اس طرح پوچھ ليا گيا کہ غلطي کا احساس ہو جانے کے باوجود اسے انا کا مسئلہ کيوں بنائے رکھا گيا ... تو کيا جواب ديجيئے گا۔
دعاگو
رضا
بنگلہ ديش تو کب کا ہار چکی ہماری بہادر فوج اب کشمير کو بھی ہار کر دم لے گي۔
ساٹھ سال کيا قوم جھک مارتی رہی اور اپنا خون پسينہ فوج اور اسلحے پر لگاتی رہي؟ اگر يہی بہترين حل تھا تو آرمی کو اپنا تربيتی کورس اپ ڈيٹ کرنا ہوگا کيوں کہ جو آج کا جنرل جان گيا کل کے فيلڈ مارشل اس کی ہوا تک نہ پا سکے۔ مشرف صاحب آرمی کا بستہ اس حل کے بعد کيا باندھ ليا جائے گا يا اس کی موجودگی کسی اور ’توازن‘ کے ليے ضروری رہے گي؟
مجھے آج تک يہ سمجھ نہيں آ سکی کہ ہم سب کشميريوں کے دشمن کيوں بنے ہيں۔ کشمير ہمارا ہے کے نعرے نے آج تک کشميريوں کو کيا ديا ہے سوائے غريب کشميريوں کےگھر اجاڑنے کے۔ باقی آپ خود سمجھدار ہيں۔
مشرف بين الاقوامی طاقتوں کا مہرہ ہے جو ہر لمحہ ان کي خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ چاہے اس کی قيمت پوری قوم کو ادا کرنی پڑے۔ کشمير کے متعلق اس طرح کے بيانات جاری کرنے کا اس کو حق نہيں ہے۔
قربانيوں کے تناظر ميں کہنے کي اجازت چاہوں گا کہ کشمير کے نام پر اسی فيصد بجٹ ديتی چلی آ رہی پاکستانی قوم کی قرباني کوئی کم نہيں ہے۔ يہي رقم اس کی تعليم، صحت عامہ اور شہری سہوليات کی ترقی پر خرچ ہو سکتي تھي۔ ناقص نظام تعليم کی بدولت بے روزگار نوجوانوں کی ايک فوج ظفر موج اگلے چند برسوں ميں نئے معاشرتی مسائل کھڑے کرنے والی ہے ليکن کسے پرواہ ہے؟ فرق ملاحضہ ہو کہ ايک ذاتی مشاہدے کے مطابق پاکستان سے ايم بی اے پاس ايک نوجوان کينيڈا ميں ٹيکسي چلانے پر مجبور ہے جبکہ يہي ڈگری بھارت سے ہونے کی صورت ميں اسے ايک لاکھ ڈالر سالانہ کي پيشکش تھی۔ قيادت کے ايوانوں ميں جوہر قابل کبھي موجود ہی نہ ہونے کی صورت ميں قوم آخر کب تک قربانياں ديتی رہے گي؟ اس کے باوجود بقول اقبال ’ ہم سے گلہ ہے کہ ہم وفادار نہيں‘۔ ترميم پر علامہ مرحوم سے معذرت کے ساتھ عرض ہے ... ’ہم وفادار نہيں؟ ’ وہ ‘ بھی تو دل دار نہيں‘
بس ہماری طرح آپ بھی دعائے خير کرتي رہيئے گا۔
کشمير ايک تحريک نہيں سياسی حربہ رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سياست دانوں اور حکمرانوں نے باوقت ضرورت اور بقدر ضرورت اس حربے کو استعمال کيا۔ اب بھارت اس ضرورت سے بہت اُگے نکل گيا ہے۔ اس ليے اب پاکستان پر دباؤ ہے کہ مسئلہ حل ہو۔ پاکستانی قيادت ميں کبھی يہ حوصلہ نہيں رہا کہ وہ قومی مفاد ميں کبھی کوئي فيصلہ کر سکے۔ اسکی وجہ يہاں سياست دانوں اور فوج ميں اقتدار کی ہوس اور اقتدار کی جنگ ہے۔ بلاشبہ اب پاکستان ’کشمير کاز‘ کی روايتی رٹ سے دستبردار ہو گا اور کشمير کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
محترم نعيمہ احمد مہجور صاحبہ
اسلام عليکم ! ايک بات کا خيال رہے کہ کشميريوں کے مستقبل کا فيصلہ کسي بھي فرد واحد کو کرنے کا حق حاصل نہيں ہے۔ اس کا فيصلہ وہ خود کريں گے اور کشمير کے فيصلہ کرنے کا اصل اختيار صرف کشميريوں کو ہونا چاہيے۔ اقوام متحدہ کی زير نگرانی غير جانبدار کميشن مقرر کيا جائے جو کہ حق خود اراديت يا پھر پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے حوالے سےريفرنڈم کرايا جائے۔ اس فيصلے کو پھر لاگو بھی کيا جائے۔ تاہم اس ميں اصل مسئلہ بہت سے کشميری ليڈروں کا کسی ايک نقطہ پر اکھٹا ہونا بھی ہے۔ کبھی کبھی ايسا لگتا ہے جيسے کشميری ليڈر اس مسئلے کا حل چاہتے ہی نہيں ہيں کیونکہ اگر يہ مسئلہ حل ہو گيا تو پھر ’دکانداری‘ ختم ہو جائے گی۔ آخر دکان بھی تو چلانی ہے نا۔
کيا کشمير مشرف کی جاگير ہے کہ جس کو چاہے بيچ دے۔
نعيمہ باجی اسلام عليکم۔ ہم کشمير کے لوگوں سے شرمندہ ہيں کہ ہم ان کی اخلاقی مدد سے بھی پيچھے ہٹ رہے ہيں۔ کيا ہوا وہ نعرہ ’کشمير بنے گا پاکستان‘ ۔
بہت خوبصورت تحرير، صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جو قوميں اپنے بنيادی مسائل کےحل کے ليے بيرونی مدد کی راہ ديکھتی ہيں ان کا حال کشميريوں جيسا ہی ہوتا ہے۔
خدا کرے کشميری اب بھی سنبھل جائيں اور
اپنی آزادی کے ليے اپنے دست و بازو پر انحصار کرنا سيکھ جائیں۔
ساٹھ سال کيا قوم جھک مارتی رہی اور اپنا خون پسينہ فوج اور اسلحے پر لگاتی رہي؟ آپ نے درست کہا۔ کہتے ہيں نہ کہ کسی کو پھانسی کی سزا ہوگئی تو لواحقين بہترين وکيل کی تلاش ميں نکلے مگر تھڑے پر بيٹھے معمولی وکيل نے آواز دی ’ميں آپ کی اپيل پانچ سو ميں کروا ديتا ہوں‘، مگر ملزم کے رشتے داروں نے کہا کہ ہم پچاس ہزار دے کر بڑے وکيل سے اپيل کروا رہے ہيں۔ چند دن ميں فيصلہ ہو گيا اور اپيل بر خاست پھانسی بحال۔ اسی چھوٹے وکيل نے آواز دی ’بیوقوفوں يہی کام ميں نے پا نچ سو ميں کروا دينا تھا‘۔ يہی حال ہمارے کشمير کا ہو رہا ہے۔