سردی بھی لگ رہا ہے
ذاکر پندرہ برس پہلے اورکزئی ایجنسی سے کراچی آیا تھا۔ چار برس سبزی منڈی میں پیٹیاں اٹھائیں۔گیارہ برس سے میرے محلے میں پھلوں کا ٹھیلا لگا رھا ہے۔ رات دس بجے کے بعد یہی ٹھیلا اسکے بستر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اور فجر کی نماز کے بعد یہ بستر پھر ٹھیلا بن جاتا ہے۔
میری اسکی سلام دعا اتنی اچھی ہے کہ وہ اکثر یہ اصرار ٹھہرا لیتا ہے اور کیلا چالیس روپے درجن، سیب ساٹ روپے کیلو لگا دیا کی آوازوں کے درمیان مجھ سے سیاسی اتار چڑھاؤ پر بھی بات کرتا جاتا ہے۔
مجھے ذاکر کی یہ ادا بہت اچھی لگتی ہے کہ پہلے وہ مجھ سے سوال پوچھتا ہے اور پھر خود ہی
اسکا جواب بھی جھپٹ لیتا ہے۔
بائی سیب ! ابی مشرپ کا کیا پالیسی اے۔۔
اس سے پہلے کہ بائی سیب مشرپ کا پالیسی بتانا شروع کریں۔زاکر بول پڑتا ہے ام تم کو بتاتا اوں کیا پالیسی ہے۔اور میں چپ چاپ ذاکر کا مونولاگ جسے وہ ڈائیلاگ سمجھتا ہے سنتا رہتا ہوں۔
کل رات بھی یہی ہوا۔
بائی سیب ! یہ ایم ایم اے کا کیا پالیسی اے ۔۔۔۔۔۔کبی بولتا اے استیپا دئیوں گا۔کبی کیتا اے نئی دئیوں گا۔۔۔۔۔۔
میں نے منہ کھولا ہی تھا کہ بات دراصل یہ ہے۔۔۔۔ کہ ذاکر نے درمیان سے ہی حسبِ عادت فقرہ اچک لیا۔
چوڑو ماڑا ! یہ مولوی سیب بھی بڑا مزے کا آدمی اے۔۔۔۔یارا یہ مسجد کا منبر نئیں چوڑتا۔۔۔۔۔۔تو سیٹ میٹ کیسے چوڑے گا۔۔۔۔
وہ جو پشتو میں کہتے ہیں نا !
زرا یے ہم کیگی۔سرا یے ہم کیگی
مطلب دل بھی چاہ رھا اے سردی بھی لگ رھا اے۔
آؤ چالیس روپے درجن لگا دیا کیلا۔آؤ سیب ساٹ روپیہ ، ساٹ روپیہ، ساٹ روپیہ کیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہمیشہ کی طرح آپ نے ایک گہری سوچ کو بہت ہی آسان الفاظ میں بیان کیا۔ ایسے ہی لکھتے رہیئے۔
پاکستان کی تاریخ میں جو واحد غیرجانبدارنہ انکوائری ہوئی تھی وہ 1954 میں حمودالرحمن کمیشن نے کی تھی۔ جسٹس حمود الرحمن کے مطابق ان مولویوں کا اصلی ایجنڈا پاکستان کو کمزور کرنا ہے تاکہ اس کو دوبارہ ہندوستان میں ضم کیا جا سکے۔ چونکہ عوام کی یاد داشت عموماً کمزور ہوتی ہے۔
اس لیے وہ یہ بات بھول گئے ہیں۔ یہ مولوی کبھی بھی پاکستان اور اسلام کے دوست نہیں رہے۔ ان سےکوئی بھی اچھی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب ، آداب ۔۔ خوش رہيئے۔
وسعت صاحب آپ کی ہر بات ہي سادگی ميں بھی ہزار معنی و مفہوم سميٹے ہوئے ہوتی ہے بلکہ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ لفظوں کے درمياں جو سکوت ہوتا ہے اس ميں بھی فکر کا طوفان ہوتا ہے مگر ايک اور بات جو ميں نے محسوس کی ہے وہ ہے آپ کا عوامی رنگ اور عام افراد سے ملنا جلنا ان کی باتيں کرنا جيسے کہ عبداللہ پان والا اور اب يہ ذاکر ۔۔جس کی سادہ باتيں عام افراد کے احساسات کي ترجماني کررہي ہيں اور يقيناً آپ کے ان افراد کے ساتھ تعلقِ خاص کی وجہ ہي سے ان کے سچے اور مصلحت سے دور احساسات ہم تک پہنچتے ہيں۔ ميری دعا ہے کہ يہ عوامی باتيں، عوامی ووٹوں سے حکومت اور حزبِ اختلاف کے مزے لوٹنے والے سياسی اور مذہبی ليڈروں تک بھی پہنچ جائے۔
ذاکر نے کيا خوب کہا کہ ۔۔’چوڑو ماڑا ! یہ مولوی سیب بھی بڑا مزے کا آدمی اے۔۔۔۔یارا یہ مسجد کا منبر نئیں چوڑتا۔۔۔۔۔۔تو سیٹ میٹ کیسے چوڑے گا۔۔۔۔‘
ذرا بھی نرخ ہو بالا تو تاجرانِ حرم
گليم و جبہ و دستار بيچ ديتے ہيں
ميری طرف سے عبداللہ اور ذاکر کو ہيلو ہائے کر ليجئے گا۔ مجھے اميد ہے عبداللہ صحتمند ہوگئے ہوں گے۔ اپنا خيال رکھيئے گا اور ہميشہ کی طرح عوام کا بھی ۔۔
ملتمسِ دعا
سيد رضا
کہا اونٹ پر بيٹھيں گے کہا اونٹ پر بيٹھو،
کہا کوہان کا ڈر ہے‘ کوہان تو ہوگا
مشرف پر دباؤ ڈالنا ہے تو استعفی تو دينا ہو گا۔البتہ پاکستانی سياستدانوں کا الميہ ہے کہ جو کہتے ہيں وہ کرنا نہيں ہوتا۔ ابھی ميثاق جمہوريت کی بات کي، ابھی اس کو لات مار دي- ابھی استعفوں کی بات کي اور پھر بھول گئے۔ مگر ان سے قوم کا پيار نہيں بھلايا جاتا۔ يہ قوم سے کتنا پيار کرتے ہيں؟ پردے ميں رہنے دو۔
جناب وسعت اللہ خان صاحب آداب! بہت سادہ انداز ميں بہت اہم بات کی آپ نے۔ کيا فرق ہے ايم ايم اے اور حکمران اتحاد ميں ما سوائے چہروں اور نعروں کے۔ کيا پاکستان کی کسی سياسی پارٹی ميں جمہوريت اور اصول کی چيز بھی ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات اور ذاتی خواہشات کے غلام ہيں۔ اور کوئی بھی عوام کے مسائل پر بات نہيں کرتا۔ ايم ايم اے نے اپنا سارا وقت وردی وغيرہ پر اور بے معنی احتجاج پر صرف کر ديا۔
حمود الرحمن کميشن کی کميشن کی رپورٹ کا يہ حصہ بلا شبہ عوام کی ياد داشت سے محو ہو سکتا ہے جس ميں مولويوں پر پاکستان کمزور کرنے کا الزام ہے ليکن اس عوام کے ذہن سے کياپاکستان توڑنےوالوں کا تصور کھرچا جاسکتاہے۔ مولويوں نے کبھی غلامی کی ٹوپی نہيں پہنی ليکن فوجي ٹوپيوں کی نيچے غلامی کے ذہن نے ہر طرح کی خريد و فروخت کی ہے۔ کيا ان تاريخی حقائق کا انکار کوئی ذی شعور کرسکتا ہے۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب آداب و تسليمات! حيران ہوا ہوں کہ آپ جيسے قابل و عامل حالات پر گہری نظر رکھنے والے فاضل صحافی کو ذاکر کے کردار کا سہارا لينا پڑا۔ يہ بات تو اب واضح ہوگئ ہے کہ اگر سردی بھی لگ رہا ہے تو بھی ہم کمبل نہيں چوڑے گا کيونکہ حکومت کا کمبل بھی ہم کو نہيں چھوڑتا۔ اچھا کچھ لوگ پہچانے گئے اور انکے برسوں کے يارانے بھی نہ گئے۔ ذرا بات سے بات ميں يا کسی اور بلاگ ميں قائد حزب اختلاف کی مراعات کو بھی موضوع بنائیے گا۔ شکريہ!
وسعت اللہ صاحب ماشااللہ آپ کمال لکھتے ہيں۔ پھر آپ سٹريٹ ليول پر جا کر محلات کی سياست کے راز افشاء کر تے ہيں۔ خدا کرے ان دماغ کے اندھے حکمرانوں اور اقتدار کے بھوکوں کو وہ آنکھ نصيب ہو جائے جس سے وہ آپ کی طرح گلی کوچوں کے حالات ديکھ اور سن سکيں تو شاید ملک کی قسمت بدل سکے۔ يہ تب ہی ہو گا جب سارے لکھنے والے آپ جيسے ہو کر لکھنا شروع کر ديں گے۔ قلم کا جہاد ہی آج کی ضرورت ہے۔ اسی ميں امت کی نجات ہے۔ پس ہميں ’ سلطان القلم‘ کی تلاش ہے۔
ہاہاہا زبردست خان صاحب۔ کيا بات ہے، بڑا درست اور برمحل تجزيہ ہے، جيتے رہو۔
خان صاحب اسلام و عليکم۔ بدقسمتی سے ايم ايم اے کبھی بھی خود مختار نہیں رہا۔ جن کا کھاتے ہيں انکا ہی گاتے ہيں۔ باقی سب ٹوپی ڈڑامے کرتے ہيں، يہ استعفی نہیں دیں گے۔
اس ميں تو کوئی شک نہيں کہ ہمارے مولوی حضرات ميں بہت خامياں ہيں ليکن ايک بات بڑی واضح ہے کہ آج تک شاید ہی کوئی عالم دين يا مولوی کرپشن ميں ملوث رہا ھو حالانکہ وہ بھی مختلف حکومتوں يا وزارتوں کا حصہ رہے ہيں۔ لوٹا ازم ميں بھی يہ نہ ہونے کے برابر ہيں۔ يہ کريڈٹ بہرحال انہيں ملنا چاہئے۔
وسعت صاحب السلام عليکم
کراچی ميں فروٹس اتنے مہنگے؟ سن کر اوسان خطا ہوگئے۔ حيدرآباد دکن ميں تو کيلا آٹھ روپے درجن اور سيب ساٹھ روپے درجن ملتا ہے۔ ويسے زمين اوسطا پينتيس ہزار روپے مربعہ گز ہے۔ اب پاکستانی مولويوں کے خلاف کچھ بولنے کی ميں ہمت نہيں رکھتا اور سياست کی بات کريں تو اللہ ہی حافظ ہے۔