| بلاگز | اگلا بلاگ >>

بائیو میٹرک ٹائپ رائٹر

وسعت اللہ خان | 2007-01-11 ،16:24

پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرہ) کا دعوی ہے کہ الیکٹرانک پاسپورٹ متعارف کرانے کے نتیجے میں جہاں غیر قانونی پاسپورٹ کا ریکٹ ختم کرنے میں مدد ملی ہے وہیں یہ آسانی بھی ہوئی ہے کہ اس پاسپورٹ کی تفصیلات کمپیوٹرائزڈ نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے امیگریشن کے کمپیوٹر پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
blo_wusat_nadra_150.jpg

اور یوں قانونی مسافر کی آسانی سے تصدیق ہو جاتی ہے اور غیر قانونی مسافر کو روکا جاسکتا ہے۔

اگر نادرہ کا یہ دعوی درست ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ جب بھی میں پاکستان سے باہر جاؤں یا واپس آؤں تو امگریشن افسر میرا الیکٹرانک پاسپورٹ اسکینر سے گزارے اور میری ساری تفصیلات اس کے کمپیوٹر پر آجائیں اور وہ ’تھینک یو ویری مچ‘ کہہ کر میرا پاسپورٹ واپس کر دے۔

نہیں بالکل نہیں۔ ایسا قطعاً نہیں ہے۔ پچھلے دو برس کے دوران میں پاکستان سے کم از کم بارہ مرتبہ بیرونِ ملک جا چکا ہوں۔ ہر مرتبہ پاسپورٹ کنٹرول کے کاؤنٹر پر امیگریشن افسر میرے الیکٹرانک پاسپورٹ کی تفصیلات اپنے کمپیوٹر کی بورڈ پر پانچ منٹ تک ٹائپ کرتا ہے۔ پھر کیمرے سے تصویر لے کر اسے اپنے کمپیوٹر ڈیٹا بینک میں محفوظ کرتا ہے۔ پاکستان واپسی پر یہی عمل پھر سے دہرایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اب تک میرے ایک ہی پاسپورٹ کی چوبیس مرتبہ ڈیٹا انٹری ہو چکی ہے اور چوبیس تصاویر محفوظ ہوچکی ہیں۔

کروڑوں روپے کی جدید ترین بائیومیٹرک ٹیکنالوجی کو ایک معمولی ٹائپ رائٹر کے درجے پر لانے والے متعدد امیگریشن افسران سے جب میں پوچھتا ہوں کہ آخر وہ ہر مرتبہ پاسپورٹ سکین کرنے کی بجائے ایک ہی ڈیٹا بار بار کیوں محفوظ کرتے ہیں۔ اس سوال کے طرح طرح کے جواب ملتے ہیں۔

’سرجی ابھی پورا سسٹم نہیں ہے۔‘
’جناب سسٹم تو پورا ہے مگر ہمیں آرڈر یہی ہے کہ ڈیٹا اسی طرح محفوظ کیا جائے۔‘
’بس جناب ہم تو حکم کے پابند ہیں۔ جو افسر کہتا ہے وہی کرتے ہیں۔‘

اب یہی سسٹم بائیومیٹرکس کے نام سے چمن کے پاک افغان بارڈر پر نصب کیا گیا ہے اور اس کا مقصد غیر قانونی گاڑیوں اور انسانوں کی آمد و رفت کی روک تھام بتایا جا رہا ہے۔

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب پاکستان کے بین الاقوامی ائیرپورٹس پر بیرونِ ملک آنے یا جانے والوں کو ایک ہی دروازے سے گزرنا پڑتا ہے اور وہاں بھی کمیوٹرائزڈ نظام محض ایک ٹائپ رائٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے تو پھر ڈیورینڈ لائن پر کیا ہوگا جہاں آنے اور جانے کے ایک، دو یا تین نہیں بلکہ سو سے زائد پہاڑی راستے ہیں؟

معلوم نہیں کون کسے بےوقوف سمجھ رہا ہے یا بنا رہا ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔