| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ایک اور عجیب اتفاق

عنبر خیری | 2007-01-18 ، 7:30

میں نے پاکسان نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سربراہ کی برطرفی کی خبر سنی۔

میں نے یہ خبر سن کر سوچا کہ یہ کیا عجیب اتفاق ہے کہ یہ تو وہی جنرل ہیں جنہوں نے ایک بڑے تعمیراتی سیٹھ اور قبضہ گروپوں کے سب سے بڑے ’ملِِِک‘ کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔

عجیب اتفاق ہی ہے کہ موضوع اختلاف تعمیراتی سیٹھ کا وہ قبضہ تھا جس میں ان کے مسلح افراد نے جا کر ایک ہاؤزنگ سکیم کی تمام زمین کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اسلام آباد کے قریب واقع اس زمین پر جھڑپیں ہوئیں، خوب فائرنگ ہوئی لیکن اس کے باوجود اس کی خبر کہیں کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر نہیں آئی۔

قبضہ تقریباً مکمل تھا لیکن سنا ہے کہ ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ این ایچ اے والوں نے بھی اس ہاؤزنگ سکیم میں کچھ زمین خریدی ہوئی تھی۔ تو این اچ اے کے سربراہ قبضہ گروپ کے مخالفین میں شامل ہو گئے۔

لیکن شائد سیٹھ کی اعلی عسکری اہلکاروں سےقریبی روابط تھے۔۔۔

بہرحال یہ تو محض اتفاق ہے کہ اب این ایچ اے کے سربراہ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ قبضہ گروپ کے بادشاہ کی ایسی سرگرمیوں پر کوئی رپورٹ نہیں فائل کرنا چاہتا اور نہ ہی کوئی تحقیقات کرنا چاہتا ہے۔ اتفاق ہی ہے کہ کوئی وکیل ان کے خلاف کیس نہیں لڑنا چاہتا، اور نہ ہی کوئی تھانہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرتا ہے۔

اس قسم کے اتفاق ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہونے لگے ہیں۔ مثلا" یہ کہ جب انگریزی جریدے ’ نیوز لائن‘ نے اور معاشی فوائد پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تو نہ صرف نیوزلائن کو دھمکیاں ملیں بلکہ رپوٹ تیار کرنے والی ماہر دفاعی امور کے خاندان والوں کو بھی۔ ان کے شوہر اسلام آباد میں رستوران چلاتے ہیں اور یہ بھی محض اتفاق ہوگا اگر اس رستوران کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اچانک ان کے کاروبار کے خلاف کوئی کارروائی شروع کر دی جاتی ہے۔۔۔

ہم سب کو یاد ہے کہ موجودہ صدر نے جب سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی تھی کہ سویلین حکومت ’مُلک کے آخری مستحکم ادارے، یعنی فوج‘ کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔‘

اب یہ محض اتفاق ہی ہے کہ اسی مستحکم ادارے کے اہلکاروں کی جب منافع بخش کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بات ہوتی ہے تو بات کرنے والے پر سخت دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

بہرحل اس قسم کے اتفاق ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہونے لگے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 11:39 2007-01-18 ,Sajjadul Hasnain :

    آپ نے بڑے دلچسپ انداز ميں اتفاقات کی بات کہی ہے- يہ اتفاق صرف پاکستان ہی ميں نہيں ہوتے يہ اتفاق انڈيا ميں بھی ہوتے ہيں اور اتفاقات پرماشا اللہ سے جب چاہے پردہ ڈالنے کی کوششيں بھی پورے اتفاق سے ہوتی رہتی ہيں اور اگر اتفاق سے کوئی جيالا انہيں بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی کسی اتفاقی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔ بہر حال اتفاقات ہيں زمانے کے کيا کيا جائے۔
    سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 2. 12:52 2007-01-18 ,فرخ شھزاد :

    سارے اتفاقات مين يہ اتفاق بھی شامل کرليں کہ يہی اتفاق گزشتہ دو دہايوں سے امريکہ اور برطانيہ ميں بھي ہو رہے ہيں اور وہاں بھی صحافيوں کے ساتھ اسی طرح کے اتفاقات ہو جاتے ہيں- فرق صرف يہ ہوتا ہے کہ امريکی کا دائرہ کار ملکوں پر محيط ہے جبکہ پاکستانی ’لینڈ مافیا‘ ذرا اپنی حيثيت کےمطابق-
    جسکی جتنی بڑی لاٹھی اسکی اتنی ہی بڑی بھينس۔ کيا سمجھے؟

  • 3. 12:58 2007-01-18 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    این ایچ اے کے سربراہ کی معطلی کا معاملہ ہونے اور قبضہ گروپ کے با اثر کی نقاب کشائی کی ايک شرمناک کہانی ہے۔ اس ملک ميں ايک ہی قبضہ گروپ ہے جو 56 سال سے ملکی سياست، عدليہ، چمچموں کے ذريعے مقننہ اور اقتصاديات پر بھی قابض ہے۔
    ياد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کيس ميں ججوں کو فارغ کر ديا گيا کہ وہ آزاد فيصلہ دينے والے تھے- (مسٹر جسٹس کے ايم صمدانی اور مسٹر جسٹس وحيدالدين احمد)۔ اکبر بگٹی اور بہت ساروں کو ڈاکٹر شازيہ کيس ميں کيپٹن کو نامزد کرنے کی سزا دی گئی-
    يہ اتفاق ہو گيا کہ اس دور ميں سب سے بڑے اسٹيٹ ايجنٹ کے قبضہ ميں رکاوٹ ڈالنے کی جرات کی گئی مگر ناکام ہو گئ، بھولے تھے شايد-
    یہ تو ايک شرمناک اور عبرتناک انجام کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
    اپنا خيال رکھیہ گا
    مخلص
    مياں آصف محمود
    ميي لينڈ، امريکہ

  • 4. 14:58 2007-01-18 ,shahidaakram :

    عنبر جی يہی زندگی ہے اور يہی اس کے اتفاقات ہيں جن کو ديکھ ديکھ کر آج ہم اور آپ بڑے ہوۓ ہيں اب تک تو آپ کو ان سب باتوں کا عادی ہو جانا چاہيۓ تھا کيونکہ شايد يہی دستور زمانہ ہے کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلتی رہی ہے اور ہر طاقتور کمزور يا اپنے سے کم طاقتور کے بخيۓ اُدھيڑنے کو ہر دم تيار رہتا ہے اب وہ طاقتور کوئ بلڈر ہو ، کوئ بڑی حکومت ہو ،فوج ہو يا دُنيا کے سب سے بڑے چوہدری صاحب کی ہٹ دھرمياں ہوں بات کو اگر اس تناظر ميں ديکھيں گے تو اُميد ہے جلدی سمجھ ميں آجاۓ گی کہ اگر کسی ماڑی جان نے ذرا بھی آنکھ کھول کر ديکھنے کی کو شش کی تو بس،سو جو بھی ذرا سا ہمّت دکھانے کی کوشش کرتا ہے ٹريلر کے طور پر جيسے ہائ جيکر کسی ايک آدھ بندے کی لاش پھينک کر دہشت پھيلا ديتے ہيں تا کہ باقی لوگ خود ہی راہ پر آجائيں اب ديکھ ليں نا باقی سب کو چُپ کروانے يا وارننگ دينے کے لۓ ايک صدام حُسين کو پھانسی دے دی گئ اب سامنے وہی آۓ گا جس کو اپنے دھڑ پر لگی گردن پياری نہيں ہوگی ہم چھوٹے تھے تو ايک بچے کی شرارت پر جب ٹُھکائ ہوتی تھی تو باقی بچے خود ہی سہم جايا کرتے تھے اور گھر ميں امن ہو جايا کرتا تھا بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ پوری دُنيا ميں يہی اصول رائج ہے بات منافع کی ہو يا نُقصان کی آج دُنيا کے اصول ہی يہی ہيں
    کہ جس کو ہو جان و دل عزيز
    اُس کی گلی ميں جاۓ کيوں
    سو دعا يہی ہے کہ بات خواہ چھوٹے پيمانے کی ہو يا بڑی گھمبير صُورت حال ہو جو بھی کسی بڑی مچھلی کی نظر ميں آيا سمجھو خاتمہ يقينی ہے
    دعا گو
    شاہدہ اکرم

  • 5. 6:15 2007-01-19 ,فدافدا :

    اپ نے بھٹو کے دور کی يا دلا دی جب بلوچستان ميں ترقياتی کام کا عروج ہوا تھا تب ايک پٹھان قوم پرست اس پر برستے رہے کہ حکومت نےسرحد کے پٹھان انجئنريئروں کو بلوجشتان ميں کام پر کيوں لگايا کوئٹہ کے پٹھان لگتے تو رشوت کا پيسہ کوئٹہ ميں مصرف ہوتا! ويسے فوجی کاروباری ادارے اس لیے منافع بخش ہيں کہ جانتے ہيں بزنس پلان کيا ہو مصنوعات کی کوالٹی کيسے بہتر ہو فوج کے اينمل ہسبنڈری ونگ نے مصنوعی نسل کشی سے بڑھکر کامياب کلونگ بھی کر دکھائی اور مصنوعی بارشيں تک برسا دکھائيں۔!

  • 6. 8:31 2007-01-19 ,Muhammad :

    یہ ملک تو بنا ہی فوج کے لیے ہے۔

  • 7. 13:19 2007-01-19 ,anver pervez :

    اتفاق سے امريکہ کو سوات ميں ايک برگيڈير ملا۔ پھر اس کے ساتھ اتفاق ہونے لگے۔ شہباز شريف کو يقين دہانی کرائی گئی کہ بے فکر رہو باقی کا ڈرامہ سب کو معلوم ہے۔’ سياں بھوے کوتوال، ہميں ڈر کس کا۔‘ تاريخ بتاتی ہے ڈکٹيٹر کی سنگل انٹری ہوتی ہے۔ سيکنڈ اينٹری نہيں ہوتی۔ اس انٹری کو بڑھانے کے لیے وہ ملک کو بھی داؤ پر لگا سکتا ہے۔ يحيي کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آپ ابھی سے گھبرا گئیں۔ سنا ہے وہاں تو بيس سال کا پروگرام ہے (’سچ بات پر ملتا ہے سدا زہر کا پيالہ،جينا ہے تو پھر جرآت اظہار نہ مانگو‘)۔ اس لیے ہمارے طاقت ور کور کمانڈر چپ ہيں اتفاق سے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔