| بلاگز | اگلا بلاگ >>

آپ کی عربی کیسی ہے؟

وسعت اللہ خان | 2007-02-08 ،12:40

چند روز قبل پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے بیک پیج پر یہ خبر شائع ہوئی کہ وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کی ایک لیکچرر ڈاکٹر غزالہ انور کا کنٹریکٹ اچانک تین ماہ بعد یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ان کی عربی زبان کی استعداد سے مطمئن نہیں ہے۔

پاکستانی امریکن غزالہ کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بیرونِ ملک سے کنٹریکٹ پر ماہرین بلانے کی سکیم کے تحت رکھا گیا تھا۔ انہوں نے امریکہ کی سے فلسفے اور ’ریلیجیس سٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی کی اور نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی میں بطور لیکچرر کام کرتی رہیں۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات میں فقہ، تصوف اور صنفی مسائل شامل ہیں۔

اسلامک یونیورسٹی میں ان کے کچھ شاگردوں نے ڈاکٹر غزالہ کی اس رائے کو پسند نہیں کیا کہ ہم جنس پرستی ایک نارمل جنسی رحجان ہو سکتا ہے۔ کچھ مقامی اخبارات نے اس معاملے کو اٹھایا۔ جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو خیال آیا کہ ڈاکٹر غزالہ کی عربی استعداد کمزور ہے اور یوں انہیں فارغ کر دیا گیا۔

ڈاکٹر غزالہ اب امریکہ واپس جا چکی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے کمیشن سے کہا تھا کہ وہ خود کو اسلامک یونیورسٹی میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ لہذا انہیں کسی اور جگہ مقرر کر دیا جائے۔

اس خبر کو پڑھنے کے بعد میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب یونیورسٹی جیسی جگہ پر عاقل بالغ لوگ متنازعہ مسائل اور موضوعات پر علمی بحث نہیں کر سکتے اور اپنے خیالات سے مختلف خیال برداشت نہیں کر سکتے تو پھر آخر کہاں کر سکتے ہیں؟

اس بات کی کب تک تردید کی جاتی رہے گی کہ ہمارے ہاں ہم جنس پرستی کا کوئی وجود نہیں۔ اور جب وجود نہیں تو پھر یہ کوئی موضوع ہی نہیں اور جب موضوع ہی نہیں تو اس پر کوئی سنجیدہ بات کرنے کا فائدہ؟

اس ملک کے ہر قریے میں تھڑوں پر بیٹھے لوگوں سے لے کر ڈرائنگ روم میں موجود سفید پوشوں تک کتنے لوگ ہیں جو جنسی موضوعات پر روزانہ کھلی یا ڈھکی چھپی گفتگو نہیں کرتے۔

لیکن ہاں! جنسی موضوعات پر گفتگو ہنسی، ٹھٹول اور لطیفہ بازی کے پیرائے میں تو قابلِ برداشت ہے لیکن آپ نے اگر اس موضوع کو سنجیدہ یا علمی مباحثے کی صورت دینے کی کوشش کی تو پھر آپ کی عربی چیک ہو سکتی ہے۔

اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ڈاکٹر غزالہ کی لسانی استعداد پرکھے بغیر انہیں امریکہ سے بلا کر کنٹریکٹ تھما دیا۔ وہ لوگ کہاں ہیں؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 22:10 2007-02-08 ,عشرت :

    ہم جنس پرستی پر بحث کرنا اور حامی ہونا دو علیحدہ علحيدہ باتين ہيں۔

  • 2. 8:12 2007-02-09 ,zafar :

    جناب، آپ کو معلوم ھو نا چاہئے کہ مسلما نوں کے ھاں طے شدہ باتوں پر بحث مباحثے کی گنجائش نہیں ھے بلکہ ان پر عمل کرنے کا حکم ہے پھر بھی نجانے ماڈريٹ لوگوں کو يہی بات کيوں سمجھ نہیں آتی کہ ھم جنس پسندی کو اسلام ميں منع کيا گيا ھے۔ ’آپ جيسے لوگ‘آخر اس برے فعل کو برا کيوں نہیں مانتے؟ `

  • 3. 10:02 2007-02-09 ,اے رضا ، ابوظبی :

    آپ کا مطلب ہے کہ سيدھي طرح سے کہہ کيوں نہيں ديا گيا ’ ڈاکٹر صاحبہ آپ کا طرزِ فکر ہم سے ميل نہيں کھاتا، آپ تشريف لے جا سکتی ہيں۔ بات سمجھ ميں آتی ہے، ليکن پھر ہماری حسِ مزاح کا کيا ہوتا؟ !

  • 4. 10:38 2007-02-09 ,اے رضا ، ابوظبی :

    آپ کا مطلب ہے کہ صاف کہہ ديا جاتا کہ ڈاکٹر صاحبہ خطِ ممنوعہ عبور کر چکيں اس لۓ قابلِ قبول نہيں رہيں۔ بات سمجھ ميں آتی ہے ليکن پھر ہماری حسِ مزاح کا کيا ہوتا؟

  • 5. 4:06 2007-02-10 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    اگر خدا اپنے محبوب پيخمبر حضرت نوح عليہ اسلام کے واقعے کے حوالے سے ان کی قوم کو پڑی اس علت پر اس قوم کی تباہی کا ذکر کر سکتا ہے تو معاشرے ميں موجود سيکس کو ڈسکس کرنے سے يقيناً اس کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔

  • 6. 6:31 2007-02-10 ,عديل خاکي :

    بي بي سي والے ميرے تبصرے پر شائد پابندي لگا چکے ھيں اس لئے کوئي تبصرہ شائع نہيں کرتے۔ افسوس!

  • 7. 7:06 2007-02-10 ,محمد اعظم :

    نیو یارک میں بھی تو داڑھی اور عمامہ والے مسلمان کو بردشت نہیں کیا جاتا۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔

  • 8. 7:58 2007-02-10 ,Rehan Farooq :

    اگر مغرب میں بچیوں کے سکول میں حجاب پہننے پر پابندی لگ سکتی ہے تو اسلامی یونیوسٹی یا پاکستانی حکومت ایک ایسے استاد کو کیوں نہیں نکال سکتی جو نوجوانوں کو ملک کی اقدار کے مطابق تعلیم نہیں مہیا کرسکتا/سکتی۔ یہ صرف دوہرے مغربی معیار کی نشانی ہے۔

  • 9. 11:10 2007-02-10 ,baba jee :

    وسعت اللہ صاحب، آخر آپ کی ہر بات اسلام دشمنی پر مبنی کیوں ہوتی ہے؟

  • 10. 11:52 2007-02-10 ,اقرار :

    اصل ميں با ت جنسی رويوں کی نہيں ہو رہی بلکہ اصل مدعا محتلف رائے کو سننے کا ہے۔ جہاں تک جنسی رويوں کا تعلق ہے تو يقيناً مغرب کی سوچ اسلام سے مختلف ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔