| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صفائی سے پرہیز کریں

عنبر خیری | 2007-03-05 ، 7:33

ہمارے دفتر میں کچھ مخصوص لوگوں نے مل کر ایک چائے کا فنڈ بنایا ہے۔ ہر ماہ سیکشن کا(تقریباً) ہر فرد پیسے دیتا ہے (ایک پاؤنڈ) جس کے بدلے میں ہمیں اپنے سیکشن کے اندر چائے بنانے اور پینے کی سہولت مل جاتی ہے۔

چند افراد نے اس نظام کو سنبھالنے کی رضاکارانہ طور پر ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ وہ ہر ماہ پیسے بھی جمع کرتے ہیں اور پھر سامان خرید کر بھی لاتے ہیں۔

لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ہماری کینٹین میں صرف ایک کپ جائے 70 پینس یعنی تقریباً پون پاؤنڈ کی ملتی ہے لیکن پھر بھی ہمارے کچھ ساتھی ایسے ہیں جو پورے ماہ کی چائے کے لیے ایک پاؤنڈ بھی نہیں دینا چاہتے۔ اوپر سے اس موضوع پر ایسی تقریر کرنا شروع دیتے ہیں جیسے کہ وہ کوئی بہت بڑے اصول کی وجہ سے چائے فنڈ میں ایک پاؤنڈ نہیں دے رہے۔

یے الگ بات ہے کہ اس مخالفت کے باوجود وہی لوگ کبھی کبھار چائے فنڈ سے خریدی ہوئی چینی، چائے اور دودھ سے سیکشن میں چائے بنا کر پی لیتے ہیں۔ اصول آخر اصول ہیں۔

پھر منتظمین کو لوگوں کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ یہ پتی خراب ہے، وہ دودھ بدمزا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

میں ان چند افراد کو داد دیتی ہوں کہ اس نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور میں اپنے باقی ساتھیوں کا رویہ دیکھ کر سوچتی ہوں کہ اس سے ہماری ذہنیت اور سماجی اور سیاسی سوچ کے بارے میں کافی کچھ پتہ چلتا ہے۔ ہم نہ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہم کسی اجتماعی نظام کو چلانا اور اس کے لیے رقم فراہم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

پھر یہ کہ ہم اس نظام میں صفائی کو بھی پسند نہیں کرتے۔ زیادہ تر لوگ چائے بنا کر اس میز کو صاف نہیں کریں گے جہاں چائے اور چینی اور پانی گرا چکے ہوں حالانکہ ایک نیپکن سے اسی وقت میز کو پونچھنا کوئی مشکل کام نہیں۔

آج صبح سیکشن میں آکر دیکھا تو چائے کا کاؤنٹر ایک گھناؤنا منظر تھا۔ چائے کے دھبے، چینی جمی ہوئی۔۔۔اور اسی میز پر صفائی کے پیپر نیپکن جو کسی نے استعمال کرنا مناسب نہ سمجھا۔

ہمارا مذھب بھی بڑا صفائی پسند ہے اور ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن اپنے لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ہاں نصف صفائی ہی ہمارا ایمان ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:08 2007-03-05 ,احمد شریف ۔۔۔ملتان :

    خیری جی۔۔اللہ خیر کرے گا۔۔۔آپ کے اس بلاگ کو پڑھ کر اندازہ ہو گیا کہ اردو شعبے کے لوگوں کا ایمان بھی نصف ہی ہے، میں نے خود اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ شکر ہے پیغمبر اسلام نے صفائی کو مکمل ایمان نہیں کہاتھا ورنہ سوچیئیے کہ 90 فیصد لوگوں کا کیا حال ہوتا۔
    بی بی سی کے اردو شعبے کے اکثر احباب کی یہ حالت پڑھ کر خیال آتا ہے کہ "دیگراں را نصیحت خود میاں؟
    آپ نے یہ لکھ کر خود احتسابی کا مظاہرہ کیا ہے

  • 2. 15:53 2007-03-05 ,Sajjadul Hasnain :

    عنبر جی دفتر کی باتيں ہوتی ہی دلچسپ ہيں ہمارا دفتر بھی اس طرح کی دلچسپيوں سے خالی نہيں -مگر ہمارے ہاں چائے وائے بنانا تو کجا پينے کی بھی پابندی ہے ميز پر! مگر ہاں اتنا ضرور ہے کہ آپ کينٹين ميں شناختي کارڈ فليش کرکے پی سکتے ہيں مگر مفت ميں نہيں بلکہ فی چائے دو روپے کے حساب سے تنحواہ ميں سے منہا ہوجاتے ہيں چاہے کچھ کھاو پيو بہر حال ہورہی تھی آپ کے دفتر ميں چائے بنانے کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں نہ ہونے والی صفائی کی پہلے تو آپ کا بلاگ پڑھ کر ميں بہت دير تک ہنستا رہا اکيلے نہيں بھئی شئير کرکے ! اور اس کے بعد بات ميں بات پيدا کرنے والے آپ کے انداز پر عش عش کرتا رہا کتنے ہلکے پھلکے انداز ميں آپ نے ہم مسلمانوں ميں پائی جانے والی چھوٹی موٹی خرابيوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے ايسی خرابياں جن کی جانب کسی کا دھيان ہی نہيں جاتا کتنا عظيم ہے ہمارا مذہب جو پاکی کو آدھا ايمان بتاتا ہے اور کتنے خراب ہيں ہم کہ اس جانب توجہ ہی نہيں ديتے
    خير انديش سيد سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 3. 19:27 2007-03-05 ,ابو فردوس کشمور :

    محترمہ ہمارے تقريبا تمام سرکاری اداروں ميں اکثر ملازمين کی يہی نفسيات ہے ! ہمارے ايک کوليگ بھی چاءے کا چندہ نہي ديا کرتے تھے لين جب چائے تيار ہو کر آتي تھي تويہ موصوف بھي پہنچ جاتے تھے آج سے سولہ برس قبل تو ان کا يہ عمل مجھے جلا کر رکھ ديتا تھا ليکن ايک مرتبہ سوچا تو حقيقت آشکارا ہوئی کہ يہ سب نفسا افسی کا کيا دھرا ہے ہو سکتا ہے ان صاحب کے کچھ مالی مسائل ہوں اور وہ ايک پاؤنڈ بچانا چاہتے ہوں باقی رہی تنقيد کی بات تو ہم ديسی جاہلوں سے زيادہ آپ ديسی انگريز آزادئ اظہار اور کھلی تنقيد کی حمايت کرتے ہيں صفائی غلطی سے بھی تو رہ سکتی ہے

  • 4. 19:59 2007-03-05 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ ، آداب
    بھئ آپ نے تو بڑی سچائ سے اپنے دفتر کي اندر کی کہانی سنادی ۔ بلاشبہ يہ بڑی ہمت کی بات ہے کيونکہ پيٹ پيچھے باتيں بنانا اور ہے اور سب کے سامنے غلطی کی نشاندہی کرنا اور ہے مگر اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہ ہو بلکہ مقصد اصلاح ہو اور آپ کی تحرير ميں مجھے اصلاح کا پہلو ہی نظر آتا ہے ۔
    مجھے اميد ہے کہ اس بلاگ کے پڑھنے کے بعد آپ کے دفتری ساتھی آئيندہ سے باقاعدگی سے چاۓ کا چندہ ديں گے اور صفائ کا مکمل خيال رکھيں گے ۔
    ويسے يہ بتائيں کہ چاۓ کا گندہ کاؤنٹر کس نے صاف کيا !؟ آپ نے يا پھر کسی اور نے ؟
    منزل نہ سہی راہ تو اے نقش نئ ہو
    يہ کيا کہ اُدھر جاؤں ، جدھر راہ گذر جاۓ
    بس ايسے ہی اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ دفتر لکھتی رہيں ۔
    خير انديش
    سيد رضا

  • 5. 22:33 2007-03-05 ,جاويد گوندل :

    بات تو آپ کی کافی حد تک درست ہے اور سوچنے کی بات ہے آخر ايسا کيوں ہوتا ہے ؟ـ خيال کيا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول اور اردگرد کا اثر ليتا ہے اسلئيے ان صاحبان کو بھی اب تک اچھی عادات سيکھ جانی چاھيں تھيں ـ اگر يوروپ ميں رہتے رہتے پڑھے لکھے افراد کا يہ حال ہے تو پھر وطنِ عزيز ميں رہنے والے کم تعليم يافتہ لوگوں کا کيا حال ہوگا؟ـ ويسے تو اسکی کئی وجوہات ہونگی مگرشايد ايک وجہ يہ بھی ہے کہ کہ ہمارا معاشرہ افراتفری ، بد حالی اور عدم نظم ضبط کا شکار ہے ـ ہمارے ملک ميں ہر قسم کے اللوں تللوں کے لئيے سرکار دربار کے پاس وقت اور فنڈ موجود ہيں مگر کيا مجال قوم کی اجتماعی رہنمائئ کے لئيے حکومت نے ٹي وی ، اخبار يا کسی ديگر مروجہ طريقے سے عوام کو صفائئ ستھرائي کی تلقين کی خاطر کوئی اشتہار ديا ہو، کوئی پوسٹر لگا يا ہو ـ اور اس طرع کے کاموں کے ذمہ دار ادارے اور ان کے اہل کار بس صبح و شام صرف حکومت اور حاکمِ وقت کی مدح سرائی کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہيں ـ پچھلے ساٹھ قيمتی سالوں ميں اگر قوم کو کسی ايک اچھی عادت کی تلقين روزانہ کی جاتی تو آج ہم صفائی، ستھرائی، نفاست بلکہ شرافت ، ديانت اور اچھے خصائل اور خوبيوں والی زمہ دار قوم ہوتے اور ايک جہاں ہماری عزت کرتا ـ

  • 6. 2:10 2007-03-06 ,اے رضا :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ
    يہي سب کچھ ميري جاۓ کار پر بھي ديکھنے ميں آتا ہے ليکن شائد آپ يقين نہ کرسکيں کہ کچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو فقط آنے والے استعمال کنندہ کا خيال رکھتے ہوئے ، صرف چاۓ بنانے کي جگہ ہي نہيں بلکہ غسلخانے ميں بھيگا ہوا واش بيشن اور کسی اور کی آلودہ کردہ ٹائلٹ بھی صاف کرکے نکلتے ہيں ... اور پھر جِتلاتے بھي نہيں-
    اِن کے بارے ميں کيا کہيۓ گا ؟
    سلام و دعا کے ساتھ
    رضا

  • 7. 2:17 2007-03-06 ,ريحان ساجد :

    عنبر جی
    آداب ـ جی ھا نہ صرف اس سے ہمارے اخلاقی معاشرتی اور سياسی ذہنی ديواليہ پن کا بلکہ غلامانہ ماضی کا بھی بہ خوبی اندازھ ہوتا ہے ـ جب ميں پاکستان ميں ليکچرر تھا تو کينٹين کی غليظ چاۓ سے پچنے کيليے چاۓ کلب بنانے کا مشورا ديا ـ بس پھر کيا تھا يغاوت کی بُو ليے ہوۓ پورے شعبے ميں کنسيپريسی تھورياں گردش کرنے لگيںـ چند حضرات نے چاۓ کو مضر صحت قرار ديتے اس لت سے آزادی پاکستان کی طرح اپنے آپ کو آزاد قرار دے ديا ـ
    قصہ مختصر چاۓ کلب وجود ميں آگيا ليکن کچھ ہی روز بعد چينی اور دودھ غائب ہونا شروع ہوگيا ـ ايک دن ايک صاحب دودھ ميں چينی ملا کر پيتے ہوۓ رنگے ہاتھوں پکڑے گۓ ۔ وجہ عياشی پوچھنے پر صاحب نےپڑی ڈھٹای سے جواب ديا کہ ميں نے اپنی قوتِ اردی کے باعث چاۓ نوشی جيسی مضر صحت لعنت اپنے آپ کو آزاد کر ليا ليکن ميں نے چاۓ کلب ميں اِس ماہ کے پيسے ڈالے ہوۓ ہيں لہذا ميں چاۓ کی جگہ ميٹھا دودھ پی ليتا ہو ـ
    دودھ شير صاحب کے اس معصومانہ جواب پر چاۓ کلب کميٹی نے اس کتبہ قبر کی طرح

    باباعلم دين
    عمر نانوے برس
    حصرت اُن غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گۓ

    فوراً چاۓ کلب کي بےوقت اور ذلت آميز موت کا اعلان کرديا
    اور اگلے ہی روز تا ئبينِ چاۓ سميت تمام اِس مصرے کے پہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمير تھا کے مصداق کينٹين کے غليظ برتنوں ميں بدمزہ چاۓ پيتے تبديليِ نظام پر اپنی اپنی تجاويز اور تھيوريز بر داد تحسين بلا کسی شرمندگی کے حاصل کر رہے تھےـ
    عنبر جی ميں خيری نام کا پڑا احسان مند ہوں کيونکہ اس نام کی اپنی ذات ميں منفرد شخصيت وہاب البدين خيری نےقاۂداعظم يونيورسٹی اسلام آباد سے ميری اکپيلشن کے خلاف تين سال تک بلا معاوضہ ہاہی کورٹ تک ميرا مقدمہ لڑا تھا ـ
    ريحان ساجد
    اردو سروس
    ايس بی ايس ريڈ يو
    آسٹريليا

  • 8. 5:11 2007-03-06 ,Muhammad Azhar :

    آپ نے تو کمال لطافت سے اس انسانی اور سماجی رويے کو اجاگر کيا ہے اتحاد يگانگت اور آپس ميں مل جل کر رہنا گو کہ وہ دفتر کے لوگ ہون يا ہمارے معاشرتی ميل جول کے لوگ „ايک اجھے ماحول اور فضا کو جنم ديتے ہين„ گو کہ گندی ميز پر کپڑا مار دينے سے عزت کم نہين ہو جاتی ليکن ہم اس کو اپنی شان کے خلاف جانتے ہين

  • 9. 7:25 2007-03-06 ,خیر خواہ :

    عنبر آپ کی خیر ہو۔ یہ ’نصف صفائی ہی ایمان ہے’ والی لائن آپ نے کہاں سے لی؟ اگر اوریجنل ہے تو بہت خوب، اور اگر مستعار لی ہے تو بھی بھلی ہے۔

  • 10. 7:40 2007-03-06 ,وسعت اللہ خان :

    بھئ امبر
    آ پ نے يہ موضوع چھيڑ کر کمال جراتِ رندانہ سے کام ليا ہے۔آپ تو صرف چائے کی ميز کے اردگرد کا رونا رورہی ہيں۔سيکشن ميں تو انيس سو اکيانوے سے خود ميں ديکھتا رھا ہوں کہ کھانے کی ٹريز صبح سب سے پہلے آنے والے ساتھيوں اور ساتھنوں کو مختلف ميزوں سے اٹھا کر باہر رکھنے کا اضافی فريضہ انجام دينا پڑتا تھا۔اور اگلے دن پھر يہ منظر ديکھنے کو ملتا تھا۔مزے کی بات يہ ہے کہ کسی نے کبھی اقبالِ جرم نہيں کيا کہ يہ ٹرے اسکی ہے۔مجھے يقين ہے کہ آج بھی صورتِ حال يہی ہوگي۔

    اگر ای ميلز کا ريکارڈ چيک کيا جائے تو سيکشن اسسٹنٹ نشاط برنز اور ہر سيکشن ہيڈ نے جتنی تلقين آموز يا دھمکي يا دردمندانہ اپيل والي ای ميلز صفائی کا خيال رکھنے پر ارسال کی ہوں گی انکی تعداد سينکڑوں ميں ہوگي۔ليکن مجال ہے کوئی اثر ہوا ہو۔

    اور مزے کی بات يہ ہے کہ انہی ميزوں پر روزانہ ماحوليات اور آلودگی سے متعلق مراسلے اور تبصرے بھی لکھے اور ترجمہ کئے جاتے ہيں۔
    ميں ايک جانب سيکشن ميں آلودگی کی روائيت پر قائم اوردوسری جانب آپ جيسے دکھی لوگوں کے لئے صرف يہ کہہ سکتا ہوں
    لگے رہو منا بھائی

  • 11. 11:08 2007-03-06 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    خير خواہ صاحب / صاحبہ ، عنبر صاحبہ کی خير کے ساتھ آپ کی بھی خير ہو آپ کا خيرخواہانہ تبصرہ اور خير خواہ نک نيم اچھا لگا ۔ بس ايسے ہی خير کی طرف بلاتے/ بلاتی رہيں ۔
    خير انديش
    سيد رضا

  • 12. 12:27 2007-03-06 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    محترم اور پياری بہن عنبر صاحبہ
    اسلام و عليکم
    آپکے دفتر کے لوگ نصف ِايمان کی کی پرواہ نہی کرتے اور نصف صفائي کو ايمان سمجھتے ہيں ہمارے اہل اختيار تو مکمل صفائی کر جاتے ہے اور يہ عمل کچن تک محدود نہی جس شے پر ہاتھ پڑے صاف، لہزا ان کا رتبہ کچھ بلند ہے-
    کيا خيال ہے آپکا-
    آپ اپنا خيال رکھيے گا
    دعا گو عاجز
    مياں آصف محمود
    واشنگٹن
    رياست ہاے متحدہ امريکہ

  • 13. 16:05 2007-03-06 ,shahidaakram :

    عنبر جی جب آپ کو علم ہے کہ صفائ نصف ايمان ہے تو بس پھر کريں نا صفائياں دوسروں کے بھی حصے کي،لوگ باگ تو بس کُچھ کام دل پشوری کے لۓ کيا کرتے ہيں اور ايسے ميں يہ بالکُل نہيں سوچتے کہ ہو سکتا ہے سامنے والے پر آپ کی کسی ايسی عجيب و غريب بات سے کيسا اُلٹا امپريشن پڑ رہا ہو گا اب آپ خود ديکھيں اور غور بھی کريں بلکہ کريں کيا آپ نے تو غور کر ہی ليا ہے جبھی تو اس بلاگ کے ذريعے ہميں بھی اپنے احساسات سے آگاہ کيا ہے کہ لوگ اپنی بات منوانے کے لۓ کيسی کيسی توجيحات نہيں ديتے يہ خيال کۓ بغير کے اگلا بندہ بھی کوئ خالی کھوپڑی نہيں رکھتا ليکن بس پھر بھی کرتے ہيں وہ ايسی باتيں جن سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ کون کتنے پانی ميں ہے رہی يہ بات کہ باتيں بناے والے لوگ کيوں نہيں سوچتے تو عرض ہے کہ اسی کا نام دُنيا ہے اور پھر باتيں بنانا تو شايد دُنيا کا سب سے آسان کام ہے اور آسان کام کرنے ميں ہی تو اصل مزہ ہے کہ مُشکل کام کريں تو تکليف تو ہوتی ہی ہے لہزا سيکھی سکھائ باتوں کو بھول کر صرف يہ سوچيں کہ يہ جو کام آپ نے شروع کيا ہے اس کو جاری رکھنا ہے يا نہيں کہ نصف ايمان کی صفائ درکار ہے آپ کو يا صفائ کا نصف ايمان ،خوش رہيں اور ايسی باتوں کو دل پر لگانا چھوڑ ديں
    دعاگو
    شاہدہ اکرم

  • 14. 16:11 2007-03-06 ,Dr Alfred Charles :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ!آپ نے بحالت مجبوری اور ضمير کی آواز کے پيش نظر اپنے ساتھيوں کے منفی روئيے کا تذکرہ کرنا مناسب خيال کيا تو جناب وسعت اللہ خان صاحب نے بھی اپنے مخصوص انداز ميں تبصرہ کرتے ہوئے مزيد ”بھانڈا” پھوڑ ديا ہے بلکہ باالفظ ديگر ”بيچ چوراہے يانڈی پھوڑ دی ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے ان جاری منفی رويوں سے کب کنارہ کشی کريں گے؟ منا بھائی کو لگے رہنے کا مشورہ دينے کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت کرنے اور کچھ اچھا سوچنے کا مشورہ دينا چاہئے

  • 15. 16:13 2007-03-06 ,Sajjadul Hasnain :

    وسعت صاحب
    آپ کو تبصروں کی قطار ميں ديکھ کر بے ساختہ کہنا پڑا
    تم مخاطب بھی ہو قريب بھی ہو
    تم کو ديکھيں کہ تم سے بات کريں
    رہی بات سيکشن کی تو يہ باتيں يادگار بھی ہوتی ہيں اور دلچسپ بھی آپ کی باتيں بے ساختہ بھی ہيں اور دلچسپ حقيقت بھی سب سے دلچسپ تو اس قطار ميں آپ کی موجودگی بھی ہے ابھی ابھی مرغوں کی لڑائی بھی پڑھی اس لڑائی نے مجھے وہ دن ياد دلاديے جب ميں نے بھی حيدرآباد کے مشہور محلے چوک مرغاں ميں محض مرغوں کی لڑائی ديکھنے کے لیے سکول گول کرديا کرتا تھا- بہرحال آپ آیے بہار آیی
    سجادالحسنين حيدرآباد دکن

  • 16. 17:13 2007-03-06 ,shahidaakram :

    وُسعت بھائ کو بھی اپنی طرح لائن ميں ديکھ کر بہت اچھا لگا اور بے اختياری يا بے تکلفی ميں لکھی گئ آپ کی باتيں حقيقت سے اتنی قريب لگيں کہ بس مزہ آگيا ورنہ تو لکھاريوں کی صف ميں ديکھنے والوں کا اپنے درميان ہونا کُُچھ يقين نا آنے والی بات ہے،
    ليکن نا جانے کيا وجہ ہے کُچھ دنوں سے سب سے پہلے لکھ دينے کے باوجود جگہ نہيں مل رہی شايد کہيں کُچھ غلط ہو گيا ہے يا کوئ دلآزاری والی بات جو بُری لگی ہو اور اگر ايسا ہُوا ہے تو معزرت خواہ ہوں اور پھر سے ساتھ ہونے کی استدعا ہے
    خير انديش
    شاہدہ اکرم

  • 17. 17:47 2007-03-06 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    چليں عنبر صاحبہ آپ کے بلاگ ميں وسعت اللہ خان صاحب کا بلاگ باعثِ حيرانی سے ‏‏‏‏‏‏‏‏‏زيادہ باعثِ مسرت ہے ۔ ايک ٹکٹ ميں دو مزے والی بات ہے ۔۔انہوں نے بھی اپنے ہميشہ کی طرح خوبصورت انداز سے راز فاش فرماۓ ہيں ۔ اب تو يقيناً کچھ نہ کچھ بہتر ہو ہی جا ۓ گا ۔ پيوستہ رہ شجر سے اميدِ بہار رکھ ۔۔۔
    ہوسکتا ہے باقی دفتری ساتھی بھی وارداتِ قلبی بيان کريں اور مزيد بلاگز آئيں ۔ ويسے ايک بات تو بتائيں کہ دفتر ميں سب خير خيريت ہے نا ۔۔!؟
    دعا گو
    سيد رضا

  • 18. 17:55 2007-03-06 ,فیصل :

    میرا خیال ہے کہ اس قسم کی برائیاں ہر قوم، معاشرے، مذہب اور دور میں رہی ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ انسانوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے۔ اور ان جیسی معاشرتی برائیوں کے تدارک کے لئے ہی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ اللہ میاں کو بھی اپنے لاڈلے کا پتہ تھا اسلئے جنت دوزخ کا سلسلہ شروع کیا۔ ان باتوں پر دل مت جلائیے۔
    خیر اندیش،
    فیصل
    برلن

  • 19. 18:19 2007-03-06 ,اے رضا :

    تم مخاطب بھي ہو قريب بھي ہو
    تم کو ديکھيں کہ تم سے بات کريں

    بے حد خوبصورت تشبيہ دي ہے سجادالحسنين صاحب نے وسعت اللہ صاحب کے اس خوشگوار سرپرائز پر جس نے بقول ڈاکٹر ايلفرڈ چارلز صاحب ، رہا سہا بھانڈا بھي پھوڑ ڈالا ہے ليکن بقول وسعت اللہ صاحب جو سينکڑوں التجاؤں اور دھمکيوں کو خاطر ميں نہيں لاۓ وہ عنبر خيري صاحبہ کي اس جرات رندانہ کو بھي ہنس کے ٹال ديں گے -
    عنبر خيري صاحبہ ، آپ کے لۓ شائد قابلِ قبول نہ ہو ليکن کسي ايسي ہي مايوس کن صورتحال کے لۓ اک سيانے کا مقولہ ہے ، ” If you can't beat them, join them ”
    کم از کم غور تو فرمايۓگا

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔