احمدی نژاد ڈپلومیٹ نہیں
ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف ہر ایک کے ذہن پر چھایا ہوا ہے بلکہ کچھ ملکوں کے لئے یہ بڑا درد سر بھی بنا ہے۔ لگتا ہے کہ پانچ بڑی طاقتوں سے یہ چوک ہوگئی کہ وہ وقت پر اس کا پیٹنٹ نہیں کر پائے تاکہ روگ ملکوں کو اس کی صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جاسکتا۔
مغرب کو پریشانی ہے کہ مسلمان ملکوں نے اگر جوہری صلاحیت حاصل کی تو مغرب کی شاید خیر نہیں اور اسی وجہ سے پاکستان پر آج کل مغرب کی نظر کرم بھی ہے۔ بقول کچھ مبصرین ’مسلمانوں کو ابھی صحیح فیصلے کرنے کا سلیقہ نہیں آیا لہذا وہ جوہری ہتھیار رکھنے کے قابل بھی نہیں۔
کیا واقعی ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اس کا ابھی کسی کو یقین نہیں مگر احمدی نژاد مغرب کو للکارنے کے لئے جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے دیکھ کر ان کی بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ ان کا اعتماد امید اور للکارنے والے بیانات اپنی جگہ مگر دانشوروں کا قول ہے کہ جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ احمدی نژاد ایک خالی برتن کی طرح صرف بولتے رہتے ہیں۔
ان کے بیانات سن کر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ نہ تو انہوں نے سیاست سیکھی ہے اور نہ ڈپلومیسی۔ ہوسکتا ہے کہ جوہری ہتھیار بنانے کا فارمولا انہیں حاصل ہوا ہو مگر ڈپلومیسی کا فارمولا ابھی ان کے ہاتھ نہیں لگا ہے اور اس کا سبق انہیں مغرب سے ہی سیکھنا ہوگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ نے بلکل صحیح لکھا ہے۔
آپ نے درست فرمايا ہے۔ طالبان اور صدام بھی ايسی ہی بڑکيں مارتے چلے گئِے۔ اب احمدی صاحب ہيں۔ ہم مسلمانوں کی عادت سی بن گئی ہے کہ کام کچھ نہ کرنا اور سلطان راہی کی طرح للکارتے پھرنا۔
محترمہ بہن نيمہ احمد مہجور صاحبہ
اگر منافقت جھوٹ اور بزدلی کا نام ہی ڈپلوميسی ہے تو آپ کی بات سہی ہے-
مگر اگ يہ جرت رندانہ ہے تو
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ
سمجھ بوجھ اور ہوشياری ميں ايرانی قوم کا اب تک کا ريکارڈ تو ساری امتِ مسلمہ ميں نماياں نظر آتا ہے - ثبوت ايرانی قوم کا وجود ہے جو اپنوں اور پرائيوں کی تمام ترسازشوں کے باوجود ابھي تک زندہ ہے اور نہ صرف يہ ، بلکہ پوری امتِ مسلمہ ميں غالبا” واحد معاشرہ ہے جو سر اٹھا کے جي رہا ہے اور کسي کا محتاج نہيں ہے- ہو سکتا ہے جسے آپ ايرانی قائد کی کمزوری سمجھ رہی ہيں وہ ايراني عوام کے جذبات کی ترجمانی ہو جنہوں نے انہيں منتخب کيا ہے ... اورجب چاہيں مسترد کرکے گھر واپس بھيج سکتے ہيں -
کيا کسي اور مسلمان معاشرے ميں ايسا ممکن ہے ؟
دعا و سلام کے ساتھ
رضا
اگر جھوٹ اور منافقت کا نام ڈپلو ميسي ھے جو کہ مغرب کا خاصہ ھے تو اللہ احمدي نزاد کو اس سے محفو ظ رکھے سياست الہيہ کرنے والوں کو کسي مکار اور فريب دينے والوں سے کچھ سيکھنے کي ضرورت نھيں ھے۔
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ سلام عرضِ خدمت ہے ۔
ميں سوچتا ہوں کہ کيا يہ ضروری ہے کہ ہر چيز مغرب سے سيکھی ہی جاۓ کبھی کبھی کچھ سيکھانا بھی تو چاہيۓ ۔
ہر ستم گر کے محبت بھرے لہجے پہ نہ جا
کبھی صحرا بھی تو دريا کی طرح ملتا ہے
نيازمند
سيد رضا
نعيمہ جی
جن مسلمان ملکوں کے سربراہوں نے نام نہاد سياسی بصيرت اور ڈپلوميسی سيھکی اور ان کا عملی مظاہرھ بھی کيا - کيا ان کی مثال آپ کے سامنے نہيں ؟ مثلاٌ پاکستان - جو ہميشہ کی طرح سو جوتے اور سو پياز بھی کھا رہا ہے ليکن آقا ( امريکہ) پھر بھی برہم ہے
اسرایل نے ايٹمی مسعلے پر ڈپلوميسی کی بجاۓ ہميشہ ہٹ درمی کا مظاہرہ کيا ہے ليکن اٰس کو پوچھنے والا کوئ نہيں - يہ تو بلکل ايسے ہی ہے کہ ايک غريب کا پچہ سرراہ نالی پر حاجت رفع سے فارغ ہو رہا تھا کہ اہل محلہ اکٹھے ہو گۓ اور اُسے ڈنڈے مار کر دوران رفع حاجت بھگا ديا اور تہمت لگائ کہ گلی ميں گند ڈال رہا ہے - اگلے دن چودہری کے بيٹے کو با وجہ کسی مجبوری نالی پر رفع حاجت سے فارغ ہو رہا تھا تو اہل محلہ ايک بارپھر اکٹھے ہو گۓ اور تعريف کے پل باندھ ديےکہ ديکھو کتنا اچھا لگ رہا اور اس کے پاخانے کی تو بلکل بدبو ہی نہيں ( ميرا اشارا جنرل مشرف کی طرف نہيں )
نعيمہ جی يہ ہے قانون دنيا - اس ميں احمد ی نژاد کا قصور نہيں - ہاں اس کا يا اس جيسے مسلم ليڈرز(ماسواۓ ڈاکٹر مہاتر کے ) کا قصور يہ ہے کہ وھ نام نہاد اسلحے کے انبار پر کھڑے ہو کر بڑھکے لگاتے وقت اپنے اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ يہ يکسر بھول جاتے ہيں کہ ملک کا داعمی بقا ملک کے اندر پاۓ جانے والے عدلُ انصاف ، مساوات، تعليم کی فراوانی ، غربت کے خاتمے ، مذہبی آذادی اور آذادی اظہار جيسے عوامل ميں پنہاں ہے ناکہ ايٹمی بم ميں -
ريحان ساجد
اردو سروس
ايس ايس ريڈيو
آسٹريليا
تسليمات محترمہ آپ بڑی باريک بين ہيں جو ملک عرصہ دراز سے خالص پاک وہند ميں پيدا ہونے والے باسمتی چاول کو بھی اپنے نام پيٹينٹ کروا ليتے ہيں شا يد وہ واقعی اسکو پيٹينٹ کروانا بھول گۓ ہيں ويسے اگر پيٹنٹ کے حقوق ہوتے تو شايد نازی جرمنی کے پاس ہوتے تو شايد يہ پانچ ممالک بھی اس طاقت سے محروم ہوتے - نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری ہيروشيما کی جس پہ ہم سب کو انسان ہونے کے ناطے بہت دکھ رہےگا ويسے جو چيز دنيا ميں ايجاد ہوتی ہے اس کا اچھا يا برا استعال انسان خود کرتے ہيں ـ چاہے غير مسلموں اور مسلمو ں کو فيصلے کرنے کے جتنے طريقے آ جا يۂں کسی کو جوہری ہتھيار رکھنے کا حق نہيں ہم نے مغرب کے قابل فيصلوں کو دوسری عالمی جنگ ميں انسانيت کی تباہی کی صورت ميں ديکھا ہے ۔ مفاد پرست قوميں اور لوگ اپنے مفادات کيليے انسانو ں کو اسکی بھينٹ چڑھا ديتے ہيں ابھی حکومتوں کو کثيرالقومی اداروں کے مفادات کی بجاۓ انسانيت کا سوچنا ہو گا ـ ايران کے پاس جوہری ہتھيا روں کا کسی کو يقين نہيں مگر جن کے پاس ہونے کا 100% يقين ہے انکا کسی نے کيا بگاڑ ليا حتی کہ شمالی کوريا جيسے غريب ملک نےجوہري دھماکہ کر کے امريکہ ،جاپا ن جنوبی کوريا کے پاؤں سے زمين کھينچ کرانکی راتوں کی نيند اڑادی اور اسی پروگرم کی بدولت اپنی حکومتی سلامتی کی گارنٹي،عوام کے لۓ خوراک اور ضروريات اور اپنے ملک کے لۓ تواناۂی حاصل کر لی اور دوسری طرف صحيح فيصلہ کرنے والے قذافی صاحب اچھے دنوں کا وعدہ پورا ہونے اور سرمايہ کاری ہونے کے انتظار ميں ہيں ـاحمدی نژاد سابقہ جامعہ کے استاد ہيں اور استاد استاد ہی ہوتا ہے پھر اس کے بعد ميۂر تہران اور صدر ايران ۔وہ اپنے لوہار ہونے اور محنتی فيملی سے تعلق پر بڑا ناز کرتے ہيں ـ ويسے ميں نے سنا ہے کہ سو سنار کی ايک لوھار کی خير اندييش عابد انصاری ھالينڈ ايمسرڈيم 003164405376
اپکا مطلب فاتحين حرمين اور امريکي سفارتکاروں کو قيدو بند ميں رکھنے والوں سے ہے کيا؟