حجامت کی شامت
کہتے ہیں اکتوبر دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے وقت غازیان اپنے گھوڑوں سے بھی تیز رفتاری سے بھاگے تھے تو ان میں سے کئی مشہور چہروں نے اپنی ’روئے مبارک پوش‘ کرنے کیلیے حجاموں کی دکانوں کا رخ کیا تھا۔
لیکن آجکل لگتا ہے کہ صوبہ سرحد میں حجامت کی شامت آئی ہوئی ہے۔
طالبان نے اپنا تمام نزلہ بچارے مو تراشوں پر گرایا ہوا ہے۔ پختون خواہ میں حجاموں کے پیٹ پر لات مار رکھی ہے۔ حجاموں کی دکانوں میں بم پھٹ رہے ہیں۔ حجاموں یا مو تراشوں پر لوگوں کی شیو نہ بنانے کا نفاذ خطوط اور پمفلٹوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ بالکل ایسے جیسے وائلڈ ویسٹ میں ہوا کرتا تھا۔ یہ آجکل کے اسلامی ’کاؤ بوائز‘ ہیں۔ اگر سٹیریو ٹائیپ سے ہٹ کر بھی بات کی جائِے تو صوبہ سرحد جو مردانہ حسن و وجاہت کی طرف ایک اچھی حس جمالیات کا حامل تھا انہوں نے اس کا کیا حشر بنایا ہوا ہے۔ کئی پشتو ٹپے موتراشوں کے عشق و ہنر اور شیو بنوانے والوں کی شان وحسن کی تعریف میں ملیں گے۔ اگر آج خوشحال خان خٹک زندہ ہوتے تو طالبان کا نشانہ ہوتے۔
اگر مو تراش شیو نہ بنائے گا تو اس کے گھر کا چولہا کیسے چلے گا؟ اب بال تو لوگ روز روز نہیں کٹوانے آتے نہ؟ حجاموں کا معاشی قتل اور جانی خطرہ جو قبآئلی علاقوں سے شروع ہوا تھا وہ پشاور شہر تک پہنچ چکا ہے۔ جوہر میر کا پشاور اب فیض کا وہ مصرعہ بنا ہوا ہے ’جہاں بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے‘۔ ایم ایم اے کی حکومت ہے۔ کبھی وہ ہیجڑے کی جان کے پیچھے ہیں، کبھی فنکار کی، کبھی کیسٹ سے لڑتے ہیں، کبھی سی ڈی سے تو کبھی کپڑوں کی دکانوں میں شو کیسوں میں سجے مجسموں کو لات منات سمجھ کر ان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
یہی وہ اسلام ہے جسے دیکھ کر آج دنیا اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب تصور کرتی ہے۔
پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ہو سکتا ہے حسن صاحب وہاں آج کل کُچھ ايسا چلن ہُوا ہو لہو گرم رکھنے کے واسطے اور آپ کو بلاگ لکھنے کو مواد مل گيا۔ خوش رہيں کہ کوئی تو ہے جو آپ کے لئے کُُچھ کر رہا ہے۔
خير انديش
شاہدہ اکرم
اک ہم ہیں کے لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
اک وہ ہیں جنہیں تصویر بنانا آتی ہے
اپني تمام تر بےباکيوں کے باوجود آپ ميرے پسنديدہ تجزيہ نگار ہيں جو چونکا کر مزہ ليتے ہيں ليکن بات کھري کرتے ہيں۔ حجامت کی شامت کے تناظر ميں عرض کروں کہ معاشی اور سماجی مسائل سمجھ بوجھ کے متقاضي ہيں جبکہ ڈنڈا گھما دينا آسان ترين کام ہے۔ مکھی مارتے ہوئے کسی کا منہ ہي توڑ ڈالا ليکن مکھی تو مار دي۔ جب تک سہنے والےسہتے رہيں گے اور بھگتيں گے اِنہيں۔ ساتھ دوسرے بھی بھگتيں گے جنہيں کوئی سروکار نہيں ہے۔
حسن مجتبی صاحب خدا را کوئی ڈھنگ کا کالم بھی لکھ ليا کريں۔ لگتا ہے مولوی صاحبان سے پرانی دشمنی ہے آپ کي۔
سب ایک سوچی سمجھی اور نہایت ماسٹر مائنڈ سازش ہے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے۔
موتراشی برصغير پاک وہند ميں ہميشہ سے مختلف مذاہب کے غير عقلی فرمودات کا شکار رہی ہے۔ ان کے رزق پر پہلی لات بابا گورونانک نےماری جب داڑھی اور کيس سکھ مت کے پيروکاروں کی شناخت قرار ديئے گئے ليکن زلف تراش کے دل سے نکلی ہوئی بد دعا سے سکھوں کے کيس اب تک مسلمانوں کے ليےموضوع لطيفہ بنے ہوئے ہيں۔ موتراشوں پر ايک اور کڑی ضرب اُس وقت لگی جب مولانا الياس ميواتی نے اسلامی ہيپی ازم (تبليغی جماعت) کی بنياد رکھی۔ بقول راجہ انور ’جھوٹے روپ کے درشن‘ سرحد کے اُس پار پيدا ہوئے تو سکھ اِس پار پيدا ہوئے۔ مولانا مودودی نے موتراشوں کو تھوڑی سی آسائش بخشی جب خشخشی داڑھی جماعت اسلامی کے کارکنوں کی علامت اور پہچان بنی۔ شايد اس کے پيچھے رحمانی برادری (موتراشوں کی برادري) کی طرف سے چندے کی پيشکش ہو۔
ليکن اسلامی جنون نے ايک بار غير ارادي طور پر موتراشوں کو فائدہ بھی پہنچايا ہے، آپ کو ياد ہوگا کہ جب اميرالمومنين حضرت ضياالحق نےلمبی زلفوں والے مرد حضرات کی پی ٹی وی پر پابندی لگائی تھی۔ پاکستان کي ايک نصابی کتاب کے مطابق فتح مکہ کے بعد لوگ جوق در جوق دائرہِ اسلام ميں داخل ہوئے اور مرحوم انشاء جی کی کتا ب ’اردو کي پہلي کتاب‘ کی ايک تصوير ميں ايک باريش صاحب ڈنڈا ليے دائرے ميں موجود ايک شريف آدمی کے پيچھے بھاگ رہے ہيں اور کہہ رہے ہيں ’نکل دائرہ اسلام سے باہر، تيری ايسی کی تيسی‘
ميرے دوست زلفی زلف تراش فکر نہ کر، وہ دن دور نہيں جب طالبانوں کی
انہي حرکتوں سے کوئی بھی مسلمان مسلمان نہيں رہے گا پھر تيرے وارے نيارے ہوں گے۔
ويسے جن علاقوں ميں يہ پابندياں لگي ہيں وہاں ويسے ہي نوے فيصد لوگ داڑھي رکھتے ہيں اور داڑہي کاٹنا تو خواہ
مخواہ کا خرچہ ہے۔ دوسري بات کہ مردوں کو نسواني چہرے اچہے لگتے ہيں لہذا وہ داڑھي کاٹ کر اور نسوانيت
سے قريب چہرہ بنا کر سمجھتا ہے کہ خوبصورت لگ رہا ہے۔ ميں نے برطانوي ماہرين کي ايک تحقيق پڑھي تھي جس
ميں بتایا گیا تھا کہ مغرب ميں بھي عورتوں کو داڑھي والے لوگ زيادہ پسند تھے۔ داڑھي مناسب حد تک رکھني چاہئے۔
حسن مجتبي صاحب ان نئے مسلمانوں کے متعلق کیا کہا جائے۔ ان کے لئے اتنا ہی پیغام کافی ہے کہ کیا رسول اللہ کے دور میں بھی اس قسم کی سختی سنی تھی جس قسم کی باتیں آج کل ہو رہی ہیں۔ اگر نہیں تو خدارا وقتی مفاد اور شہرت کی خاطر ایسا نہ کرو۔ آخر میں میں اپنے ان بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر جہاد ہی کرنا ہے تو صرف زبان کے ذریعے کرو کیوں کہ اس سے نہ صرف ہم پاکستانی بلکہ سب عالم اسلام کی زندگیاں دن بدن اجیرن ہو رہی ہیں۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔
حسن صاحب آپ کا نقطہ نظر اپنی جگہ اہم ہے۔ آخر پاپی پيٹ کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے نا۔ بچارے حجاموں کی روٹی روزی چھيننا کہاں کی دانشمندی و انصاف ہے؟ ہمارا کلچر ہی ايسا ہے کہ ہم شيو جيسا شخصی و انفرادی کام بھی خود نہيں کرتے بلکہ ان حجاموں پر تکيہ کرتے ہيں۔ ميرے خيال ميں داڑھی رکھنا يا منڈوانا ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی کو بھی مذہب کی آڑ ليکر کسی قسم کی کوئی بے جا پابندی عائد نہيں کرنی چاہيئے۔ ميری نيک خواہشات اور ہمدردياں متاثرہ حجاموں کے ساتھ ہيں۔ شکر ہے کہ ان کے اس طرح متاثر ہونے اور معاشی استحصال پر کسی نے تو توجہ دی۔
کیا یہی وہ اسلام ہے جو ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ حکومت پاکستان بھی صوبہ سرحد کے لوگوں کو طالبان کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچانے کے لیئے کوئی اقدامات کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
حالانکہ داڑھی سنت نہیں،مگر ان پتھر کے مغزوں کو کون سمجھاے؟؟
ہم نے سن رکھا ہے مونچھ منڈانا اور خط بنانا سنت ہے۔ دشمن کی جان بخشنا اور رحم کرنا بھی اسی ضمن ميں آتا ہے۔
ان طالبان يا طالبان جيسوں کو کون سمجھائے کہ
يہ بیروزگاری صرف مو تراشوں تک محدود نہیں۔
شامت حجاموں کی آئی ہے اور فکر آپ کو دامن گير ہے۔ يہ خوب ہے کہ آپ نے حجاموں کو دہشت زدہ کرنے والوں کو ’اسلامی کاؤ بوائز‘ سے تعبير کيا ہے۔ شکر ہے کہ آپ نے انہيں دہشت گرد نہيں کہا۔ مگر اس طرح کي چھوٹی چھوٹی اور اوچھی حرکتيں کر کے يہ لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دينے پر ايسا لگتا ہے کہ تلے ہوئے ہيں۔
کيا سياست اور مذہب کا امتزاج ہميشہ ہر ملک ميں ايسا ہی نہيں ہوتا؟
یہ سب مولوی یا طالبان نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ مولویوں کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔.
ايک اور متنارع بلاگ۔
يار حسن صاحب! آپ کو وہ انتہاپسندی نظر نہيں آتی جو ہالينڈ ميں عورتوں کے برقع پر پابندی کی ہے۔
یورپ میں حجاب پر پابندی کسی کو کیوں نظر نہیں آتی۔
بے تکے بلا گ لکھنے میں آپ کو واقعی مہارت حاصل ہے۔