غائب جہادی
صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ غائب ہونے والے کسی شخص کو کسی سرکاری ایجنسی نے نہیں اٹھایا بلکہ یہ کام جہادی گروہوں کا ہے جو لوگوں کو زبردستی یا برین واش کرکے لے جاتے ہیں۔
صدر نے اچھا کیا کہ وضاحت کردی ورنہ دو روز قبل راولپنڈی کے جلسہ عام میں جو چادرپوش خاتون ایک ہاتھ میں اپنے گمشدہ عزیز کی بازیابی کی درخواست لئے حفاظتی انتظامات درہم برہم کرتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ کر صدر مشرف کے قدموں میں گر گئی تھی وہ آج بھی یہی سمجھ رہی ہوتی کہ اسکے عزیز کو کسی ایجنسی نے غائب کیا ہے۔ امید ہے صدر مشرف کی وضاحت کے بعد اس خاتون کو سکون مل گیا ہوگا۔
گوہرام صالح کوئی دو برس پہلے بلوچستان لبریشن آرمی کا رکن ہونے کے شبہے میں تلہار کی پہاڑیوں میں غائب ہوگیا تھا۔ تب سے اسکی ماں اور بہنیں کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھی رہتی ہیں۔ ان کو بھی یہی غلط فہمی ہے کہ گوہرام کو آئی ایس آئی نے اٹھایا ہے۔
بلوچی ادیب ڈاکٹر حنیف شریف تیرہ ماہ غائب رہنے کے بعد دوبارہ تربت لا کر چھوڑ دئیے گئے۔ وہ اب تک یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ انہیں کونسا جہادی گروہ اٹھا کر لے گیا تھا۔
اور میرے دوست اور شاعر مبارک قاضی کو دس ماہ تک تربت جیل میں رکھنے کے بعد اب رھا کردیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قاضی کو اس لئے حفاظتی تحویل میں رکھا گیا تاکہ کوئی جہادی تنظیم میرے شرابی ملنگ دوست کو لڑنے کے لئے عراق ، چیچنیا ، کشمیر یا افغانستان نہ پہنچا دے۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت بھائی
اب يہ وقت آگيا ہے کہ ايک با پردہ اور شريف خاتون کو مملکت اسلاميہ ميں اپنے عزيز کی بازيابی کے لئے امير مملکت کے قدموں ميں گرنا پڑتا ہے اور وہ بھی سينکڑوں سپاہيوں کی بھيڑ کو چير کر۔ دل کانپ گيا يہ پڑھ کے بس اب اور زيادہ تفصيل ميں جايا نہيں جاسکتا۔ اب تو خدا سے يہی دعا ہے کہ خدا ان کو توفيق عطا کرے جو محض اپنی کرسی کی خاطر لاکھوں افراد کی بد دعا ليتے ہيں اور اپنی عاقبت خراب کرتے ہيں۔
لاپتہ لوگوں کے کرب ميں برابر کا شريک و بازيابی کا دعاگو
سجادالحسنين حيدرآباد دکن
آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جہاد۔ کوئی جہاد کر کے عورت کو قتل کر رہا ہے تو کوئی جہاد کے نام پر خواتين کو يرغمال بنا رہا ہے۔ اب مشرف صاحب نے بھی اپنے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے ليے اس لفظ کو پکڑ ليا ہے۔ عنقريب جہاد پاکستان کی سب سے بڑی پہچان بن جائے گا اور باقی دنيا ہميں اسلامی جمہوريہ جہادستان کے نام سے پکارےگی۔
وسعت صاحب کيا کيا جائے۔ جہاں ايجنسي کا چيف خود کہہ دے کہ قانوني طور پر ہم لوگ کام نہيں کر سکتے۔ وہاں کچھ نہيں ہو سکتا۔ پھر جب لوگ قانون اپنے ہاتھ ميں ليتے ہيں تو حسن مجتبی شور مچاتے ہیں۔
وسعت بھائی ہاتھ ہلکہ رکھیں کہیں آپ کو بھی جہادی جہاد پر نہ لے جائیں۔ ویسے بھی پاکستان میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
صدر مملکت کو يہ توفيق کب ملے گی کہ يہ بتا سکيں کہ لاپتہ ہونے والوں کو تلاش کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے اور وہ ’کس‘ کے بھکانے پر ’کہاں‘ چلے گئے ہيں اور کس حال ميں ہيں۔
صدر نے اس بات پر خوشی کا اظہار کيا ہے کہ عدالت نے اس کا نوٹس ليا ہے۔ لگتا ہے وہ يہ کہہ رہے ہيں کہ ’عدالت اگر پتہ کروا سکتی ہے تو کروا لے۔
بہت اچھا لکھا ہے وسعت صاحب۔ مزید کچھ کہیں کیوں کہ آپ کا بلاگ ابھی نامکمل ہے۔
اس پر تو سب سے پہلے صدر مشرف کو تبصرہ کرنا چاہئے۔
سچ ہی تو کہا ہے مشرف صا حب نے۔ يہ گمشدہ افراد تو انہی جہادي ايجنسيوں کے پاس ہيں جنہوں نے کشمير اور افغانسنتان سميت پوری دنيا ميں جہاد کا ٹھيکہ ليا ہوا ہے۔
شکريہ جنابِ وسعت صاحب ۔۔
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہيں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم
بس دعا فرمائيں کہ گمشدہ افراد جلد ہی اپنوں سے آمليں۔ آئيں تاثيرِ دعا کے منتظر ہوجائيں۔ شايد دو انتظار مل کر کچھ سامانِ مرہم ايجاد کرسکيں۔
ان حرکتوں سے فوج کی عزت ملک کے اندر ختم ہو رہی ہے۔
وسعت اللہ خان صاحب! اس خاتون کی بہادری کی داد ديجئے جو اپنی جان کي پروا کئے بغير تمام تر حفاظتی اقدامات اور حفاظتی حصار عبور کر کے صدر صاحب کے روبرو جا کھڑی ہوئی اور اپنی فرياد پيش کي۔ دوسری جانب ہمارے پرنٹ و اليکٹرونک ميڈيا کی روايتی بے بسی يا بے حسی و لاپروائی ملاحظہ کريں کہ اس خبر کو دبايا گيا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ اگر زندہ ہے تو آپ جيسے بہادر اور فرض شناش صحافيوں کی وجہ سے ممکن ہے جنہوں نے اپنی پيشہ وارانہ ذمہ داريوں اور وقت کي مناسبت سے موثر انداز ميں آواز اٹھائي۔ اس سارے معاملے اور اس کے مخصوص پس منظر ميں ديکھا جائے تو يہ مسئلہ حکومت کے گلے پڑ چکا ہے۔ ميڈيا ہو يا سپريم کورٹ اور اب تو ايوان صدر اور انکی شخصيت تک يہ چنگاری پہنچ گئی ہے ۔ ہم سب کے لئے لمحہ فکريہ۔
وہ تو پھر خوش نصيب ہيں جو کئی کئی مہينوں کی اذيت ناک سختياں جھيل کر اغواء کاروں کے چنگل سے نکل آنے ميں کامياب رہے، ورنہ وہاں تو کئی ايک کی لاشيں ملی ہيں جن کے لواحقين آج تک قاتلوں کی تلاش اور گرفتاريوں کيلئےمطالبات کر رہے ہيں۔ اغواء شدگان کے لواحقين کو اپنے پياروں کی زندگی اور سلامتی کيلئے دعا کرنی چاہيے اور حاکم الحاکمين کی بارگاہ سے اميد رکھنی چاہيے کہ وہ مالک ارض وسماء بہتر فيصلے کرنے والی ذات ہے۔
تاريخ عالم ميں شائد ہی کوئی اور مثال ملے گی کہ کسي فوج نے ملک دو لخت اور معاشرہ بنيادي اخلاقي قدروں سے کنگال کرکے، پھر اُسے ہي فتح کرتے چلے آنے کے سوا کبھی کچھ اور بھي کيا ہو۔
مشرف صاحب جب اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں گے تو آپ کو اس کا جواب مل جائے گا۔
وسعت اللہ خان صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے لوگوں کے غائب ہونے کا معاملہ اپنے بلاگ میں اٹھایا۔ میں مختصر بات کروں گا کیوں میرا ڈیوٹی ٹائم شروع ہونے والا ہے اور مجھے دیر ہو رہی ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدر صاحب لوگوں کو اٹھانے کا الزام جہادی تنظیموں پر لگا رہی ہیں اور اصل صورت حال سب کے سامنے ہے۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو؟ کیا اس کا حل بھی امریکہ ہی کرے گا؟
شکر ہے کہ انہوں نے يہ نہيں کہا کہ ان سب نے اجتماعی خودکشی کی ہے۔ اس رياست کو کيا نام ديں۔
خوش رہئیے خان صاحب۔ آپ کی تحریریں پڑھ کر رہا سہا ایمان تازہ ہو جاتا ہے ورنہ سب کچھ جناب صدر اور مولوں حضرات کے ہاتھ گِروی ہے۔
اب ساری قوم مطمئن ہے۔ ملک ميں امن ہے۔ سب لوگ خوشحال اور خوش و خرم ہيں اور صدر مملکت کو دعائيں ديتے ہيں۔ شکريہ جناب صدر۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
جناب وسعت صاحب تنقيد کرنا بہت آسان ہے۔ آپ بھی ذرا سوچیں کہ جس جنگ ميں امريکہ اور يورپ انسانی حقوق کی پاسداری نہ کر سکے تو اس صورتحال ميں پاکستان جيسے ملک کا کيا کہنا جس کا گزارا ہی مانگے تانگے کے پيسے سے ہے۔ ہر کسی کی اپنی مجبوري ہے۔ حکومت کی اپني،`امريکہ کی اپني اور پريس کی اپني۔ رہی بات بندوں کی تو ان کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ حکومت کو ان کے خاندانوں پر رحم آ جائے۔
نہايت محترم وسعت اللہ صاحب
کيا جنرل صاحب کا کہنا انکی کی داڑھی ميں ميں تنکے کی نشان دہی نہيں کرتا۔ سوائِے گم شدہ افراد کی برآمدگی کی کوشش کا کون سا معاملہ تھا جس پر قانون اور چيف جسٹس صاحب کی توہين کی گئی۔ آپ کے بيدار ضميری کو سلام۔
خدا ميرے ملک کو حقيقی آزادی اور حکمرانوں کو شعور دے۔
ان کو تو سب ہرا ہی نظر آتا ہے۔
حبيب جالب سے معذرت کے ساتھ
بےشمار فرق ہے کل ميں اور آج ميں
اپنے خرچ پر غائب تيرے راج ميں
جنرل ايوب کے اور مشرف کےدور ميں کہ تب
وسعت صاحب بات جہادی کی ہو يا غير جہادی کی مُلک عزيز ميں اصل بات صرف يہ ہے کہ آزادی ہے اور آزادی کا اب جو بھی مطلب نکاليں آپ يا کوئی بھی۔ يہ آزادی اظہار کی بھی ہو سکتی ہے اور اظہار کرنے پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ کُچھ کہہ نہيں سکتے حالانکہ جو آج کل ديکھنے ميں آ رہا ہے وہ کُچھ اتنا حيران کُن ہے کہ پلکيں جھپکنے کو بھی دل نہيں چاہتا۔ ايسے ميں صدر پاکستان کا بيان تواُونٹ کے مُنہ ميں زيرے کی مثال ہے۔ سو
خوش رہو اہل چمن ہم تو يہی دُعا کرتے ہيں
دعاگو
شاہدہ اکرم
ھمارے جہادی گروپ بھی دن بہ دن بے لگام ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی ھے کہ کشمیر و افغانستان کے محاذ سنبھالیں، وہ پھر اپنے ملک میں گھس آتے ھیں۔ بھئی بلوچستان اور وزیرستان کیلیے پاک فوج ھے نا۔ اگر بندے کم پڑ گئے ہیں تو اب وہیں سے مقامی طور پر ملازم کر لیں۔ بس کچھ دنوں کی بات ھے، چودھری افتخار کو ذرا صدر صاحب ٹھکانے لگا لیں پھر وہی موجاں ہی موجاں۔
جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
ہم سے کہاں چھپے گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
شکر ہے کہ مشرف صاحب نے غیرملکی ہاتھ نہیں کہا۔