| بلاگز | اگلا بلاگ >>

گمشدہ دوست کے نام

حسن مجتییٰ | 2007-04-02 ،13:07

سرسری سماعت کی فوجی عدالت سے
پندرہ کوڑوں کی سزا کے نشانات
تمہاری پشت پر آمروں کے لکھے ہوئے کسی آٹو گراف کی طرح آج بھی موجود ہیں
کوڑا کہ جسے تمہیں مارنے کے لیے ہٹا کٹا جلاد گھوم کر ہوا میں لہراتا ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ مارتا
اور تم ہر کوڑا اپنی پیٹھ پر سہتے ہوئے اس دھرتی کا شکر ادا کرتے جس سے عشق کی پاداش میں تمہاری ننگی پشت ٹکٹکی پر سجی تھی۔
blo_hasan_lashes.jpg

وہ تارا مسیح کا عہد تھا جس میں ہم زندہ تھے
یہ بھی تارا مسیح کا عہد ہے
گھپ اندھیری تیز ہواؤں والی رات میں دور سے آتا ہوا وہ قہقہہ تمہیں یاد ہوگا جسے تم ایف یو جنرل!‘ کہتے
ہاں تم نے ٹھیک پہچانا وہ قہقہہ ’ایم کے‘ کا تھا، وہ اس پر لعنت بھیجتا تھا کہ اسے باغوں سے مری ہوئی تتلیاں جمع کرکے انسیکٹ باکس میں سجانا ہوتی تھیں
(میرے گھر کے دروازے کے باہر سیڑھی پر کئي دنوں سے ایک مری ہوئی کئي رنگوں والی تتلی کی لاش پڑی ہے۔ میرا بیٹا اس سیڑھی پر سے سنبھل کرگزرتا ہے اور مجھے ایم کے اور تم یاد آگئے ہو۔)

لالی، تم مجھے ہیمشہ الٹی پتلون پہنے پکڑ لیتے، منٹو کی طرح تم نے بھی ایک کہانی لکھی تھی’الٹی شلوار‘
شکاگو کے راستوں پر رات بھر ٹیکسی چلاتے تم مجھے اس بوڑھے سے اپنی عشق کی داستانیں سناتے جسکا نام تم نے اپنے بیٹے پر رکھا ہے،
'’ہم بریگیڈئیر سرور کے بندے ہیں، آصف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لینے آئے ہیں‘ سنا تم نے
وہ تمہیں بھی جہادی کہہ رہے رہیں، نیور مائنڈ انہوں نے ٹارچر کے نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں،
تم اب گلبدن سے ’گلبدین‘ بنا دیئے گئے ہو
قاتل مسیحا ہو چلا ہے،
اب نہ پوچھنا کہ مسولِنی مرد تھا یا عورت؟


تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 15:20 2007-04-02 ,Sajjadul Hasnain :

    حسن بھائی، کيا کہنے ’اب تم گلبدن سے گلبدين بناديئے گئيے ہو‘، ’قاتل مسيحا ہوچلا ہے‘، ’اب نہ پوچھنا کہ مسولنی مرد تھا يا عورت‘ اب مجھے آپ سے بھی خوف آنے لگا ہے کہيں اس دھرتی سے بے پناہ پيار کے جرم آپ بھی نہ دھر ليے جاؤ۔ پھر نہ کہنا کہ ہميں خبر نہ ہوئی۔ اب شايد کوڑے نہيں برسائے جاتے۔ شايد اب لوگوں کو غايب بھی نہ کيا جائے۔ خير انديش

  • 2. 18:28 2007-04-02 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    برادرم حسن مجتبٰی، پہلے سے موجود بےحد احترام ميں اور اضافہ ہو گيا۔ خدا اپنے نام پر بننے والی دھترتی کے پيار ميں کوڑے کھانے والوں کو کيا اجر دے گا مجھے کچھ اندازہ نہيں۔ اس دھرتی کی محبت ميں ميں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اتارے ہيں کہ واجب بھی نہيں تھے (شعر ميں غلطی پر معاف فرما ديجيۓ گا)
    کل کا تارہ مسيح لا علم تھا کہ اس نے کس گوھر باياب کو پھانسی دی، آجکا تارہ مسيح کھلی آنکھوں اور روز روشن ميں اپنی مزدوری سرانجام دے رہا ہے۔

  • 3. 18:35 2007-04-02 ,Dr Alfred Charles :

    حسن مجتبی صاحب! ذو معنی جملوں پر مبنی بلاگ ايسا ہی ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئي۔ آپ سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ نے عصر حاظر کی نئی نسل کو کھل کر کيوں نہ بتايا کہ آپ مرد مومن مردحق بلکہ حضرت اميرالمومنين کے ضيائی مارشل لا کی بات کررہے ہيں۔ تارہ مسيح تو بے چارا يونہہ ہی بدنام ہوگيا بلکہ تاريخی طور پر بدنام ہے، اصل کرتوت تو اصلی تے وڈی سرکار کے تھے۔ بحرحال اس بلاگ سے عمومی قارئين کے بجائے آپکے دوست محظوظ ہوئے ہونگےـ آپ کے اس جری و بہادر دوست کی عظمت کو سلام!

  • 4. 19:16 2007-04-02 ,shahidaakram :

    حسن صاحب، يہ سب باتيں ايک ايسے مُلک ميں ہُوئی تھيں اور ہو رہی ہيں جسے ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کيا تھا اورآج اسلام کے اصُولوں کی پامالی بھی بہت کُھل کر کر رہے ہيں۔ يعنی ہم ہر کام کُھل کُھلا کر اور کُھلے دل سے کرتے ہيں، کوڑوں کے وقت کوڑے اور جس وقت جو بات بر وقت نا ہو وہ کر ليتے ہيں اسی کا نام آزادی ہے۔دعاگو

  • 5. 22:11 2007-04-02 , اے رضا :

    روزنامہ جنگ ميں سنٹرل جيل کراچی سے سردار عطااللہ مينگل صاحب کا ايک خط تين قسطوں ميں شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ بلوچستان اور بلوچ قوم سے ميري واقفيت سردار شير باز مزاري صاحب کي کتاب A Journey to Disillusionment
    سے ہوئی جس کے بعد ميں بلوچ قوم، سردار شيرباز مزاری اور سردار عطاللہ مينگل صاحب جيسے کھرے اور با اصول قائدين کا بے حد احترام کرتا ہوں جن کي ديانتداري کا اعتراف ان کے مخالفين نےبھي کيا ہے۔ خدا ان کے ساتھ ہم سب پہ طاري اس ظلم و جور کي شب کا خاتمہ عطا فرمائے۔ اِس ضمير فروش دور ميں جوان بيٹوں کي قربانيوں سميت کٹھن ترين حالات ميں بھي ان بزرگوں کا صبر و استقامت ديکھ کرمجھے تو وہ پاک ہستياں ياد آ جاتی ہيں جن کا ميں نام ليوا ہوں۔

  • 6. 5:31 2007-04-03 ,syed sajjad hussain :

    جناب حسن صاحب آپ ھميشہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہيں۔ يہی تو الميہ ہے ہماری قوم کا جسے ہم ساٹھ سالوں سے بھگت رہے ہيں۔ ياستدانوں ميں اکثرلوگ ذاتی مفاد کے لۓ فوجی آمروں کی حمايت کرتے ہيں تو جناب اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں ميں
    خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي
    نہ ہو جن کو خيال خود اپني حالت کے بدلنے کا
    sajjad hussain dubai

  • 7. 15:29 2007-04-03 ,شاھد تالپور :

    جس کی لاٹھی اس کی بھينس۔ ہمارے پيارے ديس ميں ہرن سے منوا ليا جاتا ہے کہ اس نے ہاتھی کو اغوا کيا ہے۔ اب تو حيران بھی نہيں ہوا جاتا کہ يہ کيا ہوا ہے؟ سب نارمل ہے۔ عمر شريف کا ايک ڈائیلاگ ذہن ميں آتا ہے کہ ’ميرے کو ٹينشن چاہيے‘۔

  • 8. 17:03 2007-04-03 ,عديل خاکي :

    پاکستان ميں ھر دور تارا مسيح کا دور رھا ھے مجھے جنرل ضيا کے دور سے آج تک کسي حکمران ميں کم سے کم انسانيت نظر نہ آئي۔ سب نے عوام کا جي بھر کے استحصال کيا بلکہ قتل عام کيا، چاھے ضيا دور کے سرکاري سرپرستي ميں فرقہ ورانہ فساد ہوں، کراچي ميں سندھ ميں لساني قتل عام ھوں، نواز شريف کے دور ميں مساجد و امام بارگاھوں ميں بم دھماکے ھوں، فائرنگ ھو يا بےنظير کے دور ميں سرکاري سر پرستي ميں ايک جنرل کراچي کے نوجوانوں کو ھزاروں کي تعداد ميں تہ تيغ کرے۔ آمر ھوں يا جمہوري حکمران، پاکستان ميں اپنے مفاد کے لئے سب جاپان پر بم گرانے والے روز ويلٹ يا مسوليني سے کم نہيں ھيں۔ مفاد پرست مفاد پرست ہوتا ھے مرد يا عورت نہيں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔