گوگول کا اوور کوٹ
’ہم سب گوگول کے اوور کوٹ سے نکلے ہیں۔ ایک دن تم یہ بات سمجھ جاؤ گے۔‘ یہ جملہ میرا نائر کی حال ہی میں رلیز ہونے والی فلم ’نیم سیک‘ (یعنی ہم نام) کا ہے جس میں یہ اشوک گانگولی (اداکار عرفان خان) اپنے پسندیدہ روسی لکھاری گوگول کا نام رکھے ہوئے اپنے بیٹے (اداکار کال پین) سے کہتا ہے۔
’نیم سیک‘ یہاں امریکہ کے چنیدہ چنیدہ سنیما گھروں میں دکھائی جا رہی ہے۔
یہ فلم بنگالی نژاد ناول نگار جھمپا لہری کے ناول ’نیم سیک‘ پر ماخوذ ہے جو کلکتہ سے امریکہ آکر آباد ہونے والے ایک بنگالی جوڑے (عرفان خان اور تبو)، ان کی فیملی اور دو ثقافتوں کی کشمکش اور شناخت پر مبنی ہے۔ جیسے میرے ایک دوست نے کہا تھا ’ہم لوگ پردیس میں گملے میں رکھے پودے ہیں۔‘
’کلکتے میں تو پورا نیویارک آجائے‘ فلم کا ایک اور مکالمہ ہے۔ یہ فلم بےوطن اداسی کی عجیب کہانی ہے جسے میرا نائر ہی تصویر اور زبان دے سکتی ہیں۔
’سنیما کی کوئی زبان نہیں ہوتی‘، پردے پر دکھایا گیا۔ سنیما ہال میں مجھ سمیت کوئی پندرہ فلم بین ہونگے۔ اس سے زیادہ رش تو اس سخت یپی اور گے علاقے میں ساتھ والے بمبئي ریستوران پر تھا۔
کل ایک عجیب اداس دن تھا۔ کیا اپریل کا مہینہ واقعی اداس کرنے والا ہوتا ہے یا یہ محض ایک سیاسی، ادبی رومانوی یاس انگیزی ہے؟ مگر یہ پھر کیسے ہوا کہ ’سرخ گلاباں دے موسم وچ پھلاں دے رنگ کالے‘؟ مظہر ترمذی کی کافی گانے والا اسد امانت علی بھی کوچ کرگئے۔ اور کل پھر عظیم امریکی لکھاری اور ناول نگار کرٹ وانیگٹ بھی مر گئے۔ مجھے ہنسی آئی کرٹ وانیگٹ کی اس بات پر کہ ’میں سگریٹ کمپنیوں پر ہرجانہ دائر کرنے والا ہوں کیونکہ ان کی تمباکو کے مہلک ہونے کی وارننگ کے باؤجود میں اب تک زندہ ہوں۔‘
وہ پاؤں پھسلنے سے دماغ پر چوٹ کی وجہ سے مرگئے۔ ’سلاٹر ہاؤس فائیو‘ جیسا ناول لکھنے والے کرٹ وانیگٹ کو امریکی ناول کا مارک ٹوئین کہا جاتا تھا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم جناب حسن مجتبٰي صاحب، اس عرضداشت کو اس بلاگ سميت اپني جملہ کاوشوں پر ايک مداح کا پرخلوص خراج تحسين سمجھيے گا۔ يہ متنوع ادبي و ثقافتي ذوق اور تعصب سےمبرا ، آزاد اور بارہا چونکا دينے والي صاف گوئي مجھےگورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہِ طالبعلمي ميں لے جاتي ہے جہاں فکر و اظہار کے آزاد ماحول ميں ذوالفقار علي بھٹو کے پہلے دورِ حکومت کا ولولہ انگيزسرور اب تک باقي ہے۔ دوسري اِننگز ميں وہ برادران يوسف صفت جاگيرداروں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے اپنا مستقبل محفوظ کرکےالزام ہم پنجابيوں کےسرڈال ديا۔ اس کے بعد پنجاب بيشِک ہر غير پنجابي سياستدان کا آسان ترين ہتھيار بن گيا کيونکہ حقيقت بتانےوالا کوئي نہ رہا۔ سچ تويہ ہے کہ بھٹو کو صدر اور پھر وزيراعظم پنجاب کے غرباء ہي نے بنوايا اور اس کے بعد اس کي بيٹي کو بھي سر آنکھوں پر بٹھايا ليکن اس کےعوض بلا تقصير لعن طعن کےاور کچھ نہيں پايا۔ معتبرين کي زبانيں مصلحت کوشي ميں بند رہيں اور باقي بات کرتے شرماتے رہے۔ صرف آپ نےگزشتہ دو کالموں ميں يہ موضوع چھيڑ کر اپني انفراديت کا ثبوت ديا ہے جو ايک سندھي کي طرف سے عنايت ہو کر کچھ اور ہی مزہ دے گيا۔ اب يہ روايت برقرار رکھيۓ گا۔ تشکر و تسليمات