ساس بہو کی لڑائی کب تک
اس وقت جو طبقہ سب سے زیادہ مسائل میں گھرا ہے، وہ میرے خیال میں متوسط طبقہ ہے مگر ان کی بات یا ان کی مشکلات کو کوئی سمجھتا یا ابھارتا نہیں جسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ طبقہ خود اپنے مسائل کو اٹھانے میں کمزور ہے۔
بھارت یا پاکستان کی کسی چینل کا پروگرام دیکھیں یا سیریل کیا یہ طبقہ کہیں نظر آتا ہے؟ بات ہوتی ہے امیر ترین طبقے کی یا ان لوگوں کی جو ہمارے معاشرے کا چند فیصد حصہ ہیں۔ بھارت میں متوسط طبقہ سب سے بڑا ہے مگر سکائی سے لے کر دوسری چینلز کے سیریلز میں یہ طبقہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ شاید اس طبقے میں کوئی خوبی نہیں یا کچھ بتانے والا نہیں یا چینل والوں کے لیے اسکی کوئی کمرشل ویلیو نہیں۔
ایک زمانے میں پاکستانی سیریل دیکھنے کے لیے دل بے قرار رہتا تھا، نہ جانے وہ لکھنے والے کہاں گئے اور معاشرے کی نبض پرہاتھ رکھنے والے جن کی آنکھوں سے ہم اپنی دنیا کا مشاہدہ کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلمیں عام زندگی کے قریب آنے لگی ہیں اور ٹی وی سیریل فلموں کا فارمولہ اپنا رہے ہیں۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا ہمارے سیریل ساس بہو کے جھگڑوں سے باہر نہیں نکلتے حالانکہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ ترقی ہم ضرور کر چکے ہیں کہ اب عورت کو کمزور بے بس اور موم کی گڑیا کے طور پر نہیں پیش کیا جاتا بلکہ اسکی ایسی شبیہ دکھائی جاتی ہے جو خاندانوں جائیدادوں دوستوں میں پھوٹ ڈالنے اور بٹوارہ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتی۔
کئی سیریلز میں دادی، بہو اور بیٹی کی عمروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، تھوڑا بہت میک اپ ہی کرتے ہیں۔ کیا سیریل بنانےوالوں کو سبھی ناظرین بدھو یا سٹوپڈ لگتے ہیں؟
انفارمیشن ایکسپلوژن سے ہر ایک کی نظر کھل گئی ہے اور نئی نئی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں مگر میڈیا والوں، خصوصا سیریل بنانے والوں نے شاید ایسا موٹہ چشمہ پہن رکھا ہے کہ جس میں امیروں یا پیسے کے سوا کوئی چیز نہیں دکھتی۔
تبصرےتبصرہ کریں
تھاجوناخوب بتدريج وہی خوب ہوا
نعيمہ بہن، سارے جھگڑے ہی زندگی تک ہيں۔ کون مرتا ہے پھر کسی کيلیے۔ جنت ميں کيا ماں، کيا ساس، کيا بيٹی سب نوجوان ہونگی انشا اللہ آپ خود ديکھيں گي۔
درست فرمايا۔