مزید جوان زندگیاں ضائع
تصویریں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ جوان لڑکوں کی تمام عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جائے گی۔ اتنی نفرت کس کو کس سے تھی۔ کس نے کس کو اور کیوں مارنا تھا۔ ساری چیزیں کیوں اب جڑ گئی ہیں۔ اور ساری کوشش سے کس کو کیا فائدہ ہوا یا ہونا تھا۔
لندن بم پلاٹ میں سزا پانے والے حقیقت میں مجرم ہیں یا نہیں۔ کیا وہ اصل پلیئر تھے یا مہرے یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔ گو کہ انہیں سزا مل گئی ہے لیکن لوگ انہیں بے قصور بھی کہہ رہے ہیں۔
قصور ان کا جو بھی ہو پانچ ہنستے بستے گھر تباہ ہو گئے ۔ اس سے قبل بھی جولائی دو ہزار پانچ میں چار جوان لڑکوں نے اپنی زندگیاں اور اپنے ساتھ پچاس سے زیادہ افراد کی زندگیاں کسی جنون میں گنوا دی تھیں۔ کاش انہیں کوئی سمجھانے والا مل جاتا۔ پر نہیں ملا۔ نفرت کو ہوا دینے والے ہی ملے اور آخر چنگاری بھڑک گئی اور کئی گھر جل گئے۔
لیکن یہ ہی کیا پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ عراق میں اور افغانستان ایسا روز ہوتا ہے۔ شاید کوئی کسی کو سمجھانے والا نہیں رہ گیا۔ یا کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ صرف ایک زبان استعمال ہو رہی ہے اور وہ ہے طاقت کی زبان، اسلحہ کی زبان، بارود کی زبان، بموں کی زبان۔
بم معاہدے ہیں، بم شرطیں ہیں اور بم ہی الفاظ۔ طاقتور فوجی کشی کے ذریعے اور جہازوں سے بم برسا رہے ہیں اور مزاحمت کرنے والے خود ہی بم بن کر اپنے آپ کو پھاڑ رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اس لڑائی میں دسیوں ہزار معصوم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی سمجھانے والا نہیں۔
جوان لڑکوں کی تصاویر دل دکھاتی ہیں۔
کیا اسے روکنے کا کوئی طریقہ ہے؟ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جہاں بم کی بجائے زبان سے بات کی جا سکے۔ یا پھر اب زبان بالکل ناپید ہو گئی ہے۔
جوان لڑکوں کی زندگیاں ضائع جانے پر دل روتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
شميم بھائی ہم تو صرف تبصرے کرنے ہی ميں وقت گنوارہے ہيں۔
غم کی جو تصوير آپ نے پيش کی ہے يقينا وہ دل دہلادينے والی ہے۔
درد غم الم کربناکی کی يہ داستان صرف پانچ گھروں ہی تک محدود نہيں يہ داستان نہ جانے اور کتنی طويل ہوگی شايد اس الميہ کو رقم کرنے کے لیے ہی يہ کہانی وجود ميں آئی ہے۔ اب ہم يہ تو نہيں کہہ سکتے کہ انہيں کس نے گمراہ کيا مگر وہ لوگ جو بم معاہدے کرتے ہيں بم برساتے ہيں اور انسانی خون کو پانی کی طرح بہاتے ہيں آخر کوئی کيوں انہيں نہيں سمجھاتا؟ کيا مزاحمت کرنے والے اس لیے خود کو بم سے اڑاتے ہيں کہ ان کی تربيت ٹھيک طرح سے نہيں ہو پائی تھی۔ نہيں کوئی بات ضرور ہے اور اس بات کو سمجھنا ہوگا، پرکھنا ہوگا، جاننا ہوگا پہچاننا ہوگا وگرنہ پھر ہر روز ايسے نوجوان سلاخوں کے پيچھے اپنی جوانی گنواتے رہينگے۔ عالمی طاقتيں ہنستی رہينگی اور ہم اس طرح سے خون کے آنسو بہاتے رہينگے اور پھر کوئی نہيں پوچھے گا کہ آخر کيوں ہم نے اپنی زبان ناپيد کرلی۔
انديشہ مند سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
جب تک یہ انتہا پسند زندہ ہیں تب تک یہ غیر مسلموں کو مارنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کریں گے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ ٹھیک ہی ہوا ہے۔ عارف صاحب! آپ کی اور میری تصویر ان لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں ہے؟ کیا آپ نے یہ سوال کسی سے پوچھا ہے؟ وہ اس لیے نہیں کہ ہم عام لوگ ہیں اور ہم ممین پر جنت حاصل کرنے کے عزائم کے ساتھ قتلِ عام نہیں کرتے۔
آداب عرض!
جناب! ہاں، ان کے چہروں کو ديکھ کر بہت ترس آتا ہے پر ہم جانتے ہيں کہ برطانوی عدليا بہترين عدل اور انسانی ہمدردی بھی مہيا کرتی ہے۔.
جہاں تک فائدے کا تعلق ہے وہ تو سب سے زيادہ مولويوں کو ملا ہے۔ ہميں چاہیئے کہ آنے والی نسلوں کو بتائیں کہ ماضی ميں ہم نے جو دوسروں کا استحصال کيا تھا وہ بہادری نہ تھا۔ اس سے معاشرے کی سوچ بدلے گی اور حالات بہتر ہوں گے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
کیا صاحب نے ان ہتسے بستے گھروں کے بارنے میں کبھی سوچا ہے جو افعانستان میں ہیں، عراق میں ہیں۔ ان کی بھی ذرہ جوانی کے تصاویر شائع کریں جو اپنے ہی ملک میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
کیا آپ نام کے مسلماں ہے یا ۔۔۔۔۔
خدا کے بندے جس قران میں نماز زکواۃ، حج اور روزے کی فرضیت کا حکم ہے اسی قران میں جہاد کا بھی حکم ہے۔
جس صیغے کے ساتھ روزے کی فرضیت کا حکم اس ہی قران میں اس ہی صیغے کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے
السلام علیکم
میں تو بس یہی کہوں گا کہ کاش ایسا نہ ہو اور اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ کہوں گا کہ یہ جہاد نہیں ہے۔ یار معصوم لوگوں کو مارنے میں کیسا جہاد۔ اگر جہاد کرنا ہی ہے تو دوسروں کی مدد کرو۔
مغرب نے مسلمانوں کو ہميشہ طاقت کی زبان سیکھانے کی کو شش کی ہے۔ غرناطہ سے لے کر بيت المقدس تک۔ اب بھگتے۔ کا ش کبھی آپ لوگ يہ سب کچھ شروع نہ کرتے۔
اس ميں کوئی شک نہيں کہ جوان لڑکوں کی زندگیاں ضائع جانے پر دل روتا ہے۔ مگر کيا آپ کو سرسری سا بھی اندازہ ہے کہ ايسے کتنے جوان اس ملک ميں ہيں جن کی زندگياں ان سے بھی ابتر ہو چکی ہے اور وہ ايک اندھيری غار ميں زندہ ہيں۔ آج سے کچہ دن پہلے پاکستان کے معروف دانشور نزير ناجی نے لکھا تھا کہ يہ وباء پاکستان کے کونے کونے ميں پھيل چکی ہے اور کبھی بھی يہ لوگ پاکستان ميں چلنے والی تحريک کو اغوا کرکے پر تشدد راستہ اختيار کر سکتے ہيں اور ان کا کنٹرول کسی کے بھی بس ميں نہيں ہوگا۔
جناب جس تعداد ميں ان جيسے لڑکے اور لڑکياں اس ملک ميں موجود ہيں اسکا سرسری اندازہ جامعہ حفصہ کے تنازے سے لگايا جا سکتا ہے۔ ميرے خيال ميں اس وباء کے تدارک ميں سنجيدہ حکومتوں کا سب سے پہلا قدم غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہيے اور ہمارے ملک ميں ايک بھی نوجوان ايسا نہ رہے جسکے پاس نوکری نہ ہو اور ايک خوبصورت مستقبل کی اميد نہ ہو۔ دوسرے قدم کے طور پر وہ تمام نوجوان جو کبھی ماضی ميں ايسی زندگی گزار چکے ہوں ان کی ازسرِ نو تربیت کا پروگرام ترتيب ديا جائے جو کہ دنيا کے مايہ ناز ماہرين نفسيات کے مشوروں سے ترتيب ديا جائے۔ تيسرے قدم کے طور پر وہ تمام حکومتيں جو کبھی ماضی ميں يا حال ميں اپنے سياسی مفادات کے ليے ايسی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتی رہی ہوں وہ اس کام سے مکمل اجتناب کريں۔
چوتھے قدم کے طور پر ايک بين الاقوامی ادارہ ترتيب ديا جائے جو ان تمام درس گاہوں اور ان ميں پڑھائے جانے والے سليبس کی نگرانی کرے اور اسے جديد سائنسی خطوط پہ استوار کرے۔ پانچويں قدم کی طور پر ايک بين المذاہب بين الاقوامی ادارہ بنايا جائے جو مذاہب کی تعليم ميں نفرت اور کدورت کو باہمی مشاورت سے ختم کرے۔
کاش کوئی بری طاقتوں کو سمجھا سکتا کہ اب مسلمانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہيں۔ ہم تو ڈوبیں گے مگر..تم کو بھی لے ڈوبیں گے
عارف شميم بھائی آپ کے ہاتھ ميں ہے، آپ لکھ سکتے ہيں۔ ہميں تو اُميد نہيں کہ اس موضوع پر لکھا ہُوا آپ کے دل کو نا لگے تو بس لکھا ہُوا ہی رہ جائے گا۔ ايک ايک کی تصويريں ديکھ رہی ہُوں کل سےاور اس سوچ ميں ہُوں کہ کس سے کہاں غلطی ہُوئی ہو گی جو آج پانچ گھر برباد ہو گۓ کہ مر جانے والوں کو تو صبر کر ليا جاتا ہے يہ تو جيتے جی مر گۓ اور پچھلوں کو ہميشہ کی موت دے گۓ۔ شروعات کا ذمّے دار کون ہے؟ وہ ماں باپ جو بہتر مُستقبل کی تلاش ميں بديس سدھارے اور پھر بہتر مُستقبل کو ہی تلاشنے ميں ايسے گُم ہُوئے کہ جن بچوں کے بہتر مُستقبل کو کھوجنے نکلے تھے وہ کہيں پيچھے رہ گيا اور وہ اپنے نئے جہان خود تلاش کرنے نکل کھڑے ہُوئے۔ ايسے ميں مذہب کے نام پر نام نہاد ٹھيکے داروں نے اپنی بساط بچھائی اور جس کے نتيجے ميں کچے ذہن بہت آسانی سے ہاتھ لگ گۓ، بقول آپ کے کمی کہاں رہ گئی اور ميرے خيال کے مُطابق زيادتی ہو گئی ہے۔ بموں کی ،اشتعال کی، نفرت کی، طاقت کی، اسلحے کی اور اسلحے کی نُمائش کی، جس کے پاس جو کُچھ ہے وہ اُس سے اور زيادہ چاہتا ہے ايسے ميں پسنے کو صرف گُھن ہی رہ جاتا ہے اور وہ پس رہا ہے بآ سانی کيونکہ جدھر بھی ديکھو ايسی کارروائياں کرنے والے ہاتھ صاف رکھ کر اپنا کام کیے جا رہے ہيں۔ ليکن کيا آپ نے کبھی غور کيا کہ ايسی معصُوم صُورتوں کو اس آگ ميں جھونکنے والوں ميں سے کبھی کوئی خود پکڑ ميں آيا ہے کيا؟ نہيں کبھی نہيں کيونکہ اگر اُستاد نا رہے تو تعليم کون دے گا۔ کاش کہ ابھی بھی ان جوانوں کی ضائع شُدہ زندگيوں سے باقی لوگ کُچھ سبق سيکھيں اور کُچھ بھی کرنے سے پہلے يہ ضرور سوچيں کہ جو کُچھ بھی ہم کرنے جا رہے ہيں اُس ميں کتنے فيصد بھلائی ہے خود اُن کے لیے اور باقی انسانوں اور انسانيّت کے لیے۔ کاش کہ ہم دوسروں سے ہی کُچھ سيکھ سکيں کہ انسانيّت سے بڑھ کر تو کُچھ بھي نہيں ہے کہ ہمارا دين تو ہميں يہ سکھاتا ہے
گالياں کھا کر دُعا دو
پا کے دُکھ آرام دو
خير ہو آپ سب کی
شاہدہ اکرم
جی اس تمام کا حل ہے اور وہ ہے کہ انصاف کا حصول آسان کیا جائے۔ اگر ہر کیس کو دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ایک ہی کہانی ہوتی ہے اور وہ ہے ناانصافی، انصاف میں دیر، غربت، غریبوں کا استحصال، غیر میعار ی تعلیمی نصاب اور ہاں عالمی سطح پر مسلمانوں پر بلا جواز ظلم و ستم، ظالم امریکہ کی تھانیداری، اقوام متحدہ کی بے بسی، مسلمانوں کی اسلام سے دوری اور نام نہاد علماء کو حکومتی اشیر باد۔
عارف بھائی یہ ہم سب کا المیہ ہے۔ اگر یہ سوال پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے بڑے اتحاد کے کسی رہنما سے پوچھا جائے تو وہ فوراً کہیں گے امریکہ۔ ہمارے یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ میں نے جب اپنے آفس ( میں ایک نجی ٹی وی چینل میں کام کرتا ہوں ) اس کا ذکر کیا اور نوجوانوں کے ذہنوں کو نفرت کی بھٹیوں میں بدلنے والوں کیخلاف تھوڑی سی بات کی تو میرے کچھ ساتھی کاپی ایڈیٹرز ہاتھ دھوکر میرے پیچھے پڑگئے اور امریکہ اور برطانیہ کے مظآلم کی داستان بیان کرنے لگے۔ ہمارے پیارے حسن مجتبٰی تو شکر ہے امریکہ سدھار گئے لیکن یہاں تو ہر منبر پر ٹینک کھڑا ہے۔
عارف شميم صاحب، محرکات سے قطع نظر ان نوجوانوں کا يوں برباد ہو جانا واقعی بڑے دکھ کی بات ہے کہ اس سے کچھ حاصل نہيں ہوا۔ يہ ناداں تو اپني سزا پا چکے اب ان کي گردنيں بھي ناپي جانا چاہيں جو ان کے استاد تھے یا جنہوں نے انہيں استعمال کيا۔ منبر اور محراب سے ہو چکے اس نقصان کا ازالہ بھي اب اُدھر ہي سے کيا جانا چاہيۓ کہ اس پر لگا داغ بھي دھويا جا سکے۔ مذہبي رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ دار علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائيں جو حقوق کے نام پر قتل و غارتگري کي بجائے معاشرے ميں ايک باعزت مقام حاصل کرکے قانوني جدوجہد کي راہ دکھائيں جو صحيح طريق کار تھا۔
نوجوان زندگیوں کو مزید نقصان سے بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام کالی بھیڑوں کو سرعام پھرنے سے روکا جائے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بیوقوفی کے لیے عقل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اگر آپ اپنے مذہبی عقائد میں بیوقوفی کے شکار ہو جائیں۔ یہ لڑکے اسلام کی جس ’گھریلو اور ذاتی‘ قسم پر ایمان رکھتے تھے اسے ہر صورت میں تباہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ تمام انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔ ہم مسلمان عام انسان ہیں اور ہمارا ان خود ساختہ مذہبی انتہا پسندوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔
محترم عارف شميم صاحب ، سلام و التماسِ دعا
کيا لکھوں بس ايسا ہے کہ ۔۔۔
زندگی کی يہ گھڑی ٹوٹتا پل ہو جيسے
کہ ٹھہر بھی نہ سکوں اور گزر بھي نہ سکوں
يہ پانچ زندگياں ضائع نہيں ہوئيں شايد پانچ نسليں يا شايد اس سے بھی کچھ ذيادہ ضائع ہوا ہے ۔۔ ايسی بے نام مسافت ہو تو منزل کيسی ۔
بہت دکھ ہوا اگرچہ آج کل خود بھی بازو کے آپريشن کے بعد آہستہ آہستہ درد و تکليف کم ہورہی ہے مگر اس خبر نے مزيد رنجيدہ کرديا۔ ميری تکليف تو کچھ عرصے ميں کم ہو ہی جاۓ گی مگر ان جوانوں کی مائيں اور ديگر اہلِ خانہ کب تک اس دکھ سے نبرد آزما رہيں گے ۔
يہ کون سا جذبہ ہے ، يہ کون سا اضطراب ہے ، يہ کون سی فکر ہے ، يہ کيسی بے علمی ہے ، يہ دماغ کيسے کيسے ہدف معين کرتے ہيں ، يہ دل کيوں بے محبت کی بنجر زميں ہو جاتے ہيں ، کہاں يہ اسباق پڑھائے جاتے ہيں کہ دينِ سلامتی کے ماننے والے دوسروں کے لیے سلامتی نہيں ، خطرہ بن جاتے ہيں صرف دوسروں کے لیے ہی نہيں بلکہ اپنوں کے لیے بھی۔
مگر ہميں چاہيۓ کہ ايسي سوچيں کيوں جنم ليتي ہيں اور کہاں سے ليتي ہيں ان پر بھي غور و فکر کريں اور اس کے سدِ باب کے لیے کوشش کريں اور اس بات کو اپنے عمل سے دوسروں پر واضح کرديں کہ ايسی سوچ چند افراد کی تو ہو سکتی ہے مگر اکثريت اس عمل کی مذمت کرتی ہے اور اکثريت کی يہ سوچ ہر گز نہيں وہ تو قتل گاہ ميں دوسروں کو زندگی دينا چاہتی ہے۔ ان سے زندگی چھينا نہيں چاہتی ۔
اس قبيلے سے ہوں جس کا يہ دستور ہے سيف
قتل گاہوں ميں علم اپنے سنبھالے رکھنا
اپنی دعاؤں ميں اس خاکسار کو ياد رکھيۓ گا۔
نياز مند
سيد رضا
برطانيہ کا نظام عدل دنيا کا سب سے بہترين نظام ہے۔ لہذا انکی شکليں مت ديکھيں ان کے گھناؤنے کرتوت ديکھيں۔ يہ انسانيت کے قاتل ہيں انہيں تو پھانسی کی سزا ہونی چاہيے۔ انکے اباؤ اجداد نے برطانيہ ميں سر چھپانے اور پيٹ بھرنے کے ليے پناہ لی تھی اور يہ لوگ اسی تھالی ميں سوراخ کر رہے ہيں۔
عارف بھائی
شايد برطانيہ ہی کا نظم عدل ان کو کوئی ريليف دلا سکے ورنہ يہ تو اپنی جوانياں داؤ پر لگا ہی چکے ہيں اور تصاوير پکار رہی ہيں کہ ديکھو ادھر جو ديدہ ِ عبرت نگاہ ہو۔
خدا پاک و رحيم ان کے لیے رحم کی صورت پيدا فرمائے۔
وسلام
آصف محمود
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جب تک اسلام دشمن قوموں کے ایجنٹ ’مولویوں اور ملاؤوں‘ کے روپ میں پاکستان کی سیاست اور مذہب کو بیچ کر کھاتے رہیں گے اُس وقت تک دہشت گرد ہی پیدا ہوں گے، مسلمان نہیں۔
اگر دشمن ، مسلمانوں پر ظلم کررہا ہے تو اُس کا جواب ہم دہشت گردی کی بجائے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق کیوں نہیں دیتے؟
ایک لاکھ میں سے بمشکل ایک آدمی قرآن کو اپنی سمجھ کے مطابق کے پڑھ کر اُس پر عمل کرتا ہے۔ عوام کا اسلامی تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا۔ مولوی غلط عقیدے اسلام میں داخل کرچکے ہیں اورجب کوئی دلائل سے اِن کو شکست دے دے تو اُس کو توہین رسالت میں اندر کروا دیتے ہیں یا جاہل لوگ اُس کو موقع پرہی قتل کردیتے ہیں۔
جاہلیت کا دور دورہ ہے۔ مسیح ثانی کے نزول کی ضرورت اس سے زیادہ کب ہوگی؟
اے خدا اپنے مسیح کا نزول ہردل پر کردے تاکہ تمام مسلمان، عیسائی اور دوسرے مذاہب امن سے رہنا شروع کردیں۔آمین
والسلا
خاکسار
محمد سلطان ظفر (پکا مسلمان ہوں)
جب تک نفرت کے سفير ملا ہر گلی ميں دندناتے پھريں گے مسلمانوں کی يہی حالت رہے گی