تکلیف دہ سچ
اب میں اخبار پڑھتے ہوئے بعض سرخیوں پر صرف چھچھلتی سی نظر ڈالتا ہوں اور خبر کی تفصیل میں جائے بغیر آگے بڑھ جاتا ہوں۔
عراق میں چھ امریکی فوجیوں سمیت ایک سو اکیس افراد ہلاک۔
افغان صوبہ ہلمند میں اتحادی افواج کے مشترکہ آپریشن میں چھپن مشتبہ طالبان مارے گئے۔
جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی دستوں پر حملہ۔
بلوچستان میں بجلی کے چار ٹرانسفارمرز اڑا دئیے گئے۔
سعودی عرب میں دس مشتبہ القاعدہ شدت پسند گرفتار۔
وردی اتارنے کا فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائےگا ( صدر مشرف)
مجھے لگ رھا ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس کے مقدمے کی سماعت اور اس موقع پر ملک گیر مظاہروں، ہڑتال، دھرنے اور بائیکاٹ کی خبریں بھی معمول کی خبروں کی صف میں داخل ہونے والی ہیں۔
گورکن کو نیا مردہ، صحافی کو تازہ واقعہ، قاری کونئی خبر، کوٹھے والی کو نیا گاہک، قصائی کو نیا جانور، وکیل کو نیا کلائنٹ اور ڈاکٹر کو نیا مریض ہر آن چاہئیے۔
یہ ایک سچائی ہے مگر تکلیف دہ سچائی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت اللہ خاں صاحب! یہ سب کچھ لکھنے کے بعد کہ’گورکن کو نیا مردہ، صحافی کو تازہ واقعہ، قاری کونئی خبر، کوٹھے والی کو نیا گاہک، قصائی کو نیا جانور، وکیل کو نیا کلائنٹ اور ڈاکٹر کو نیا مریض ہر آن چاہئیے۔‘ ایک بات آپ چھوڑ گئے اور وہ ہے کہ بلاگر کو لکھنے کا موقع چاہیے۔
وسعت بھائی! وہ وقت بھی ديکھاہے تاريخ کی گھڑوں نے کہ
لمحوں نے خطاکی تھی صديوں نے سزاپائی
يہ اشارے بتا رہے ہيں کہ
نہ سمجھے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستاں والوں تمہاری داستاںں تک بھی نہ ہو گی داستانوں ميں
مگر شايد آپ کےکالم تاريخ مرتب کرنے ميں مدد ديں۔
لکھتےرہيے شايد کہ کسی دل ميں اتر جاۓ تيری بات
جی ہاں جناب! يہ آپ نے بالکل درست کہا ہم وقت کے اس منہ زور گھوڑے کی باگيں جتنا مرضی زور سے کھينچيں يہ اپنی برق رفتاری برقرار رکھتا ہے اور ھمارے پاس اس کے ساتھ ساتھ بھاگنے کی علاوہ اورکوئی چارہ تو بھی نہيں ہوتا
مگر اگر واقعی ہر نئی خبر قاری کو خوش کرتی يا ہر نيا واقعہ صحافی کو خوش کرتا تو آپ اتنے دکھی کيوں ہوتے؟ جناب دنيا آپ جيسے حساس انسانوں سے بھری ہوئی ہے اور شايد يہی وجہ ہے کہ نظامِ زندگی چل رہا ہے۔ آپ جيسا صحافی جب ايسی حساس باتيں کرتا ہے تو ہم جيسوں کا زندگی پر يقين بڑھتا ہے
مگر ايک بات آپ بتانا بھول گئے کہ اس کے بعد کيا ہوگا؟
بنام محترم وسعت خان!
لوگوں کو ہے خورشيدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں ميں اک داغِ نہاں اور
جناب آپ نے سچ کی بات کی، ميں جھوٹ کی بات لکھنا چاہوں گا۔
ہمارے اس جہاں ميں سُنا ہے ايسے لوگ ہيں کہ جن کی زندگی کے دن
کھِلے ہوئے گلاب ہيں، سجے ہوۓ چراغ ہيں۔ گلاب ! جن کی نکہتوں کے قافلے رواں
چراغ ! چار سُو بکھيرتے ہوئے تجلياں۔
سُنا ہے ايسے لوگ ہيں ہمارے جہان ميں۔
خدا کرے کہ ہوں مگر
نہ جانے کيوں مجھے يہ لگ رہا ہے جيسے جھوٹ ہے ۔۔
بس ايسی ہی سر پھری، پاگل، سچی باتيں لکھتے رہيں اور ہمارے لیے دعا کرتے رہيں۔
وسعت صاحب! يقيناً يہ ايک تکليف دہ سچ ہے کہ گورکن اس دن کو برا دن مانتا ہے جب قبرستان ميں ايک بھی ميت دفن کے لیے نہيں آتی اور صحافی بيزارگی کا اظہار اس وقت کرتا ہے جب شہر ميں حالات پر سکون ہوتے ہيں۔ مار دھاڑ، خون، موت، دھماکے يہ سب کچھ کتنا پر کشش ہوتا ہے ايک صحافی کے لیے!! يہ آپ بخوبی جانتے ہيں اور جب شہر ميں
وبائيں پھيلتی ہيں تو ايک ڈاکٹر خوشی سے کيسے پھولے نہ سماتا ہے يہ وہی جانتا ہے۔ رہی بات وکيلوں کی تو آج کل وہ کلاء کلائنٹوں کے انتظار کے بجائے سڑکوں پر نعرے لگانے ميں اپنے آپ کو زيادہ کمفرٹيبل محسوس کررہے ہيں اور افسوس کی بات تو يہ ہے کہ ان کے يہ مظاہرے ايک معمولی سی خبر ميں تبديل ہوگئے ہيں!!
مگر افسوس کيسا يہ تو ريت ہے دنيا کی۔ ہر وہ چيز جو پرانی ہوجاتی ہے از خود اپنی اہميت گنوا بيٹھتی ہے۔ اس سچائیی کو آپ نے جانا، اس سچائی کو ہم بھی جانتے ہيں اور اس سچائی کو دنيا نے بھی جانا ہے۔
ہاں ايک اور سچائی بھی ہے جب يہی خبريں دس سال بيس سال يا پھر صديوں پرانی ہوجاتی ہيں تو پھر تاريخ بن جاتی ہيں۔ ايسی تاريخ جو انقلاب برپا کرسکتی ہے اپنی اہميت منوا سکتي ہے۔ لوگوں کے لیے دلچسپي و تجسس کا باعث بن سکتي ہے۔ توديکھنا يہ ہے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ کل کس شکل ميں سامنے آئے گا؟
کيا ہم تاريخ سے کچھ سيکھ پائیں گے؟
يا پھر محض تاريخ ہی درج کرتے رہ جائیں گے؟
بہت خوب مگر بہت مختصر۔ کچھ نامکمل سا دکھائی دیتا ہے آپ کا بلاگ۔ میرے خیال میں آپ کو مزید تفصیل میں لکھنا چاہیے۔
بات تو سچ ہے۔۔۔
مگر بات ہے تکلیف دہ سچائی کي۔۔۔
ہماری انسانيت والی حس ہی مر گئی ہے۔
اور يہاں چاہيے ہوتی ہے آپ کی نئی تحرير۔۔۔
وُسعت بھائی! ايک کے بعد ايک کڑوی حقيقتوں کے ڈھير لگے ہوئے ہيں۔ آپ اور کتنی کڑواہٹوں کو پھلانگ پھلانگ کر آگے اور آگے بڑھتے رہيں گے۔ جبکہ انسان کی زندگی بجا ئے خُود ايک آزمائش ہی ہے۔ ايسے ميں ايک مُلک کی خبريں ہوں يا پُوری دُنيا کی خبروں کی پوٹلی بنا لی جائے يا پٹارہ۔
ميرے خيال ميں ايک ہی بات ہے ہر بات نئی ہوتی ہے توخبر ہوتی ہے اور کُچھ دن پُرانی ہو جائے تو اپنی کشش کھو ديتی ہے يا اُس کی جگہ کوئی اور نئی خبر لے ليتی ہے۔
يہی دستُور ہے زمانے کا۔ پھر کيا وُسعت بھائی آپ کو يہ نہيں لگتا کہ کُچھ اور اندر کی خبروں پر پردے ڈالنے کے لیے پُرانی خبروں اور نئی خبروں کے يہ ڈھير يونہی دُنيا کی آنکھوں ميں دُھول ڈالنے کو لگائے جاتے ہيں تا کہ ہم کسی اور طرف ديکھيں اور کرنے والے اپنا کام کر جائيں۔
بالکُل روتے ہُوئے بچے کے ہاتھ ميں پکڑے اُس روٹي کے ٹکڑے والی صُورت حال ہے جس کوذرا سی نظر اوجھل ہونے پر کوا اُڑا لے جاتا ہے اور بچے کی ساری توجہ رونے سے ہٹ کر کوّے کی حرکت کی طرف ہو جاتی ہے۔ ايسا ہی کُچھ ہے اس ساری صُورت حال ميں کہ آپ تو لکھاری ہيں اور ہم تو صرف لکھے ہُوؤں کے لکھے پر لکھنے والے ہيں، کيوں ايسا نہيں ہے کيا؟ چيف جسٹس کا کيس ہو يا کوئی اور نئی کہانی کہ يہی سچ ہے۔ گو ہے کافی کڑوا ليکن کيا کريں کہ کڑوي ہو يا ميٹھي گولي نگلنے پر مجبُور ہے وہ مخلُوق، عوام کہيں جسے۔ کيا سمجھے؟
مجھے بھی حیرت تھی کہ کافی دن کے بعد بھی یہ خبر ہیڈ لائنز میں ہے حالانکہ اتنے عرصے میں خبر پرانی ہو جاتی ہے۔ خبر، اخبارات اور نیوز چینلز کے لیے اسی طرح کی پراڈکٹ ہے جیسے کسی بھی کاروباری کمپنی کی پراڈکٹ ہوتی ہے۔ اپنا کاروبار برقرار رکھنے کے لیے جب ایک پراڈکٹ مرنے لگتی ہے تو آپ کو نئی پراڈکٹ ایجاد کرنا پڑتی ہے۔ صدر مشرف نے لال مسجد تنازعے کے ذریعے اس سارے مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوا۔ اسی طرح اگر چیف جسٹس کے مقدمے کی کارروائی کی رفتار دیکھی جائے تو وہ کچھوے کی چال سے چل رہی ہے تاکہ آہستہ آہستہ اس کا ردعمل ختم ہو جائے۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ صدر مشرف بہت ذہین ہیں کہ وہ سست رفتاری کو اس مسئلے سے عوام کی توجہ ہٹانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
يہ ايک حقيقت ہے نہ کہ سچائی کيونکہ سچائی حقيقت کا مثبت پہلو ہے۔ ميرے خيال ميں جو کچھ آپ نے لکھا وہ سب حقيقت ہے نہ کہ سچائی۔
پپو یار تنگ نہ کر!
جناب آپکی بات تو ٹھيک ہے ليکن تحريکيں قربانياں اور وقت تو ليتي ہی ہيں۔ حالات ايسے ہی تو تبديل نہيں ہو جاتے۔ وکلاء کوہمت نہيں ہارنی چاہيے اور ميڈيا کو بھی اپنے حصے کا رول ادا کرتے رہنا چاہیے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمت کی بات ہے کہ سچائی کو مانتے ہیں آپ۔
اپ کی يہ کڑوی سچائی سن کر دل خوش ہوا۔ ہميں ايسی کڑوی سچائيوں کی عادت ڈالنی ہوگي۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
کاش اس ملک کے جنرل بھی اپنے لیے کوئی نيا ملک تلاش کر ليں اور ہماری جان چھوڑ ديں۔
کہاں اور کسی کے پاس جا کر سر پھوڑیں وسعت صاحب؟ ہماری حکومت پروٹیسٹ کو پروٹیسٹ مان ہی نہیں رہی ہے۔ یہ اندھی حکومت صرف اس احتجاج کو اہمیت دے گی جس میں اِملاک جل کر خاک ہوں گی اور تب تک ہم صرف خبر بن چکے ہوں گے۔ اسی لیے یہ تو اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے والی بات ہی لگ رہی ہے۔
آپ بالکل بجا فرما رہے ہيں ليکن اگر يہ سب لوگ اپنے پيشے سے متعلق معا شر تی ذ مہ داری کا احسا س کر تے ہوئے لالچ سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض انجا م دیں تو شاید معاشرے ميں امن، انصاف کی فراہمی اور غربت ميں کمی يقينی ہو جائے گي۔
اُف! اتنا کڑوا سچ۔
جمیل صاحب، کمالیہ۔
آپ نے بھی کڑوا سچ کہا ہے۔ اتنی وسعت ان کے دل میں ہو تو اس کو تسلیم کریں نا اور بات بی بی سی کی نوکری کی بھی تو ہے۔