کراچی کے شب و روز
عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے اور موسموں کے تغیر و تبدل سے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے تو تیسری دنیا کے شہروں میں اس کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں۔
یوروپ اور امریکہ نے جس تیزی سے ترقی کی دوڑ لگائی، اسی رفتار سے وہ اسکے مضر اثرات سے متاثر ہوئے اور ان سے بچنے کے سامان بھی تلاش کرنے لگے۔ مگر ہم ابھی ترقی کا خواب دیکھنے ہی لگے تھے کہ تباہی اور بربادی کے اثرات چاروں طرف نمایاں ہونے لگے۔اسکی ایک مثال کراچی ہے جہاں ایک طرف جدید ٹیکنالوجی سے لیس اونچی عمارتیں ہیں اور ساتھ ہی وہ کچی بستیاں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات اب بھی موجود نہیں۔
کراچی میں پنتالیس ڈگری کی گرمی میں رہ کر بجلی کا گھنٹوں غائب ہونا قیامت سے کم نہیں۔ امرا اور صاحب ثروت لوگوں نے بجلی کے متبادل انتظام کر رکھے ہیں مگرغریب عوام کا پانی اور بجلی کی مشکلات کی وجہ سے جینا محال ہوگیا ہے۔
سکولوں میں بچوں کی حالت دیکھ کر انسان لرز جاتا ہے ایک کمرے میں چالیس سے پچاس بچے بغیر کولر یا پنکھے کے کیسے رہتے ہیں اسکا مشاہدہ کرکے میں سکتے میں آگئی۔ کراچی میں آگ برستی گرمی ہے، بجلی کا کئی گھنٹوں نام نشان نہیں، پانی کی بوند کے لیے انتظار ختم نہیں ہوتا اور ہر طرف گندگی کے ڈھیر اور میلوں پر پھیلے ٹریفک جام اور پھر ان کے حصول کے لیے مظاہرے اور احتجاج۔
کراچی میں ابھی تک صرف چند افراد کی ہی موت ہوئی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے ورنہ یہاں ایک بڑی تباہی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ میں نے پاکستان کی آزادی کی ساٹھ سالہ تقریبات پر پروگرام تیار کرنے کا خیال فی الحال چھوڑ دیا ہے اور اس سوچ میں پڑگئی ہوں کہ اگلے سا ٹھ برسوں میں کراچی کا وجود بھی ہوگا؟