کراچی کو ’جسٹس‘ نہیں ملا
یہ کیسا انصاف ہے۔ چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں، اس لیے وہ سڑکوں پر جلوس نکال رہے ہیں، صدر بھی عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں اس لیے وہ بھی سڑکوں پر ہیں، لوگ بھی عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ بھی سڑکوں پر ہی ہیں۔
بارہ مئی کو کچھ ایسا ہوا کہ چیف جسٹس صاحب اور صدر صاحب تو ’سڑکوں‘ سے گھر واپس چلے گئے مگر کئی لوگ وہیں پڑے رہے۔ مردہ حالت میں۔
میرے دوست عامر احمد خان نے کہا ہے کہ کراچی کی لڑائی میں سب ہی ہار گئے ہیں۔ مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ کراچی میں ایک چیز ضرور جیتی ہے اور وہ ہے دہشت۔ بارہ مئی کو کراچی کی سڑکوں پر دہشت کا راج اور موت کا رقص تھا۔ جس طرح کھلے عام اسلحے کا استعمال اور قتل و غارت ہو رہی تھی اس حوالے سے تو حکومت نام کی کسی شے کا ذکر کرنا اپنے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے۔
سڑکوں پر لاشیں پڑی تھیں اور ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ سفید شلوار قمیض پہنے خون میں نہائے چار پانچ نوجوان ادھر پڑے ہوئے ہیں تو ایک جماعت کا جھنڈا لیے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان ادھر۔ سنا ہے کہ لاشوں کو اٹھانے کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ ہوتی رہی اور یا تو اٹھانے والے بھی ڈھیرہو گئے یا ساتھیوں کو سوتا چھوڑ کر بھاگ گئے۔
مشکل تھی نہ، جسٹس صاحب رک نہیں سکتے تھے ، ایم کیو ایم کا جلسہ ضروری تھا کیونکہ اسی میں ہی اس نے بتانا تھا کہ شہر کا رستم کون ہے اور کون اسے کنٹرول کرتا ہے اور حکومت دونوں کو روک نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ ان دونوں کو روکنا سکیم میں نہیں تھا۔
اس طرح حکومت ایک اچھا بچا بنی اسلام آباد کی خوبصورت سڑکوں پر رہی اور بدمعاش عوام کراچی کی لہو لہان سڑکوں پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے رہے۔ اور صدر صاحب کی تقریر کا مطلب نکالنے کی تو ضرورت بالکل نہیں ہے چیف جسٹس صاحب پڑھے لکھے ہیں سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
کون کس کو سبق سکھائے گا اور کسے اور کب انصاف ملے گا یہ میں نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ بارہ مئی کو کراچی کی سڑکوں پر ’جسٹس‘ کی موت ہو گئی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
عامر احمد خاں کے تجزيے سے اگر آپکو اتفاق نہيں تو مجھے بھی اس سے دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ سيدھی سی بات کو بيان کرتے ہوئے انہوں نے اس ميں علميت اور توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ کھل کے قاتلوں کو قاتل نہيں کہہ سکتے تو ان کو اس قسم کے بے معنی تجزيے بھی نہيں کرنا چاہيے۔
کل کو کربلا کے واقعہ ميں توازن قائم کرنے کے ليے يوں لکھيں گے کيا ’حسين کوفہ کی بجائے يمن کو ہجرت کر جاتے تو کربلا ميں 72 قتل نہ ہوتے۔ اس ليے وہ بھی 15 فیصد ذمہ دار ہيں۔‘
عارف صاحب! آپ نے ديانت داری سے سب کچھ کہہ ديا ہے اس سوگوار ماحول ميں اب کسی اضافے کی کوئی گنجائش نہيں رہی تاہم آپ کو چاہیئے تھا کہ صدر مملکت کے جملے ”عوام نے طاقت دکھائی ہے”کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس پر تفصيلی رائے زنی بھی کرتے۔تصاوير اور فوٹيج تو دل ہلا دينے والے ہيں ہی آپ کے بلاگ نے بھی اس حد تک افسرہ کر ديا ہے کہ اب مزيد کچھ نہيں کہا جاسکتا۔
آج ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ايک جنرل اپنے اقدار کيلے اتنا نيچے چلا جائے گا۔ اب تو ضياء الحق بھی شريف لگنے لگا ہے۔
لندن کو ہی لے ليں۔ ٹونی بليئر صاحب نے جھوٹ موٹ رپوٹيں بنا کر دو ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا توان کے ملک کے باشندوں نے انکو اس بنا پر ريجيکٹ کر ديا۔اس بات کو سمجھتے ہوئے 27جون کو استعفیٰ دے ديا۔
مگر ہمارے تو صاحب کا تو مسئلہ کچھ اور ہے وہ تو ايسے کمبل کو پکڑ بیٹھے ہيں کہ اسکو چھو ڑنا بھی چاہيں تو بھی مشکل ہے۔
بس اب تو يہی ہے کہ
کار جہاں دراز ہے اب ميرا انتظار کر
حالات کو خراب ہونے دينا يا خراب کرنے ميں کچھ فائدہ تو ضرور ہے
يوں کہيے کہ فائدہ اس زياں میں کچھ ہے
اشرف، کنيڈا ريڈ ڈير
کراچی میں جسٹس کی موت اُسی دن ہو گئی تھی جب ایک ڈکٹیٹر نے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم نامی عفریت کو جنم دیا، اور اب اسی کا تسلسل ہے کہ مشرف حکومت نے بھی سیاسی مفادات کے لیے اس دہشت گرد جماعت کولا محدود طاقت سونپ دی ہے۔
کراچی میں جو کچھ ہوا اُس میں ایم کیو ایم کا ہاتھ اور حکومت کی پشت پناہی شامل ہے، جس کا ثبوت مشرف نے اسلام آباد کے جلسے میں یہ کہہ کر دیا کہ کراچی کے بھی کچھ لوگوں نے حکومت کی طاقت دکھائی۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف کراچی میں حکومتی ایماء پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، تو دوسری طرف حکومتی پارٹی اسلام آباد میں ناچ گانے کر رہی تھی۔ سرکاری ملازمین اور کرائے کے شرکاء کی تعداد سے دھوکہ کھا کر مشرف صاحب نے فرما تو دیا کہ وہ عوام میں مقبول ہیں لیکن وہ یہ بات بلٹ پروف شیشے سے باہر آکر کہنے کی ہمت پھر بھی مجتمع نہیں کر سکے۔
عارف شميم صاحب
اسلام و عليکم
ايک دکھ بھرا کالم دکھ کی شدت ميں گرفتار شخص کی دھارس بندھاتا ہے ۔ سچ تو يہی ہے کہ کراچی کي بار کو جسٹس بلکہ مسٹر جسٹس افتخار محمد بہ نفس نفيس تو نہ مل سکے۔حقيقت ميں پاکستان کو جسٹس نہ ملا۔ ايجنسيوں نے ايک مرتبہ پھر سياسی جماعتوں کے کارکن مروائے اور باہمی چپقلش کو ہوا دينے ميں کامياب ہوئے۔
جب ملک کا صدر عوام کے خلاف مشوروں اور منصوبوں پر عمل شروع کر دے تو ہر ذی شعور شہری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ميرا کيا بنے گا ميں سوچتا ہوں کہ اگر ملک ہی نہ رہا تو تيرا کيا بنےگا، صدر جنرل مشرف تم حکومت کہاں کرو گے اور چھاؤنياں کہاں بناؤ گے۔ تمہاري تو داستاں تک بھي نہ ہو گي داستانوں ميں۔
وسلام
دعا گو
مياں آصف محمود
ميری لينڈ
يو ايس اے
جناب عارف شميم صاحب !
کراچی کے بے گناہ شہريوں کی موت نے ہر حسّاس انسان کو دکھی کر دياہے اور 12 مئي 2007 جہاں بہت سارے سوالوں کے جواب بھی رقم کرگيا وہاں بےشمار سوال بھي چھوڑگيا ہے۔
کيا چيف جسٹس صاحب کے کراچی کے دورے کا اس سے بہتر بندوبست ہو سکتا تھا؟ کيا چيف جسٹس صاحب وزارت داخلہ کے انتباہ پر اپنا يہ دورہ ملتوی بھی کر سکتے تھے؟ کياچيف جسٹس صاحب اور ان کے حاميوں نے کل کے دورے سے وہ اہداف حاصل کيے جن کا تعين کيا گيا تھا؟ کيا حکومت کو اس دورے کے ممکنہ نتائج کا پہلے سے ہی علم تھا اور کيا چيف صاحب کو اس دورے کے ليے فکس کيا گيا؟وغيرہ وغيرہ
اور وہ جواب جو کل کا دن تاريخ ميں رقم کر گيا ہے مندرجہ ذيل ہیں۔
1 - کراچی ميں ايم کيو ايم کا مکمل ہولڈ ہے اور کوئی دوسری سياسی جماعت وہاں پر نہيں مار سکتی۔
2 - چلنے والی تحريک کا ڈاون فال شروع ہو گيا ہے اور ہر آنے والا دن اس حقيقت کو مزيد واضع کرے گا۔
3- حکومت نے اپنی عوامی طاقت کا کامياب تجربہ کيا۔
4- حکومت اپنی ڈپلوميسی ميں کامياب رہی اور حکومت کے خلاف تحريک چلانے والے کم عقلی ميں کراچی جا کر شہ مات کھا گئے۔
5- اگلا اليکشن جب بھی ہو وزيراعظم ايم کيو ايم کا ہی ہو گا اور يہ پارٹی قومی سطح پر پھلے پھولے گي۔
6-حکومت کو چيف جسٹس والے کيس سے ريليف مل گيا چونکہ کل کے دن نے اس ضمن ميں حکومت کے ہاتھ مضبوط کر ديے ہيں۔ اور بہت سارا ايسا مواد فراہم کرديا ہے جو پہلے سے کہيں مضبوط ہے گو حکومت اسے جلد بازی ميں استعمال نہيں کرے گی بلکہ مناسب موقع کا انتظار کيا جائے گا۔
اس سارے ڈرامے نے ايک بار پھر مشرف کو ہمارے سب سياستدانوں کا باپ ثابت کيا ہے۔ اسے کہتے ہيں ’شکاری کا صبر‘ اور اسے کہتے ہيں کمانڈو انسٹنکٹس۔
والسلام
ڈاکٹر اعجاز اختر نجمی
کراچی ميں جو کچھ ہوا اس پر ہر محب وطن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ جسٹس صاحب اگر خطاب کر ليتے تو کيا تھا۔اور شہروں ميں بھی تو وہ جا چکے تھے کيا ہوا کچھ بھی نہيں۔ يہ سب کچھ ايک سوچی سمجھی سازش لگ رہی تھي۔ جس طرح شر پسندوں کو کھلی چھٹی اور فری ہينڈ ديا گيا اس سے تو لگتا تھا کہ يہ پری پلينڈ تھا۔ حکومتی جماعت کی ذمہ داری تھی کہ وہ امن کی خاطر اپنی ريلی کسی اور دن کر ليتي۔ راستوں کو اتنے حساب کتاب سے بند يا کھلا چھوڑا گيا تھا کہ تصادم ميں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ اس سے سازش کے شکوک اور واضع ہوتے ہيں۔ کراچی سب کا ہے يہ کسی ايک جماعت کی جاگير نہيں۔
محترم عارف شميم صاحب ، سلام عرضِ خدمت ہے ۔
يقيناً ہم سب سوگوار ہيں اور رنجيدہ و کربناک صورتحال سے دوچار ہيں ۔ہم تمام ہلاک شدگان کے لواحقين سے اظہارِ تعزيت کرتے ہيں اور ان کے لیے صبرِ جميل کی دعا کرتے ہيں اور بے گناہ مارے جانے والوں کی مغفرت کی دعا کرتے ہيں ۔۔۔ اس کے سوا ہم کر بھی کيا سکتے ہيں !؟
دشتِ بے نخيل ميں
بادِ بے لحاظ نے
ايسی خاک اڑائی ہے
کچھ بھی سوجھتا نہيں
حوصلوں کا سائبان
راستوں کے درميان
کس طرح اجڑ گيا
کون کب بچھڑ گيا
کوئی پوچھتا نہيں
فصلِ اعتبار ميں
آتشِ غبار سے
خيمۂ دُعا جلا
دامنِ وفا جلا
کس بُری طرح جلا
آئيں، پھر سے دعا کريں کہ کوئی معجزہ رونما ہو کہ اجڑی زمينوں کی عظمتيں لوٹ آئيں ۔ اور حُرمتِ آدميت اپنی تمام تر عزتوں کے ساتھ نئی سانس لے سکے۔
دعا گو
سيد رضا
ستم ظريفی کی انتہا ہے کہ ايک طرف کراچی کے سڑک خون اور لاشوں سے بھرے پڑے ہيں دوسرے طرف طاقت کے نشےميں سرمست سربراہان مملکت اسلام آباد ميں جھوٹی طاقت کا جشن منا رہے ہيں۔ کراچی کو چيف جسٹس ملا مشرف بدنام ہوا۔
جسٹس زندہ ہی کب تھا اس معاشرے ميں،
جناب عارف شميم صاحب۔ يہ کہيئے اس حقيقت کی ايک اور يقين دہانی ہوئی ہے۔
جلالی قوم وملت کے مخلص صدر نےغريب قبائلی عوام کے بعد اب کراچي کے عوام کےخون سے ہاتھ رنگنا شروع کيا ہے، جہاں ايک طرف کل کراچي کی سڑکوں پر بدنصيبوں کی لاشیں خون ميں لت پت پڑی تھیں، وہیں قوم کا سپاھی اپني طاقت کا جشن منا رہا تھا۔
خون اور جنازوں کا یہ شرمندہ کھيل کب سےشروع ہے مگر اخباروں کی زينت تب بنا جب کراچي ميں ايک ہی دن میں 34افرادکو بیدردي سے مارا گيا۔ کسي بھي ملک کاظالم جابر سے جابر حکمران اتنی بےغيرتی گوارہ نہيں کريگا کہ ايک طرف غربت ميں دہنسے ہوئے عوام کے جنازوں اور خون سے سڑکيں بھري ہوں۔ دوسری طرف وہ طاقت، ڈکٹيٹرشپ اوراپنے ظلم پر جشن منا رہا ہو۔ مگرشايد ہم دنيا کی ذليل ترين قوم ہیں۔
يہ سب ايم كيو ايم كى بدمعاشى ہے اور حكومت ناكام ہو گئی ہے۔ افسوس صد افسوس۔
محمد اختر رسول۔
واقعی جسٹس کی موت ہوگئی اور ضد اور انا بہت سی جانوں کو کھا گئی۔
محترم کراچی میں بات صرف جسٹس کی نہیں تھی بات اپنی رٹ کی تھی۔ میں حکومت کی رٹ کی بات نہیں کر رہا ہوں، میںمتحدہ کے رٹ کی بات کر رہا ہوں کچھ لوگ کہہ رہے ہیںکے اگر متحدہ نے ریلی کا فیصلہ کیا تھا تو جسٹس صاحب کو اپنا پروگرام تبدیل کر لینا چاہیے تھا لیکن میری نظر میں اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جسٹس صاحب اگر ایک ہفتے بعد کی کوئی تاریخ رکھتے، تب بھی ایم کیو ایم کسی نہ کسی بہانے سے اُس میں رخنہ ڈالتی کیوں کہ متحدہ کے قائدین کو کراچی میں کراچی کے عوام کسی اور کا اتنا والہانہ استقبال کریں بالکل بھی نہیں پسند کیوں کہ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوگا۔
ویسے بھی کل کی متحدہ کی ریلی خود اُن کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہونی چاہئے کہ کل بھی متحدہ اتنے عوام جمع نہیں کر سکی جتنا میں اندازہ کر رہا تھا۔ بہر کیف کل جو کچھ بھی ہوا، اُس میں انسانیت ہار گئی اور فسطائیت جیت گئی اب یہ فسطائیت چاہے ایم کیو ایم کی صورت میں ہو یا جنرل پرویز مشرف کی صورت میں۔۔۔
انسانيت کا درد رکھنے والے ہر دل کی آوازيہی ہے۔ يہ پيٹ بھرے لوگ اقتدار کی لالچ ميں جن لوگوں کو بھيڑ بکريوں کی طرح استعمال کرتے ہيں۔ آج ذرا انکے گھروں ميں ہونے والے ماتم کی دھمک اپنے سينوں ميں محسوس کريں 30 سے زيدہ ماؤں کی گود اجڑنے والے تھوڑی دير کے لیے اپنی ماں کو بھی اسی طرح پچاڑيں کھاتا ہوا تصور کريں ٹی وی پر لاوارث پڑی نظر آنے والی لاشوں کو جب انکے وارثوں نے ديکھا ہوگا، بوڑھی ماں نے ديکھا ہوگا تو شايد وہ بےچاری پھر اور کچھ ديکھنے کہ قابل ہی نہ رہی ہو۔
جسٹس ہار گيا اور دہشتگرد جيت گيا۔
بالکل درست لکھا۔جسٹس صاحب اپنا دورہ منسوخ کر سکتے تھے یا پھر جیسا حکومت سندھ نے پیشکش کی تھی انہیں بار کونسل تک تک بہ حفاظت پہنچایا جاسکتا تھا، مگر ڈریکولا کو خون چاہیے تھا نہ۔
دوسری طرف متحدہ اگر ایک دو دن بعد ریلی نکال لیتی تو کیا ہوتا۔۔مگر۔۔۔کالی مائی کو خون چاہئے تھا نہ۔۔۔۔
اور اگر قانون نافذ کرنے والے درختوں تلے آرام نہ کر رہے ہوتے تو یہ خون نہیں بہتا۔۔مگر خون کی تو ضرورت تھی نہ بھئی۔
عارف شمیم آپ کا جانبدارانہ بلاگ پڑھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا یہ سینتیس لوگوں کا خون چیف جسٹس نے بہایا ہے؟ حکومت سندھ کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے؟ اور کیا چیف جسٹس کو اس طرح کراچی ائر پورٹ پر روکنا درست تھا؟ ہاں اگر ایسا چیف جسٹس کی بذریعہ سڑک روانگی کے دوران ہوتا تو کسی حد تک ٹھیک تھا لیکن اس قسم کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔ یہ سب کچھ ایم کیوایم نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کراچی ہمارا ہے کیا ہے۔ خدارا عارف شمیم بھائی کم از کم آپ بی بی سی والے تو اس طرح کا جانبدارانہ رویہ اختار نہ کیا کرے کیوں کہ مجھے آپ کے جانبدارانہ تبصروں کا اس لیے دکھ زیادہ ہوتا ہے کہ میں آپ کا تقریباً دس سال کی عمر سے گرویدہ ہوں یعنی بی بی سی کا۔
مشرف صاب نے کل صاف الفاظ ميں اس کی وضاحت فرما دی کہ اگر عدليہ آزاد چاہیے تو سياست بند کروانی پڑے گي۔ مشکل ہے بھائی۔
ميرے بھائی جسٹس تو اسی دن مر گيا تھا جس دن جسٹس منير کا فيصلہ آيا تھا۔ جسٹس کی تدفين اس دن ہو گئی تھی جس دن پہلا مارشل لاء لگا تھا۔ فوجی حکومت اور جسٹس دو متضاد چیزیں ايک ساتھ نہيں چل سکتيں۔ اس کی تازہ مثال اوکاڑہ فارم ميں مقامی لوگوں کے ساتھ فوجيوں کا سلوک، 71 ميں بنگاليوں کے ساتھ پاکستانی فوج کا سلوک، اب وقت کا جسٹس بھی کرائسس ميں ہے۔ ديکھتے ہيں کہ کيا ہوتا ھے۔ ظلم و جبر کی رات اور طويل ہوتی ہے۔ يا صبح کی پھلی کرن کے ساتھ ايک نيا جسٹس نمودار ہوتا ہے۔
جی ہاں کراچی ميں دھشت گردی جيت گئی۔ پوليس اور رينجرز تو بيچارے حکم کے تابع تھے، بيچارے سرکار کے ملازم جو ہوئے۔ البتہ يہ بات درست ثابت ہوئيُ کہ سرکار اور سرکار کے حمايتی جو چاہيں گے وہی ہو گا۔ وکلاء، جج اور اپوزيشن اور چيف جسٹس سندھ بھی کچھ نہيں کر سکتے۔ کر لو جو کر نا ہے۔
آخر کراچی ہی کيوں ميد ان جنگ بنا۔
شميم بھائی
کيا يہ الميہ نہيں ہے
شايد کسی نے ٹھيک ہی کہا تھا
کسے وکيل کريں کس سے منصفی چاہيں
ميں نے بھی ديکھا تھا کہ کيسے ايک شخص اپنے کٹے ہوئے گلے کے ساتھ مدد کے لیے پکارتا ہے، کيسے ايک شخص اس کے قريب پہنچتا ہے اور کيسے اچانک فائرنگ کا شور سن کر بھاگ جاتا ہے اور کيسے زخمی انتہائی بے بسی بے چارگی اور کرب کے ساتھ زمين پر گر پڑتا ہے۔ اب يہ نہيں پتہ کہ ٹی وی والوں نے اسے انسانی ہمدردی کے ناطے ہسپتال تک پہنچايا يا پھر اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسے يوں ہی مرتا چھوڑ کر چلتے بنے! ويسے ايک بات بتاؤں!انسانيت کو سسکتے ہوئے ابھی تک صرف سنا ہی تھا ليکن آج ديکھ بھی ليا ہے۔ اس کرب نے مجھے ايک دن تک گم سم رکھا تھا پتہ نہيں جنرل صاحب اور چودھری صاحب نے دل دہلا دينے والے يہ مناظر ديکھے بھی ہيں؟
خير انديش سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن
جسٹس تو اس دن ہی مر گيا تہا جب ایم کیو ایم حکومت آئی تھی۔
مت پوچھ مجھ سے ميرے ملک کی سياست کا حال
جيسے ہو تماشبينوں ميں طوائف گری ہوئی۔