’ڈسٹ بن کا کیا کرنا ہے‘
اسلام آباد ائرپورٹ کے اندرونِ ملک پروازوں کے لیے مختص ارائیول لاؤنج میں داخل ہوتے ہی میں نے واش روم کا رخ کیا۔ گرمی سے تمتائے چہرے پر چھینٹے مارے۔ ٹشو سے چہرہ صاف کیا اور ڈسٹ بن کی تلاش میں نظریں گھمائیں۔ چاروں کونے چیک کیے۔ ڈسٹ بن نہیں تھا۔
واش روم سے باہر نکلا تو ایک کاؤنٹر پر نظر پڑی۔ جس پر انگریزی میں ’فیسلیٹیز‘ اور اردو میں ’سہولیات‘ درج تھا۔ وہاں’ سول ایوی ایشن‘ کا آسمانی وردی پہنے ملازم مستعد کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا ’ڈسٹ بن کہاں ہے؟‘ کہنے لگا ’ڈسٹ بن کا کیا کرنا ہے !!!‘ میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔
کچھ لمحے میں شاید اسے خود ہی اپنے سوال کی نوعیت کا احساس ہوگیا اور اس نے قریب سے گزرتے ہوئے خاکی وردی والے پورٹر سے پوچھا ڈسٹ بن کہاں ہے؟ پورٹر نے کہا اس پلر کے ساتھ رکھا ہے۔ میں نے پلر کی طرف دیکھا۔ ڈسٹ بن نہیں تھا۔۔۔
پورٹر خود ہی کہنے لگا ’رکھتے تو یہیں ہیں پتہ نہیں آج کہاں ہے۔۔۔آپ ایسا کریں یہ ٹشو مجھے دے دیں میں کہیں پھینک دیتا ہوں۔‘ میں نے پورٹر سے کہا کہ یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اتنے میں ایک نیلی وردی والا ہمارے سامنے سے گزرا۔ پورٹر اس کی طرف لپکا۔۔۔’اوئے ڈسٹ بن کدھر ہے؟؟‘ نیلی وردی والا پلٹا۔۔۔’ کیوں کیا کرنا ہے؟‘
’مجھے نہیں صاحب کو ضرورت ہے!‘ ’ کون ؟؟ اچھا ! یہ صاحب۔۔۔آئیے صاحب میں آپ کو دکھاتا ہوں۔‘ یہ کہتے ہوئے نیلی وردی والا جس کا تعلق شاید صفائی کے شعبے سے تھا مجھے لاؤنج کے ایک کونے میں چھپے ہوئے دروازے تک لے گیا۔ تالہ کھولا۔۔میں نے دیکھا کہ یہ ایک سٹور نما چیز ہے جس میں فرش صاف کرنے والے کچھ جھاڑ رکھے ہوئے تھے۔ اور پلاسٹک کی دو بالٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔
’یہ ہے صاب ڈسٹ بن۔ لائیے یہ ٹشو مجھے دے دیں میں پھینک دوں۔‘ میں نے اسے ٹشو تھماتے ہوئے پوچھا یہ سٹور میں کیوں بند ہیں؟ انہیں تو لاؤنج میں ہونا چاہیے! کہنے لگا باہر رکھنے کا آرڈر نہیں ہے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت اللہ خان صاحب آپ کو چاہيے تھا کہ آپ اس نيلی وردی والے کو سو روپے دے ديتے تاکہ وہ ايک عدد ڈسٹ بن خريد کر وہاں رکھ ديتا اور آپ جيسے لوگوں کی دعائیں ليتا۔