اچھےایڈیٹر کے ساتھ گزرا اچھا وقت
طاہر مرزا صاحب کو مرحوم کہنا عجیب سا لگتا ہے۔ ہمیں وہ ہم سے زیادہ بڑے کبھی نہیں لگے تھے۔ ہم میں سے اکثر کی عمر جتنا شاید ان کا صحافت میں تجربہ تھا لیکن انہوں نے کبھی رعب نہ ڈالا، ہمیشہ اپنی عزت کروائی۔
پانچ سال مرزا صاحب کے ساتھ کام کیا لیکن یاد نہیں پڑتا کہ وہ کبھی کسی سے کرخت بولے ہوں۔
کام کے بارے میں ان کا رویہ انتہائی غیر روایتی تھا۔ ایک بار ڈان لاہور کے فوٹوگرافر طارق محمود نے ان سے بیماری کی وجہ سے چھٹی مانگی تو انہوں نے کہہ دیا کہ نہیں مِل سکتی۔ طارق نے پریشان ہو کر کہا ’سر محمود زمان بھی تو پتہ نہیں کہاں کہاں جاتا ہے آپ نے اس کو تو کبھی نہ نہیں کی‘۔ مرزا صاحب نے کہا بھئی وہ تو سیر کے لیے جاتے ہیں۔ ’آپ بھی سیر کے لیے جائیں میں ابھی دستخط کر دیتا ہوں‘۔ چھٹی بحرحال طارق کو مِل گئی تھی۔
انہیں یہ بھی شوق تھا کہ لوگ پریس کلب یا جرنلسٹس یونین کے انتخابات میں بھی حصہ لیں۔ میں انتخابات کے دنوں میں دفتر سے اکثر غائب رہتا لیکن کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اس دوران میں نے لاہور کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے اخبار کے دفتر کا دورہ کیا اور ان صحافیوں سے ملا اور بات کی جن کے بارے میں میں شاید کبھی جان بھی نہ سکتا اور یہ بھی دیکھا کہ لوگ کن حالات میں کام کرتے ہیں۔
دفتر میں ماحول دوستانہ تھا۔ منصور ملک ڈان میں آنے کے بعد ایک بار انہیں اپنی خبر چیک کروانے گئے تو انہوں نے اپنی بیگم سے ان کا تعارف کروایا جو کسی کام سے دفتر آئی تھیں۔ منصور کمرے سے نکلنے لگے اور پھر دروازے سے ایک دم پلٹے اور بڑے سٹائل سے پوچھا کہ سر آپ نے ان کا تو بتایا نہیں کہ یہ کون ہیں اور کہاں ہوتی ہیں؟ مرزا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں عینک اتار کر ان کی طرف دیکھا اور بولے کہ ’بھئی یہ ہماری بیگم ہیں اور ہمارے گھر میں رہتی ہیں‘۔ کچھ عرصے بعد منصور نے ان سے پوچھا کہ ’مرزا صاحب سنا ہے آپ کی وائیف نرسری شروع کر رہی ہیں، وہاں بچوں کو کیا سکھایا جائے گا؟‘ مرزا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بھئی ان کو وہاں وہ سب کچھ سکھایا جائے جو آپ کو نہیں سکھایا گیا‘۔
ایک اور موقع پر ہمارے سٹی ایڈیٹر محمود زمان نے ان سے کسی موضع پر بات شروع کی ہی تھی ’مرزا صاحب ہماری عمر میں تو۔۔۔۔‘، کہ انہوں نے ایک دم انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ ’آپ مجھے ہماری عمر والوں میں شامل نہ کریں‘ اور اگر شک ہے تو سیڑھیاں اترنے کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ وہ شاید درست کہہ رہے تھے اور یہ مقابلہ جیت بھی جاتے۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ ایسی ہی باتیں سوچ کر ان کے جانےکی خبر عجیب لگتی ہے۔
ہنسی مذاق ہو یا کام کا وقت مرزا صاحب سے کسی بھی موضوع پر اور کسی بھی مسئلے پر پورے اعتماد کے ساتھ بات کی جا سکتی تھی۔ ان کے کسی بھی مشورے کو بغیر ان کی ناراضگی کا خطرہ مول لیے دلائل کے ساتھ رد کیا جا سکتا تھا۔ وہ اپنا کالم لکھ کر کسی کو بھی دکھا لیتے اور اس میں تبدیلی کرنے میں انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ دفتر میں کوئی سینیئر جونیئر نہیں تھا۔ ان سے مسلسل رہنمائی ملی۔ ایک رپورٹر کے لیے کیریر کے ابتدائی سالوں میں ان سے بہتر استاد کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم اسد علی چودھری صاحب
اسلام و عليکم
آپ کے ساتھيوں اور اہل خانہ کے غم ميں شريک ہوں۔
اب سمجھ آئی آپ نے پڑھنے والوں کے دل جيتنے کا فن کہاں سے سيکھا۔ خدا مرحوم کے درجات بلند فرماے۔ آپ کو اور جملہ وارثان کو ہمت اور صبر جميل عنائت فرمائے۔ مرحوم سے نيچے جانے کی ريس کوئی نہ جيت سکا-
مخلص
مياں آصف محمود
امريکہ
ايک انسان کی اصل خوبيوں کا احاطہ اکثر لوگ اُن کے جانے کے بعد ہی کيا کرتے ہيں ليکن اسد صاحب آپ نے اور دُوسرے سب ساتھيوں نے جس طرح طاہر صاحب کواُن کے جانے کے بعد خراج تحسين پيش کيا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ جانے والا کتنی خوبيوں کا مالک تھا اور يہ کتنی خوش کُن بات ہے کہ کوئی آپ کو آپ کے جانے کے بعد اچھے ناموں سے ياد کرتا ہے دُعا ہے کہ يہ صدمہ آپ سب کو اور اُن کے لواحقين کو برداشت کرنے کی توفيق دے کہ موت ايک ظالم حقيقت تو ہے ليکن صبر بھی ايک حقيقت ہے اللہ تعاليٰ سب کو صبر دے،آمين
دعاگو
شاہدہ اکرم
جناب اسد علی چودھری صاحب !
طاہر مرزا صاحب مرحوم کے حوالے سے آپ کے جذبات پڑھ کر مجھے حضرت علی کا واقعہ ياد آ گيا-
ايک دفعہ حضرت علی ايک عام سے بندے کو گزرتا ديکہ کر کھڑے ہوگئے- احباب نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمايا کہ اس شخص سے ميں نے ايک لفظ سيکھا تھا اس لئے يہ ميرا استاد ٹھہرا اور اس کا ادب مجھ پر فرض ہے-
اللہ طاہر مرزا صاحب مرحوم کو جنت نصيب کرے-
والسلام
ڈاکٹر اعجاز اختر نجمی
اسد علی چوہدری صاحب ، خوش قسمت ہيں وہ لوگ جنہيں اس طرح ياد کيا جاتا ہے اور وہ بھی جنہيں ان کا ساتھ ميسر ہوتا ہے - ايک مہربان نے حضرت علی کا ذکر کيا ہے - گزارش ہے اس طرح کی روايات بيان کرتے وقت کچھ تو سوچ ليا کريں - مصدقہ حوالوں کے مطابق نبی کريم کا خود کو علم کا شہر اور علی کو اس کا دروازہ کہنے کے بعد کسي کو ان کا بھی استاد بنا کر کسے جھٹلا رہے ہيں آپ ؟
محترم اسد علی صاحب ، سلام عرضِ خدمت ہے ۔
آپ اس بزم ميں کافی دنوں بعد آئے اور آئے بھی تو غمناک اور دل گرفتہ خبر و واقعات کے ساتھ ۔ ميں طاہر مرزا مرحوم کی رحلت پر ان کے دوستوں و احباب سے اور خصوصاً ان کے پسماندگان سے اظہارِ تعزيت کرتا ہوں۔
موت برحق ہے ، موت کي نظر ميں شاہ و گدا سب يکساں ہيں ، مگر جس آدمی کی ياد باقی رہ جاۓ وہ مرتا نہيں ۔ اور يقيناً جناب طاہر مرزا مرحوم آپ جيسے مخلص ساتھيوں کی يادوں ، چاہتوں اور عقيدت کي بياضوں ميں ہميشہ رہيں گے ۔
ميں دعا کرتا ہوں کہ ۔ــ اے پاک پروردگار ، طاہر مرزا کی روح کے درجات کو بلندی عطا فرما ، ان کو اپنی خوشنودی سے بہرہ مند فرما اور ان کو اپنی جوارِ رحمت ميں جگہ عطا فرما اور لواحقين کو صبرِ جميل عطا فرما۔
ملتمسِ دعا
سيد رضا