نیا نیرو، کراچی اور شرفا کمیٹی
کراچی میں جب گزشتہ سنیچر کو بندوق باز نہتے لوگوں کو کھلے میدانوں میں فاختاؤں کی طرح نشانے بنا چکے تو پاکستان کے نئے نیرو نے ایک ٹانگ پر ڈانس کرتے ہوئے اسے ’عوامی طاقت کا مظاہرہ‘ قرار دیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ مرگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے اس دن کا زخمی سورج شرم کے مارے غائب ہو گیا تھا یا وہ شام کی لاش پر بین کرتا تاریکی میں ڈوب گیا؟
لیکن شاہراہ دستور پر لاٹھی اور گاجر کے بل بوتے پر ہکا لے آئے ہوئے حاضرین کو بھی پتہ تھا کہ اسٹیج پر ناچنے سے ہر کوئی بھٹو نہیں بن جاتا اور نہ ہی گجرات کا ہر چودھری جنریلی منشا کیلیے کتنا فرہاد یا شیریں بن جائے، جنرل رانی بن سکتا ہے۔ چڑھتے سورج کی سیوا کرنے والے یہ خانِ خانان، یہ چوہدری۔
کسی نے اس دن مجھ سے کہا کہ وکلاء کے ساتھ باقی ملک کیطرح سینٹرل پنجاب کے بھی اٹھ کھڑے ہوجانے کے بعد اب سارا تکیہ سینٹرل کراچي کی ’شرفا کمیٹیوں‘ کے شرفا پرہے۔ (اندرون خانہ کراچي ایم کیو ایم کے سیکٹر کے جیالوں کو ’شرفا‘ کہا جاتا تھا۔)
جنرل نے کہا ’کراچی میں ایم کیو ایم ایک طاقت ہے۔ میں مہاجر نہیں اردو بولنے والا سندھی ہوں‘۔
کبھی کھبی مجھے لگتا ہے بزدلی، اور طاقت سے کچل دیئے جانے کی بات جنرل خالی درختوں اور دیواروں سے نہیں پر اپنے ہی ہم پلہ پٹے بھائیوں سے تو نہیں کررہے! ’اگرنہیں تو کس کو کہہ رہے ہو بھائي!‘
کہتے ہیں کہ چیف جسٹس بحران تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے- بقول بشیر بدر:
’تبدیلیاں، تبدیلیاں اور ہرطرف تبدیلیاں
ایک باغی شہر بھر کو انقلابی کر گیا۔‘
یا ایہا الناس! لیکن خبردار رہیں کہ یہ تبدیلی آسمان سے گرکر کھجور میں اٹکنے والی نہ ہو!
لوگو! وہ دن دور نہیں جب وہ جو آپکی جان کو ہٹلر بنے ہوئے ہیں خالی کرسیوں اور درختوں سے خطاب کررہے ہونگے۔
تبصرےتبصرہ کریں
یہ کئی نسلوں کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ ایک پنجابی، جسٹس افتخار چوہدری نے جارح کے دربار میں انکار کیا اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔
حسن مجتبیٰ، يہ بتاؤ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں کتنے ميں بکے؟ مشرف نے اس ملک کو وقار دلايا، معاشی استحکام دلايا اور آج تمہارے من پسند غدار اس سب کو برباد کرنا چاھتے ہيں اور ايک بار پھر لوٹنا چاہتے ہيں اور تم ان کی پيٹ تھپک رہے ہو۔ لکھ کہ رکھ لو کہ يہ بکاؤ اپوزيشن کچھ عرصہ بعد آوارہ ۔۔۔ کی طرح دھول چاٹتی نظر آئے گی۔
مشرف ! عزت سےگھر جاؤ!
ايک وضاحت۔ جنرل صاحب نے يہ نہيں کہا کہ وہ اردو بولنے والنے سندھی ہيں۔ انہوں نے کہا ’I am an urdu speaking, yes indeed.’ لمحہ بھر کے لئے مجھے بھی يوں لگا کہ وہ وہی کچھ کہہ رہے جو آپ سمجھے۔ ليکن پھر مجھے ياد آيا کہ سندھی ہونے کا دعوی جنرل صاحب صرف اندرونِ سندھ کے جلسوں ميں سندھيوں کی خوشنودی کے لئے کرتے ہيں۔ سندھ سے باہر ايسا کہنے کی نہ جنرل صاحب کو کوئی ضرورت ہے نہ ہی کبھی انہوں نے ايسا دعوی کيا ہے۔
’لوگو ! وہ دن دور نہيں جب وہ خالی کرسيوں اور درختوں سے مخاطب ہوں گے۔‘ درست فرما رہے ہيں آپ حسن مجتبٰی صاحب، لگتا ہے کچھ ديکھ ليا ہے جب ہي تو بقول ايک مشہور بھارتي فلمي زورآور کے، ’بہت پھڑپھڑا رہا ہے۔۔۔۔‘
حسن مجتبیٰ صاحب، آپ کا بلاگ بہت ڈرتے ڈرتے کھولا لیکن پورا پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ شاید آپ کی طبیعت کچھ ناساز ہے۔ آپ کے بلاگ سے نہ تو مہاجروں کے لئے نفرت کا اظہار ہوا نہ ایم کیو ایم کے خلاف وہ جاندار الفاظ استعمال ہوئے جن سے زرد صحافت بھی شرما جائے اور نہ ہی پاکستان کی اکائیوں کو ایک دوسرے سے دور لے جانے کی آپ نے کوشش کی۔ میں اور میرے بچے آپ کے لیے دعائیں کرتے رہیں گے۔