’فتح آخرعوام کی ہوئی‘
پاکستان جہاں کے عوام کی امیدیں سازش کے ساتھ سو جاتی ہوں (سازشیں گالف کے میدانوں سے لے کر پریڈ کے میدانوں تک بھی ہوتی ہیں) وہاں کی سپریم کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے جنرل پرویز مشرف اور ان کی فوجی جنتا کے ہاتھوں ہٹائے جانے والے چیف جسٹس کی بحالی اور ان کے خلاف ریفرنس کالعدم واقعی عوام کی فتح ہے۔
کئي سالوں بعد (یقیناً بھٹو کی پھانسی کے بعد اور اس سے قبل) پاکستانی عدلیہ نے اپنے سرنگوں کیے وقار کو تاریخی طور بحال کر دیا ہے۔ فوجی آپے خان تانا شاہ جنرل اور اس کے ٹولے کو شکست ہوئی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ افتخار محمد چوہدری نے ’چرم پوش‘ فوجی صدر کے منہ پر جو ’نہ‘ کی تھی وہ ان سے سرزد ہو گئي تھی یا انہوں نے پاکستان اور اس کے عوام کے مقدر کو کوئی موڑ دینے کا فیصلہ دانستہ ہی کر لیا تھا۔ جو بھی تھا لیکن پرویز مشرف کو جس نے بھی نو مارچ کا دھکہ دیا تھا خوب دیا تھا۔ اب پاکستان کی اصل آزادی کا دن چودہ اگست نہیں بیس جولائی ہونا چاہیے کیونکہ کسی بھی ملک میں عدلیہ کی آزادی ہی سے ملک کی آزادی کا پتہ پڑتا ہے۔ چاہے وہ آزادی چوبیس یا اڑتالیس گھنٹوں کی ہی کیوں نہ ہو۔
’آزادی گھوڑے پر آئے یا گدھے پر لیکن خواب دیکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔‘ اپنے دور کے ایک اور افتخار محمد یعنی جسٹس محمد رستم خان کیانی نے اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا۔ جسٹسس کیانی، محمد افتخار، دراب پٹدیل اور محمد بچل میمن ( سندھ چیفس کورٹ میں مولوی تمیز الدین کی اسمبلی کے بحالی کا فیصلہ لکھنے والے) پاکستان میں ہ رروز پیدا نہیں ہوتے۔ جسٹس افتخار محمد چودہری نہ فقط محض خواب دیھکنے والے لوگوں پر اپنے خوابوں سمیت قتل ہونے والے لوگوں کی بھی شنوائي کر رہے تھے جو خود منصف سے ملزم بنا دئیے گئے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن پاکستانی جنرل ڈھاکہ کے بعد یہ دوسری مرتبہ تاریخ میں ذلیل و رسوا ہوئے ہیں۔ منو بھیل اور پاکستانی عوام کا راک اسٹار جسٹس چوہدری جیت گیا ہے۔
پر ’وقت لکھے گا تاریخ کا فیصلہ‘۔ جسٹس چوہدری شاید اب سڑکوں پر نظر نہ آئیں لیکن پاکستان کے وکلاء اور عوام کا قافلہ رکا نہیں۔ پاکستانی جسٹسں بھٹو کے مردے میں تو جان نہیں ڈال سکتے لیکن جسٹس منیر اور جنرل ضیاء پھر سے دفن ہوئے ہیں۔ ’آج کسی کی ہار ہوئی ہے اور کسی کی جیت۔۔۔‘
تبصرےتبصرہ کریں
عوام اور انصاف کی فتح نے پاکستان کو قوموں کے درميان سر اٹھا کے کھڑے ہونے کا ايک موقع فراہم کيا ہے۔ ايسے مواقع بار بار نہيں ملتے۔
اس لیے اب قوم کو اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔
يقيناً فوج کو اس شکست کے بعد عوام کی جان چھوڑ دينی چاہیے۔
یہ ایک تاریخی فتح ہے۔ اب مشرف کو استعفی دے دینا چاہیے۔
فتح کا نشان بناتی يہ صُورت آج اتنے دنوں کے بعد ايک اچھی خبر کی طرح دکھائی دی۔ شُکر ہے اللہ کا جس نے انصاف کو انصاف ديا يعنی جسٹس کو انصاف ملا۔ اب دُعا يہ ہے کہ جسٹس صاحب اپنے اصُولوں پر اسی طرح قائم رہيں اور جس تکليف کا اُنہوں نے ان دنوں سامنا کيا اُنہيں عام عوام کی تکاليف کا اور زيادہ اندازہ ہُوا ہوگا۔ سو درُست اور بروقت انصاف کر سکيں اور کروا سکيں تاکہ ہم بيس جولائی کو انصاف کی آزادی کے دن کے طور پر منا سکيں ورنہ اتنی طُول طويل جدّو جہد کا کوئی مطلب نہيں ہوگا کہ اب نہ ہی بُھٹو دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے انصاف پانے کو اور نہ ہی ضياء ايک بار پھر کسی کو کٹہرے ميں لا کھڑا کرنے کو دُنيا ميں آ سکتا ہے۔ ليکن حسن صاحب سولہ آنے درُست بات کہی آپ نے
’آج کسی کی ہار ہُوئی ہے آج کسی کی جيت‘
ليکن دل کيُوں خائف ہے کہ کہيں کُچھ غلط تو ہو نہيں رہا؟ عادت نہيں رہی ناں شايد اچھی خبروں کی۔ ليکن اُميد پر دُنيا قائم ہے۔ انشاء اللہ سب اچھا ہی ہو گا
دعاگو
شاہدہ اکرم
جيت عوام کی اور شکست آمريت کی اور آئندہ کے لیے فوجی جرنيلوں کی راہ بند ہوگئی۔ مبارکباد ہو عدليہ کے نڈر ججوں، عظيم وکلاء اور عوام کو۔ انشاءاللہ اب جمہوريت ہی پاکستان کا مقدر ہوگی۔
آج ملکي تاريخ ميں پہلي دفعہ صحيح معنوں ميں عوام کی جيت ہوئی ہے۔ جبکہ 1947 سے ملک سے ديمک کی طرح چمٹی ہوئی بيوروکريسی کی ہار ہوئی ہے۔
واہ! کيا بات ہے۔ ميں سمجھتا ہوں اگر آج کسی کی ہار ہوئی ہے تو وردی اور بندوق کی ہوئی ہے۔ جيت ہوئی ہے تو کروڑوں عوام کي۔ 14 اگست کو ملنے والی آزادی تو احساس ہونے سے پہلے ہی چھن گئی تھی۔ غاصبوں نے ملک دو لخت کر ديا۔
خدا 20 جولائی کی آزادی کو دائمی رکھے اور قوم کے بيٹوں اور بيٹيوں کے منہ پر آئی مسکراہت بھی قائم رکھے۔
لال مسجد، خود کش بم حملوں اور خون بھری خبروں ميں جکڑے ہوئے شکستہ دل کو عدالت کا يہ فيصلہ بہت عجيب اور خوشگوار لگا۔ کچھ آزادی سی محسوس ہوئی۔ خدا کرے يہ تاريخ ساز فيصلہ آخری نہ ہو اور حکومتی اور غير حکومتی لا قانونيت کو لگام لگے۔ واقعی 14 اگست کے ساتھ 20 جولائی کا دن بھی منايا جائے۔ يہ فيصلہ حق کی فتح ہے اور لا قانونيت کی شکست ہے۔ اس فيصلے کو زندہ رکھنے کے ليے اور بھی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ اس ميں موجودہ حکومتی لوگوں کا بھی فائدہ ہے کيونکہ وہ ہميشہ حکومت ميں ہی تو نہيں رہيں گےاور آزاد عدليہ کل ان کے بھی کام آئے گي۔
مشرف کو اپنی اور پاکستان آرمی کی عزت کے واسطے اب وردی اتار دينی چاہیے۔
’ٹھنڈی ٹھنڈی چلی ہوا
کليوں کا منہ شبنم سے دھلا
ہنس کر يہ پھولوں نے کہا
جاگو جاگو صبح ہوئی‘
حسن صاحب عوام کی فتح تب ہوگی جب امريکی حکومت کی پاکستان ميں مداخلت ختم ہو گي۔ ابھی تو صرف اميد کی جا سکتی ہے۔